حکومتوں کی کارکردگی کیلئے عموما ان کے پہلے 100 دن کی
کارکردگی کو جانچ پرکھ کر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس حکومت کا دورانیہ
کیسا ہو گا۔ اسی لیے زیادہ تر حکومتیں یہ سعی کرتی ہیں کہ ابتدائی سو دن
میں ایسے اقدامات کریں جن سے عوام خوش اور اپوزیشن کا منہ بند ہو سکے۔عام
طور پر حکومتیں محض زبانی دعوئوں' وعدوں اور نعروں کے سہارے پانچ سال
گزارنے کی کوشش کرتی ہیں اور ان وعدوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جو الیکشن
مہم کے دوران عوام سے ووٹ لینے کیلئے کیے جاتے ہیں لیکن جونہی اقتدار کا
ہما ان کے سر پر بیٹھتا ہے تو وہ اس سنگھاسن پر بیٹھتے ہی عوام کو یوں
فراموش کر دیتی ہیں گویا ان کا عوام سے کوئی رشتہ ناتا ہی نہ ہو 'کرسی پر
براجمان ہوتے ہی عوام اور حکمرانوں میں فاصلے اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ان کا
رابطہ آئندہ پانچ سال تک ہونا ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ درحقیقت ہمارا
سیاسی کلچر عوامی خدمت سے عبارت ہی نہیں ہے' سیاستدانوں کی اکثریت عوام کی
بجائے اپنی خدمت پر یقین رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں کی یاترا کرنے
والے اکثر اراکین جب اگلے الیکشن کیلئے نکلتے ہیں تو سابقہ الیکشن میں قرض
اٹھا کر مہم چلانے والوں کے بینک بیلنس لبالب بھرے ہوتے ہیں کیونکہ ان کا
مطمح نظر صرف اور صرف اپنی حیثیت' وقعت اور قیمت ہوتی ہے'یہ قیمت انہیں
کہیں بھی ملے اسی در پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں'خزاں رسیدہ پتوں کی مانند
اڑتے گرتے رہتے ہیں' فصلی بٹیروں کی طرح ایک سے دوسری پارٹی کی منڈیر پر جا
بیٹھتے ہیں اور پھر اس کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہوئے اسے ملکی ترقی کا
ضامن قرار دیتے ہیں۔ تاہم بعض سیاستدان حقیقی معنوں میں عوامی خدمت پر یقین
رکھتے ہوئے عوامی فلاح و بہبود کو اپنی سیاست کا محور و مرکز بنائے ہوئے
ہیں ۔عوامی مشکلات و تکالیف کا ازالہ ان کا ایجنڈا ہوتا ہے' عوام ایسے ہی
حکمرانوں کو پسند کرتے ہیں ۔پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس کی
وزارت اعلی کے منصب پر مختلف شخصیات فائز رہی ہیں 'ان میں سے بعض آج بھی
عوام کے دلوں میں بستی ہیں اور بعض کے ادوار عوام کیلئے سوہان روح ثابت
ہوئے۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکے بغیر ہم حال کی صورتحال پر ایک طائرانہ
نگاہ ڈالتے ہیں۔ تین بار کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم
نواز شریف صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیرِ اعلی کے طور پر اپنی خدمات انجام
دے رہی ہیں۔پنجاب ملک کا خوشحال ترین، گنجان آباد اور سیاسی طور پر اہم
ترین خطہ ہے۔جو بارہ کروڑ سے زیادہ نفوس پر مشتمل پاکستان کی نصف سے زیادہ
آبادی والا صوبہ ہے۔پنجاب میں ملک کا سیاسی درجہ حرارت ہمیشہ عروج پر رہتا
ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کی 326 نشستوں میںسے173 نشستیں ہیں 'یہ ملک کی سیاسی،
فوجی اور صنعتی اشرافیہ کا مرکز ہے۔ پچاس سالہ مریم نواز شریف اپنے والد کی
پاکستان مسلم لیگ نون میں ایک بااثر کردار ادا کرتی رہی ہیں ان کے والد
مریم کو اپنی سیاسی وارث کے طور پر سامنے لائے ہیں ۔ وہ پارٹی کی سینئر
نائب صدر ہیں۔مریم نواز شریف وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے سیاست کے گرم و سرد
میں مسلم لیگ نون کو مستحکم رکھا۔ انہوں نے پارٹی کی تعمیر نو کی اور اب
پنجاب کی تعمیرِ نو میں مصروف ہیں۔سیاست میں آنے سے قبل مریم نواز شریف
خاندان کی فلاحی تنظیموں سے وابستہ تھیں۔ شریف ٹرسٹ، شریف میڈیکل سٹی اور
شریف ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ کی چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔
انہوں نے 2012 میں باضابطہ طور پر سیاست میں اس وقت شمولیت اختیار کی جب
انہیں 2013 کے عام انتخابات سے قبل مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کا انچارج
بنایا گیا جس میں پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور ان کے والد تیسری بار وزیرِ
اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔انتخابات کے بعد انہیں وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام
کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا' 2014 میں وہ اس عہدے سے مستعفی ہو گئیں ۔آپ2017
میں سیاسی طور پر اس وقت زیادہ سرگرم ہوئیں جب ان کے والد کو وزیرِ اعظم کے
عہدے سے نااہل قرار دیا گیا انہوں نے لاہور کے حلقہ این اے 120 میں نواز
شریف کی خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات کے دوران اپنی والدہ کلثوم نواز
کیلئے مہم چلائی۔مریم اپنے والد کی برطانیہ میں چار سالہ خود ساختہ جلاوطنی
کے دوران سیاست میں فعال کردار ادا کرتی رہیں ۔انہوں نے ملک بھر میں حکومت
مخالف اہم ریلیوں کی قیادت کی اور اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کی شدید
مذمت کرتے ہوئے یہ باور کرایا کہ پی ٹی آئی ' فوج اور عدلیہ نے ان کے والد
کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے ہٹانے کیلئے تمام ناروا حربے اپنائے ۔آٹھ فروری
کے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست این اے 119 لاہور تین
اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 159 لاہورکیلئے انتخاب لڑا۔ یہ ان کا پہلا
عام انتخاب تھا۔ انہوں نے دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔پنجاب میں قیامِ
پاکستان کے سات عشروں سے زیادہ عرصے کے بعد کسی خاتون کو وزیر اعلی منتخب
کیا گیا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خاتون ہونے کے باوجود انہوں نے اپنی
حکومت کے پہلے سو دن میں جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کی نہ صرف اندورن
ملک بلکہ بیرون ملک بھی تحسین کی جا رہی ہے ۔عالمی میڈیا بھی ان کی
کارکردگی کو بیان کر رہا ہے' وہ انتھک محنت کرتے ہوئے صوبے کی عوام کو
زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔خاتون ہونے کے باوجود
ان کی کارکردگی کئی مرد وزراء اعلی سے کہیں بہتر ہے' عوام مطمئن ہیں'
مہنگائی پرکنٹرول پایا جا رہا ہے ' صحت' تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی
ہے'ترقیاتی کاموں کی رفتار کو تیز کر دیا گیا ہے'انفراسٹرکچر کی بحالی میں
ان کی کاوشیں محتاج بیان نہیں۔ ان کی حکومت کے ابتدائی سو دنوں سے باآسانی
یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیا چاہتی ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہیں
؟اپنی پارہ صفت طبیعت کی بدولت انہوں نے ان ایام میں ہمہ وقت متحرک اور
سرگرم رہ کر اداروں کے ہنگامی دورے کیے اور ان کی کارکردگی کو جانچتے ہوئے
انہیں بہتری لانے کے الٹی میٹم دینے کے ساتھ ساتھ معاملات کو کسی تاخیر کے
بغیر درست کرنے کے احکامات جاری کیے۔اتنے مختصر سے عرصے میں انہوں نے
پنتالیس منصوبے شروع کرائے۔ مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ،
امنِ عامہ اور نوجوانوں کے مسائل ان کی ترجیح اول قرار پائے۔بیس روپے میں
ملنے والی روٹی کے نرخ چودہ روپے کرنا ان کا بے مثل کارنامہ ہے ۔آٹے ،دالوں،
چینی، گوشت، سبزیوں اور خوردنی تیل سمیت متعدد اشیا کی قیمتوں میں کمی کے
لیے انہوں نے خاص طور پر دلچسپی لی جس سے عوام کو ریلیف ملا۔ ان کی جیبوں
پر پڑنے والے بوجھ میں کمی واقع ہوئی' ٹیکس فری بجٹ بھی ان کا اہم کارنامہ
ہے ۔انہوں نے رمضان ریلف پیکج کے لیے تیس ارب جاری کرائے جس سے پینسٹھ لاکھ
گھرانے اور ساڑھے تین کروڑ افراد مستفید ہوئے۔ ہتک عزت بل کی منظوری 'ورچوئل
تھانے' ڈے کیئر سنٹر'خواتین کے لیے محفوظ ہاسٹل'چیف منسٹر پنک گیمز کا
انعقاد' پنک سکوٹیز' پنک بٹنز کی تنصیب 'صاف ستھرا پنجاب پروگرام'فیلڈ
ہسپتال، امراض قلب کے مریضوں کو گھر گھر ادویات کی فراہمی ، ڈائلیسز اور
کینسر کے مریضوں کو مفت ادویات دینے اور کسان کارڈ متعارف کرا کر انہوں نے
ہر طبقہ زندگی کو آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کی ۔اس پس منظر میں یہ کہا جا
سکتا ہے کہ خاتون صرف گھریلو ذمہ داریاں ہی بخوبی ادا نہیں کر سکتی اگر اسے
موقع ملے اور وہ باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ بھرپور وژن کی حامل بھی ہو تو
مملکت کا کاروبار چلانا اس کیلئے کچھ مشکل نہیں۔ ان کی حکومت کے پہلے سو دن
بلاشبہ قابل ستائش ہیں اور یہ سو دن ان کی حکومت کی حقیقی سمت اور مستقبل
کے اقدامات کو ظاہر کرتے ہیں۔ان دنوں کو پہلا قدم قرار دیا جا سکتا ہے اور
پہلا قدم ہی طویل مسافتوں کو طے کرنے کا موجب ہوتا ہے ۔ |