سی پیک کا احیا

سی پیک دم توڑتی' سسکتی آئی سی یوکے بوسیدہ و خستہ حال بستر پر وینٹی لیٹر کے سہارے لیٹی پاکستانی معیشت کیلئے سانسیںبحال کرنے والی آکسیجن پر مبنی ایک ایسا معاہدہ تھا جسے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے بلاوجہ تاخیر سے دوچار کیا اوراس کی افادیت کا خاتمہ کر کے وطن عزیز کو نقصان پہنچایا۔ امریکہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنے کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود اس کے سامنے کورنش بجا لاتے ہوئے زانوئے تلمذ تہہ کرتے رہے۔یہ امریکی غلامی ہی کی انتہا تھی کہ ساڑھے تین سال تک سی پیک کو واقعتا ''پیک'' کر کے رکھ دیا گیا حالانکہ اب تک یہ منصوبہ تکمیل کی حدوں کو چھو رہا ہوتا اور ملک و قوم اس سے پورے طور پر مستفید ہو رہے ہوتے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ سی پیک کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ چینی سرمایہ کاری کو بھی متنازعہ بنایا جاتا رہا' قوم کو چینی سرمایہ کاری اور اس کے مستقبل کے بے بنیاد عزائم جو پاکستان دشمن قوتوں سے ادھار لیے گئے تھے سے ڈرایا جاتا رہا ۔شعور سے بے بہرہ حکمران اپنے ذاتی مفادات کیلئے ملک کے دور رس مفادات کو دانستہ و نادانستہ پس پشت ڈالے رہے۔کون نہیں جانتا کہ سی پیک خطے میں ایک گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے ' یہ پاکستان کو چین کے ساتھ منسلک کرے گا جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ سی پیک اقتصادی مواقع پیدا کرکے صوبوں میں معاشی تفاوت کا خاتمہ کرے گا۔ اس منصوبے میں سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور توانائی کے منصوبوں کے ایک وسیع نیٹ ورک کی تعمیر شامل ہے ،جو لاکھوں نئی ملازمتیں پیدا کرکے پاکستان کی معیشت کو فروغ دے گا ۔ گوادر پورٹ کی ترقی اور سی پیک کی صلاحیت بلوچستان کی آنے والی نسلوں کیلئے ایک مضبوط اقتصادی بنیاد ہے ۔گوادر کے عوام گوادر کی بندرگاہ میں اہم سٹیک ہولڈر ہیں ،اس بندر گاہ سے مقامی افراد کو کثیر فوائد حاصل ہوں گے ۔ گوادر پورٹ سے برآمدات کاآغاز ریکوڈک کان سے سونے اور تانبے کی برآمد سے شروع ہوتا ہے ، جس سے پاکستان سمیت خطے میں سماجی و اقتصادی فروغ حاصل ہوگا۔سی پیک کے میگا پراجیکٹس میں گوادر پورٹ، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، حب پاور پلانٹ، حویلیاں ڈرائی پورٹ، رشکئی سپیشل اکنامک زون ، پشاور کراچی موٹروے، ایم ایل ون اور قراقرم ہائی وے کی اپ گریڈیشن شامل ہیں ۔ سابق صدر پرویز مشرف نے 2006 میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے جن کے مطابق کم و بیش پچاس منصوبوں پر کام ہونا تھا۔سی پیک کی باقاعدہ بنیاد2013 میں مسلم لیگ نون کے دور میں رکھی گئی ۔اپریل2015 میں دونوں ممالک کے درمیان46 ارب ڈالر کی51 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ۔نومبر 2017 میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے جس کا دورانیہ2017 سے 2030 ہے۔اس سمجھوتے کا پہلا مرحلہ 2020 تک مکمل ہونا تھا۔ درمیانی مرحلے کے لیے2025 تک کا وقت طے کیا گیا جبکہ تیسرا مرحلہ 2030 تک مکمل ہونا تھا۔سی پیک کے ذریعے پاکستان میں 17045 میگاواٹ بجلی کی پیداوار، ملک بھر میں ریلوے اور سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کی جدیدکاری، نئے آپٹیکل فائبر کنکشن، گوادر اور دیگر بندرگاہوں میں بہتری اور تجارت، اہم شہروں میں چار اربن ماس ٹرانزٹ سکیموں کو مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا اور یہ منصوبے2030 تک مکمل ہونے تھے۔ان میں اب تک انیس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری والے27 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 35 ارب ڈالرز سے زیادہ والے63 منصوبے تشنہ تکمیل ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سی پیک کے متذکرہ منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام جاری تھا لیکن2018 میں تحریک انصاف نے سی پیک کو سرد خانے میں ڈال دیا' اس حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دیا اور قومی اہمیت کے حامل اس منصوبے کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی گئی' اپنے ہاتھوں اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری گئی' معیشت کی تباہی کے پروانے پر دستخط کرتے ہوئے ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کیا گیا۔اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کے عدم اعتماد کے بعد ہی سے سی پیک کے ضمن میں چین کی ناراضگی دور کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دیے گئے تھے تاہم نون لیگ کی موجودہ حکومت نے سی پیک کو پھر سے ٹریک پر ڈالنے کیلئے اپنی تمام توانائیوں و صلاحیتوں کو اس یک نکاتی ایجنڈے کے لیے وقف کر دیا ہے۔گزشتہ ماہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے چین کا دورہ کیا اور میڈیا سے گفتگو میں اس امر کا اظہار کیا کہ چین کا اعتماد بحال کر رہے ہیں تاکہ سی پیک کا فیز ٹو دوبارہ شروع کیا جا سکے۔ازاں بعد نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار چین کے دورے پر گئے جہاں انہوں نے پانچویں پاک چین وزرائے خارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کی ۔ اسحاق ڈار نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ پاک چین وزرائے خارجہ سٹریٹجک ڈائیلاگ کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے پاک چین تعلقات کے تمام پہلوئوں کے احیاء پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے پانچ روزہ دورہ چین میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اس دورے کے دوران قراقرم ہائی وے، ایم ایل ون، خنجراب پاس، گودار پورٹ منصوبوں اور زراعت، انفراسٹرکچر اور صنعتی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں 23 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ۔دونوں رہنمائوں نے سی پیک کے تحت جاری بڑے منصوبوں کی بروقت تکمیل، سی پیک کی اپ گریڈیشن اور دوسرے مرحلے میں سی پیک کے تحت ترقیاتی منصوبے آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا۔غور طلب بات یہ ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے دورے کا آغاز چینی شہر شین زین سے کیا جو آئی ٹی کا حب ہے اس سے یہ اندازہ لگانے میں دشواری پیش نہیں آتی کہ موجودہ حکومت آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے ۔اس سارے منظر نامے میں تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ہماری ہماری بیوروکریسی اور بعض ادارے مغرب اور امریکہ کو ہی اپنا مسیحا سمجھتے ہیں اور ان کے اذہان میں یہ نقش ہو چکا ہے کہ امریکہ اور مغرب سے ہی ان کی معاشی بقاہے ۔وہ یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے ہیں کہ امریکہ نے ہمیشہ ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا اور مطلب نکلنے پر ڈسٹ بن میں پھینک دیا' ہمارے بزرجمہر تاحال یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ آنے والا دور ایشیاء کا دور ہے ' ہر کمال کو زوال ہے اور امریکہ و مغرب اب اپنے زوال کا مزہ چکھنے کے دور سے بہت قریب ہیں۔لہذا عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم لکیر کے فقیر بننے کی بجائے اپنے مستقبل و مفاد کے مطابق فیصلے کرنے کی حکمت عملی اختیار کریں کیونکہ طاقت کا توازن اب چین' روس اور ایشیائی ممالک کی طرف منتقل ہونے والا ہے 'عنقریب چین اور روس کا اتحاد خطے میں نئی تبدیلیوں کا موجب ہو گا۔ حقائق بتا رہے ہیں یوکرین مغرب اور امریکہ کی آشیر باد کے باوجود روس کے سامنے گھٹنے ٹیک رہا ہے' خلیجی ممالک بھی امریکی کیمپ کی بجائے نئے اتحادی تلاش کر رہے ہیں' اسرائیل امریکی طاقت اور اسلحے کے باوجود آٹھ ماہ گزرنے پر بھی حماس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا' حال ہی میں سعودی عرب نے امریکہ سے ڈالر میں تیل کی تجارت کے پچاس سالہ معاہدے کی تجدید نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے جو ڈالر کو زمین بوس کر دے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری بیورو کریسی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ سی پیک موٹر وے طرز کا منصوبہ نہیں ہے یہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ہے جو صدیوں تک ملک کیلئے مستقل آمدن کو یقینی بنائے گا۔سی پیک سے پاکستان کی اکنامک گروتھ بڑھے گی' ٹریڈ میں اضافہ ہو گا'بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری ملکی معیشت کو چار چاند لگا دے گی 'انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور صنعتی ترقی سے ملازمتوں کے پیدا ہوں گے۔ اس لیے تمام سیاسی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ اس کیلئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کریں 'سی پیک منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اورایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کریں جو اس اہم منصوبے کی راہ میں رکاوٹ کا موجب بن سکتے ہیں۔
 

Rana Faizan Ali
About the Author: Rana Faizan Ali Read More Articles by Rana Faizan Ali: 4 Articles with 817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.