اٹل بہاری واجپائی اور موہن بھاگوت کی نصیحت کا فرق

وزیر اعظم نریندر مودی اپنا موازنہ پنڈت جواہر لال نہرو سے کرتے ہیں کہ ان کی تین بار حلف برداری ہوئی تھی حالانکہ اٹل جی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا کہ ان کی پہلی سرکار 13 ؍ دن اور دوسری 13؍ ماہ بعد گر گئی مگر پھر تیسری بار حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے ساڑھے چار سال حکومت کی تھی ۔ مودی کو شاید اٹل جی کی وہ ڈانٹ نما نصیحت اب بھی یاد ہے جو انہوں نے تقریباً 22 ؍ سال قبل گجرات فساد کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کھلے عام کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ایک وزیر اعلیٰ کے لیے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ وہ راج دھرم کا پالن (اقتدار کی ذمہ داری کو ادا) کریں‘‘۔ گجرات فساد کے بعد اٹل جی نے فساد زدہ ریاست کا دورہ کیا اور ایک ریلیف کیمپ بھی گئے ۔ وہاں ایک بے گھر مسلمان کے سوال پر کہ وزیر اعلیٰ کے لیے ان کا کیا پیغام ہے؟ مذکورہ بالا بات کہی گئی تھی ۔ اٹل اور مودی میں فرق یہ ہے کہ منی پور فساد کوایک سال اور ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا مگر وزیر اعظم نریندر مودی کو وہاں جانے کی توفیق نہیں ہوئی ۔ وہ حقائق سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ۔

اٹلی میں جاکر پوپ کے ساتھ معانقہ کرنے کاڈھونگ رچانے والے مودی کی شتر مرغ والی حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلاکہ بی جے پی نےمنی پور کی دونوں نشستیں گنوادیں اور منی پور ہی کیوں آسام اور سکم کے علاوہ سات ریاستوں میں سے اسےایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی ۔ اس کے برعکس کانگریس ۴ سے بڑھ کر ۷ پر پہنچ گئی۔ یہ چشم کشا نتائج ہیں مگر جس رہنما کی آنکھوں پر نرگسیت کا پردہ پڑا ہو وہ اسے دیکھ نہیں سکتا اور نہ اس سے عبرت پکڑ سکتا ہے۔ مودی تو اس ٹھوکر کھانے کے بعد بھی نہیں جاگے مگر بھاگوت جاگ گئے۔وہ سر سنگھ چالک پچھلے ایک سال منی پور کے بھیانک فساد پر خاموشی اختیار کیے ہوئےتھے وہ بھی بولنے لگے کیونکہ اب جبکہ وزیر اعظم کمزور ہوگئے ہیں۔ بھاگوت نے کہا ’ منی پور پچھلے ایک سال سے امن کی راہ دیکھ رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے ریاست میں امن و امان تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پرانا گن (بندوق)کلچر ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ دوبارہ شروع ہوگیا۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ منی پور ابھی تک جل رہا ہے۔ اس پر کون دھیان دے گا؟ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہمارا فرض ہے‘‘۔ یعنی راج دھرم ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اس کو ادا کرنے میں کوتاہی کررہے ہیں ۔

اٹل جی نے کہا تھا کہ راج دھرم ایک نہایت ہمہ گیر اصطلاح ہے ۔ میں اسی پر عمل کررہا ہوں ، عمل کرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ یہی وہ انکساری تھی جس کا مودی میں فقدان ہے۔آگے اٹل جی بولے تھے ’ راجہ یا حکمراں کے لیے رعایا کے درمیان تفریق و امتیاز نہیں ہوسکتا ۔ نہ تو پیدائش کی بنیاد پر، نہ ذات پات کی بنیاد پر اور فرقہ کی بنیاد پر‘‘۔وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی نصیحت پر بڑی ڈھٹائی سے مودی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم بھی وہی کررہے ہیں صاحب‘ ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اٹل کی سیاسی مجبوری نے ان سے یہ کہلوایا تھا کہ ’مجھے یقین ہے نریندر بھائی یہی کہہ رہے ہیں‘۔ اس سفید جھوٹ نے اس وقت ساری دنیا کو حیران کردیا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ وزیر اعظم مودی کے منہ سے کوئی سچی بات نکل جائے تو لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔ ان کی پوری انتخابی مہم تفریق و امتیاز سے آگے بڑھ کر کھلے عام نفرت انگیزی کے محور پر گھومنے لگی تھی ۔

گجرات فساد کے دوسال بعد ایک صحافی نےوزیر اعظم اٹل بہاوی واجپائی کو لکھنو میں انہیں یاد دلایا تھا کہ گجرات میں جب آپ نے یہ کہا تھا کہ راج دھرم کا پالن ہونا چاہیے تو اس وقت آپ کے چہرے پر رنج وغم کے آثار تھے لیکن حال ہی میں (2004) سپریم کورٹ کہہ رہا ہے کہ راج دھرم ابھی بھی نہیں نبھایا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایسے تبصرے پر مرکزی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کیا کہیں گے ؟ وہ ایک ایسا زمانہ تھا عدلیہ حکومت پر تنقید کرتا تھا اور میڈیا سوال پوچھتا تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے نازک مسائل میں عدلیہ سرکار کے خلاف نہیں جاتا اور میڈیا تو صرف دُم ہلاتا ہے۔ مذکورہ بالا سوال کے جواب میں اٹل جی نے اعتراف کیا تھا کہ اگر یہ صحیح ہے کہ ابھی بھی راج دھرم پر عمل نہیں ہورہا ہے تو یہ غلط ہے۔ ہونا چاہیے لیکن یہ کام بھی نئی دہلی یا پارٹی کے مرکزی دفتر میں بیٹھے ہائی کمان سے نہیں ہوسکتا۔ اس میں بھی گجرات کے عوام کی ذمہ داری کی اہمیت ہے۔عدالت اپنا کام کررہی ہے۔ اس کا عوام میں کیا ردعمل ہوتا ہے اس پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ تشدد کے دو پہلو ہیں کسی ایک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ پہلا تشدد یعنی گودھرا نہ ہوتا تو دوسرا یعنی فساد بھی نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد وہ وہ بولے ’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تشدد کے حامی ہیں لیکن جیسا ہمارا سماج اور جیسا نظام ہےاس میں ایسے کے واقعات ہوتے ہیں ۔ انہیں روکا جانا چاہیے ‘۔

