سالانہ میزانیہ:بورزواژی اور پروولتاریہ

بجٹ ہمیشہ ہی سے اعلان سے پہلے عوام کا خون سرد کرنے اور اعلان کے بعد رگوں سے قطرہ قطرہ نچوڑنے کا نام ہے ۔ خوشنما دعوئوں اور وعدوں کا یہ مجموعہ الفاظ کی جادوگری اور اعلان کرنے والے کے تاثرات کے طلسم ہوشربا پر مشتمل ہوتا ہے۔برسوں یہ سنتے گزر گئے کہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالا گیا لیکن عوام ہی اس بوجھ کو سہتے سہتے اپنی استطاعت کھو بیٹھے ہیں'آفریدگار کا کہنا ہے کہ وہ انسان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا لیکن یہ زمینی ناخدا اپنے اللوں تللوں کیلئے عوام کی روحیں خار دار جھاڑی پر ململ کے کپڑے کو بزور کھینچتے ہوئے نکال رہے ہیں۔عوام پر ڈالا گیا بوجھ انہیں بوجھ ہی نہیں لگتا کیونکہ ان کی جیبوں سے تو کبھی اپنی عیاشیوں کیلئے کچھ نہیں نکلتا وہ تو پانی کا گلاس بھی عوامی خزانے سے پیتے ہیں'ان کا پٹرول' بجلی 'پانی' فون' ٹرانسپورٹ' کھانا پینا' بیماری سب کے اخراجات عوام پورے کرتے ہیں ۔وہ جو خزانے کے مالک ہیں ان کے جسموں پر چیتھڑے لٹک رہے ہیں اور جنہیں خادم بنایا گیا ہے وہ مالک بن بیٹھے 'حقیقی مالکوں کے مال پر اپنی عیاشیوں کے تاج محل نسل در نسل تعمیر کر رہے ہیں ۔آئے تو وہ عوام کی حفاظت کیلئے ہیں لیکن عوام چوروں' ڈاکوئوں' منافع خوروں کے رحم و کرم پر ہے اور یہ خود اپنی حفاظت پر ماہانہ کروڑوں صرف کر رہے ہیں ' اگر انہیں جان کا اتنا ہی خوف ہے تو گھروں میں کیوں نہیں بیٹھتے؟عوامی خدمت کیلئے کیوں ہلکان ہو رہے ہیں'کیا ان کے پاس جمع کردہ دولت زنگ آلود ہے جس سے یہ عوام کی خدمت کا کام نہیں لیتے۔اسمبلیاں موروثی سیاست کا راستہ روکنے کیلئے کیوں بل نہیں لاتیں؟مخصوص نشستوں پر ان کے رشتہ دار اور پارٹی کارکن ہی کیوں لائے جاتے ہیں 'یہ نشستیں یونیورسٹیوں'کالجوں کے پروفیسروں'تکنیکی علوم کے ماہرین'فلاسفروں'عوام کی حقیقی خدمت پر یقین کرنے والے اداروں کے اراکین و سربراہوں سے کیوں پر نہیں کی جاتیں' انہیں وہ وزارتیں کیوں دے دی جاتی ہیں جو بار بار ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں؟

کبھی کسی اسمبلی میں یہ اعدادو شمار بھی پیش کیے گئے ہیں کہ کس رکن نے کتنا ٹیکس دیا ہے' کون ٹیکس چوری کر رہا ہے اور اس چوری پر اس کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا ہے' ان کی جائیدادیں' بینک بیلنس جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اتنی تیزی سے تو آکاس بیل بھی نہیں بڑھتی حالانکہ اگر اراکین اسمبلی و سینیٹ سے ہی پورا ٹیکس لے لیا جائے تو عوام پر مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ نئے ٹیکس گزار تلاش کرنے کا تو عندیہ دیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کتنے سیاستدانوں سے ٹیکس لینے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بجٹ وہ بناتے ہیں جنہیں عوامی مشکلات اور ان کے گھریلو بجٹ کا پتہ ہی نہیں' حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے اگر کہیں چند ٹکوں کو ریلیف دیا جاتا ہے تو دوسری جانب سے کئی گنا نکال لیا جاتا ہے۔ کیا کسی اسمبلی نے ان کارپردازان کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کی بات کی ہے جنہوں نے آئی پی پیز سے ایسے معاہدے کیے کہ وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں اربوں روپے ان کی جیب میں جاتے رہیں گے ۔یہ عوام دشمن معاہدے کرنے والے کیوں سزا کی بجائے عوامی خزانے کی گنگا میں دن رات نہا کر رہے ہیں۔ ان کے نااہلی پر مبنی فیصلوں کی سزا تو انہیں بھگتنی چاہیے جنہوں نے یہ فیصلے کیے 'عوام کیوں یہ سزا بھگتیں ؟حیرت ہے بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ عوام الیکشن میں فیصلہ کر دیں گے۔ جو غلطیاں ان سے سرزد ہوئیں' جن جرائم کے وہ مرتکب ہوئے انہیں ان کی سزا کون دے گا؟کیا یہ اس سادہ سی بات سے بے بہرہ ہیں کہ سیاستدان جس کاروبار سے منسلک ہے وہ اسمبلی میں آ کر اپنے کاروبار کے تحفظ کے اقدامات سے کیسے باز رہ سکتا ہے' معاشی ماہرین کی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ جس ٹیکس کا نام سیلز ٹیکس رکھ کر اربوں روپے اکھٹے کیے جا رہے ہیں وہ ٹیکس بیچنے والا نہیں خریدنے والا ادا کر رہا ہے۔