تغیر زمانہ سے یہ ہوا کہ ماضی کا ملال اب فخر میں بدل گیا ہے۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے فخریہ انداز میں گجرات کے اندر ایک عوامی جلسہ ٔ میں اس فساد کے حوالے سے اعلان کیا کہ بیس سال قبل ایسا سبق سکھایا کہ پھر تشدد بند ہوگیا۔ ا ب شاہ جی کو ملک کے عوام نے سبق سکھا دیا مگر وہ اور ان کے آقا سیکھنے سے گریز کرتے ہوئے اعلان کررہے ہیں کہ ’ہم نہ ہارے تھے ، نہ ہارے ہیں اور نہ ہاریں گے ۔ اس کے برعکس اٹل جی نے انتخابی شکست کے بعد اعترافاً کہا تھا کہ اس کی اہم ترین وجہ گجرات کا فساد تھا۔ماضی میں جس طرح اٹل جی نے سابق وزیر اعلیٰ گجرات کی سرزنش کی تھی اسی طرح کا کام موجودہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت فی الحال کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے بھگوان بن جانے پر بلا واسطہ اشارہ کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا ، ’خدا نے سب کو بنایا ہے… اس کی بنائی ہوئی کائنات کے تئیں ہمارے جذبات کیا ہونے چاہیے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ وقت کے بہاؤ میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے ان کو سوچ سمجھ کر دور کر نے کی ضرورت ہے‘۔اس ملک کے سارے لوگ بھائی بھائی ہیں۔ اس حقیقت کو فکر و عمل میں لانا چاہیے کیونکہ معاشرے کے تئیں یہ سب کی ذمہ داری ہے‘۔

بھاگوت کے مطابق خدا کی نظر میں سب ایک ہیں، ان میں کوئی ذات پات نہیں ہے، لیکن پنڈتوں نے یہ نظام بنایا، جو غلط تھا لیکن مہاراشٹر میں ان کی ناک کے نیچے بی جے پی سرکار تو منو سرتی کو نصاب میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے غلطی کی اصلاح ہوگی یا ارتکاب کیا جائے گا؟ یہ بڑی اچھی نصیحت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ سیاسی مفاد کی خاطر جب ایک بھائی کو قصائی بناکر پیش کیا جارہا تھا تو اس پر خاموش رہنے والوں کو کیا اب پروچن کرنے کا حق ہے؟ بھاگوت کی باتوں سے صد فیصد اتفاق رکھنے کے ساتھ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ جب یہ ننگا ناچ ہورہا تھا تو وہ خاموش کیوں تھے ؟ انہوں نے اپنی زبان پر قفل کیوں لگا رکھا تھا ؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے آر ایس ایس میں مودی کی بی جے پی کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں ہے اور اس کی نصیحتوں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے صدر کا یہ بیان اس خیال کی تصدیق کرتا ہے کہ جس میں کہا گیا تھا ایک زمانے میں جب پارٹی کمزور تھی تو اسے آر ایس ایس کی حمایت درکار ہے ۔ اب و ہ طاقتور ہوگئی ہے اس لیے سنگھ پر انحصار نہیں کرتی ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح مودی جی نے پارٹی کے اندر اپنے بزرگوں کو مارگ درشک منڈل( رہنما مجلس) میں بھیج کر اپنی جان چھڑا لی تھی اسی طرح کا معاملہ آر ایس ایس کے ساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں اور یہی پریشانی بھاگوت سے یہ سب کہلوا رہی ہے۔موہن بھاگوت کا خطاب کا ایک مقصد اپنی تنظیم کو تباہی سے نیز بی جے پی کو وہ برباد ہونےسے بچانا ہے لیکن اب بہت دیر ہوچکی ہے۔آر ایس ایس کی مجرمانہ خاموشی سے سب سے زیادہ نقصان خود وزیر اعظم نریندر مودی کا ہوا۔ اٹل جی کی طرح اگر موہن بھاگوت نے صحیح وقت پر اصلاح کی کوشش کرتے تو ایک زمانے میں جس وارانسی کے اندر ’ہرہر مودی گھر گھرمودی ‘ کا نعرہ گونجتا تھا اس شہر میں وزیر اعظم کی گاڑی پر کوئی چپل اچھالنے کی جرأت نہیں کرتا ۔ جب آگ لگی ہوئی تھی تو موہن بھاگوت چپی سادھے رہے اور اب راکھ کرید رہے ہیں ۔ سر سنگھ چالک کی تنقید پر افتخار راغب کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
بے اعتباریوں کا ہے سیلاب ہر طرف
پانی میں سڑ رہا ہےکمل اعتبار کا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2077 Articles with 1286835 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.