عوامی زندگیاں اجیرن کرنے والوں کو جیلوں میں ٹھونسنے کی بجائے عہدوں سے نواز دیا جاتا ہے۔کیا ان سے کوئی پوچھے گا کہ دعوی تو یہ وطن عزیز اور اس کی عوام سے محبت کا کرتے ہیں تو جائیدادیں باہر کیوں خریدتے ہیں؟سرمایہ کاری ملک کی بجائے باہر کیوں کرتے ہیں؟پیسہ پاکستانی بنکوں میں رکھنے سے کتراتے ہوئے اپنی دولت سے سوئٹزر لینڈ' دوبئی' امریکہ اور برطانیہ کے بنکوں کو کیوں آباد کرتے ہیں' ملک کو مالی مشکلات میں دیکھتے ہوئے یہ اپنے لاکھوں' کروڑوں' اربوں ڈالر ملک میں کیوں نہیں لاتے'کیا کوئی ایسا بل بھی پاس کیا گیا ہے جس میں باہر سرمایہ کاری کرنے'جائیداد خریدنے اور بیرونی بنکوں میں رقم رکھنے والوں پر ملکی سیاست کے دروازے بند کر دیے جائیں۔کیا جس مقصد کیلئے بیرونی قرض لیا جاتا ہے اس کے استعمال کا حساب اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے؟ کیا وزارتوں سے ان کی ناقص کارکردگی کو احتساب کی زد میں لانے کی زحمت گوارا کی گئی ہے۔ عوامی خزانے سے کروڑوں لٹانے والوں سے کیا یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ ان کی وزارت مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تو اس دورانیے میں کیے گئے اخراجات واپس خزانے میں جمع کرائے جائیں۔کیا ریلوے' پی آئی اے اور دیگر اداروں کی تباہی اور ان میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔ یہ جاننے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی کہ جو ادارے سرکاری سرپرستی میں نقصان اٹھا رہے ہیں وہ نجی ملکیت میں جاتے ہی منافع بخش کیوں ہو جاتے ہیں ؟ سرکاری اداروں کی نجکاری کا یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں تو پٹرولیم مصنوعات کے ذریعے کاروبار کر کے عوام کو کیوں لوٹا جا رہا ہے؟بجٹ بنانے والے یہ نہیں جانتے کہ مہنگائی کا اثر صرف سرکاری ملازمین پر ہی نہیں 24 کروڑ عوام پر بھی پڑتا ہے ان کیلئے بجٹ میں کیا ہے؟ عوامی مال سے ظہرانے و عصرانے کرنے والوں کو عوام کی حالت زار کا کیسے احساس و ادراک ہو سکتا ہے ؟

اس سے زیادہ مضحکہ خیز امر اور کیا ہو سکتا ہے کہ جنہیں ملک چلانا ہے' دانشوروں'فلاسفروں'تعلیمی ماہرین کی قسمت کا فیصلہ کرنا ہے ان کی تعلیمی قابلیت بتاتے ہوئے قلم کے قدم رک رک جاتے ہیں اور سینہ قرطاس سے چیخیں بلند ہوتی ہیں ۔یہاں وہ صاحب اختیار ہیں جنہیں اختیار کے استعمال کا سلیقہ ہے نہ لیڈر شپ کے تقاضوں کا۔ ملکی تاریخ میں آج تک کوئی میزانیہ ایسا ہے جس میں اشرافیہ کے مفادات کی حفاظت نہ کی گئی ہو' بورزواژی جب بجٹ بنائیں گے تو پروولتاریہ کا خیال کیوں رکھیں گے؟کیا یہ حقیقت بدل سکتی ہے کہ ''کند ہم جنس باہم جنس پرواز'' وہ جن کے ساتھ پرواز کرتے ہیں انہی کا ساتھ دیں گے۔ ستر ستر سال کی عمریں گزار کر بونس پر زندگیاں گزارنے والوں کو بھی یہ فکر نہیں کہ وہ تو اپنا حساب نہیں دے سکتے 25کروڑ عوام کا حساب کیسے دیں گے؟ عوام کو لذت کام و دہن کا محتاج بنانے کے میزانیے تیار کرنیوالے شاید فراموش کر بیٹھے ہیں کہ انہیں عنقریب میزان عدل قائم کرنے والے کی میزان کا سامنا کرنا ہے جو ہمیشگی کی حجة البالغہ کتاب میں کہہ چکا ہے کہ ''میں نے آسمان کو بلند کر کے اس میں ترازو رکھ دی' اور ترازو میں بے اعتدالی نہ کرو''۔۔۔۔


 

Rana Faizan Ali
About the Author: Rana Faizan Ali Read More Articles by Rana Faizan Ali: 4 Articles with 524 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.