نتیش اور نائیڈو : کنگ میکر یا بلیک میلر؟

 بہار کی سیاست میں نتیش کمار کی اہمیت کو سمجھنے کےلیے انتخابی نتائج کے اعدادو شمار پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہے۔ پارلیمانی الیکشن میں اس بار بی جے پی اور جے ڈی یو دونوں کا تقریباً 3.5 فیصد ووٹ گنوائےیعنی جملہ 7فیصد سے زیادہ کا نقصان ہوا ۔ اس کے باوجودہر دو کو یکساں طور پر 12نشستوں پر کامیابی ملی۔ این ڈی اے کو کل 9 نشستوں کا خسارہ ہوا۔ اس میں سے ۵ نشستیں بی جے پی نے گنوائیں اور جے ڈی یو کو ۴ کم ملیں ۔ مانجھی کی پارٹی ہم نے ایک کا اضافہ کیا اورایل جے پی میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ۔آر جے ڈی کے ووٹ کا تناسب 6.5 فیصد بڑھا اور اسے 4؍ اضافی نشستیں ملیں۔ فی الحال اس کے ووٹ کی شرح بی جے پی سے 1.5 فیصد زیادہ ہے مگر نشستیں بی جے پی کے مقابلے ایک تہائی یعنی 4ہیں۔ کانگریس نے 1.5 فیصد ووٹ بڑھا کر 2 نشستوں کا اضافہ کرلیا ۔ سی پی آئی ایم ایل نے3 فیصد ووٹ بڑھا کر 2 اضافی نشستیں جیت لیں ۔ اس کے باوجود این ڈی اے اور انڈیا کے درمیان 9فیصد ووٹ کا فرق ہے۔ اس لیے اگر جنتا دل یو کے 18.5 فیصد ووٹ انڈیا کے ساتھ نہیں آتے تو اس کا بیڑہ پار ہونا مشکل ہے ۔ آج بھی یہی صورتحال ہے کہ نتیش کمارجس کے ساتھ جائیں گے اسی کی مرکزی اور صوبائی حکومت بنے گی۔

بہار کی سیاست میں جے ڈی (یو) کے سربراہ نتیش کمار کی معنویت ان کی ابن لوقتی کو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مخالفین انہیں 'پلٹی مار' کے لقب سے نوازنے کے باوجود ان کا استقبال کرتے ہیں۔ پورے تیس سال قبل 1994 میں نتیش کمار نے اپنے پرانے ساتھی لالو پرساد کو چھوڑ کر جارج فرنانڈیس کے ساتھ سمتا پارٹی بنائی تھی مگر 1995 میں جب نتیش کمار نے لالو پرساد کی آر جے ڈی سے مقابلہ کیا تو انہیں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ ناکامی ا نہیں 1996 میں اپنے نظریاتی مخالف بی جے پی کی پناہ میں لے گئی جو بذاتِ خود بہارکے اندر بہت کمزور تھی ۔ سمتا پارٹی اور بی جے پی کے اتحاد نے نتیش کمار کو مرکزی حکومت میں وزیر بننے کا موقع دیا اور ایک مرتبہ وہ سات دن کے لیے وزیر اعلیٰ بھی بنائے گئے مگر وہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی ۔ 2003 میں جنتا دل سے انضمام کے بعد سمتا پارٹی جنتا دل (متحدہ) میں تبدیل ہوگئی۔ا س طرح 2005 کے اسمبلی انتخابات میں جے ڈی (یو) اور بی جے پی نے مل کر 15 سال پرانی آر جے ڈی حکومت کو ہٹا کر نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔

2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے گجرات کے سابق وزیر اعلی نریندر مودی کو وزیر اعظم کے امیدوار بنایا تو نتیش کمار کو مسلمانوں کی ناراضی کا خوف بی جے پی سے الگ کرکے آر جے ڈی کی پناہ میں لے گیا۔1995کی طرح 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی نتیش کمار کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا لیکن ایک سال کے اندر تقدیر پلٹ گئی۔ 2015 میں جے ڈی (یو) - آر جے ڈی - کانگریس اتحاد اسمبلی انتخابات میں کامیاب ہوا تو نتیش کمار پھر سے بہار کے وزیر اعلی بن گئے۔ امیت شاہ نے اس وقت بھی نتیش کمار کو ڈرا دھمکا کرجے ڈی (یو) کو آر جے ڈی اورکانگریس کے اتحاد سے الگ کردیا۔ اس طرح 2017 میں نتیش کمار اپنی پرانی اتحادی بی جے پی کے ساتھ این ڈی اے میں شا مل ہوکر وزیر اعلیٰ بن گئے۔ بی جے پی جانتی تھی کہ بہار پر اپنی پکڑ قائم رکھنے کے لیے جے ڈی (یو) کا ساتھ ناگزیر ہے اس لیے نتیش کمار کی نامعقول شرائط کو تسلیم کرکے اس نے 2019 کا لوک سبھا اور 2020 کا اسمبلی الیکشن ساتھ میں لڑا۔ اس طرح 2020 کی جیت کے بعد وہ وزیر اعلی بنے رہے۔

2024میں وزیر اعظم بننے کی آرزو نے نتیش کمار کو اگست 2022 کے اندر بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے سے تعلقات توڑنے پر مجبور کیا اور وہ ایک بار پھر آر جے ڈی و کانگریس کے عظیم اتحاد میں شامل ہو گئے۔اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر انہوں حزب اختلاف کو متحد کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیامگر پھر ایک بار بی جے پی کی مرکزی حکومت انہیں بلیک میل کرکے اپنے ساتھ لینے میں کا میاب ہوگئی۔ جنوری 2024 میں نتیش کمارنے اپنی پچھلی قلابازی سے پورے ملک کو چونکا دیالیکن قسمت نے ایک بلیک میل کا شکار ہونے والےبسمل کو اپنے شکاری کا بلیک میلر بنادیا ۔ اگلے سال بہار کے اسمبلی انتخاب میں مندر اور منڈل ٹکراو ہوگا ایسے میں نتیش کمار کے لیے ان دونوں متضاد نظریات کے درمیان توازن قائم کرنا بہت بڑا دھرم سنکٹ بن کر کھڑا ہو جائےگا۔ نتیش کمار کا ووٹ بنک چونکہ پسماندہ ذاتوں پر مشتمل ہے اس لیے وہ ذات پات کی بنیاد پر کرائے جانے والی مردم شماری کے بعد دئیے گئے ریزرویشن سے دستبردار نہیں ہوسکتے ورنہ ان کے اپنے رائے دہندگان ناراض ہوکر آر جے ڈی کے ساتھ چلے جائیں گے اور اگر اس پر اصرار کریں تو بی جے پی کا ووٹر بیزار ہوکر کمل کا ساتھ چھوڑ دے گا ۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے یاد رکھنا ضروری ہے کہ بہار حکومت نے گزشتہ سال کے اواخر میں اسمبلی کے اندر ریاست کے معاشی اور تعلیمی اعداد و شمار پیش کیے تھے۔ حکومت نے ریاست کی سرکاری ملازمتوں میں ہر طبقے کا حصہ بھی بتا دیا تھا۔ بہار میں عام زمرے کی آبادی 15 فیصد ہے اور سب سے زیادہ 6 لاکھ 41 ہزار 281 لوگوں کے پاس سرکاری ملازمتیں ہیں۔ اس کے بالمقابل 63 فیصد آبادی پر مشتمل پسماندہ طبقہ کے پاس اس سے بھی کم کل 6 لاکھ 21 ہزار 481 نوکریاں ہیں۔تیسرے نمبر پر 19 فیصد کے ساتھ درج فہرست ذات کے پاس 2 لاکھ 91 ہزار 4 نوکریاں اور درج فہرست قبائل کی 1.68 فیصد آبادی کے لوگ کل 30 ہزار 164 سرکاری نوکریوں پر فائز ہیں۔ مندرجہ بالا اعدادوشمار نے یہ بات ظاہر کردی کہ کس طرح نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں نے دوسروں کا حق مار کر سرکاری ملازمتوں کو اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور اسی کے ساتھ راہل کے نیایہ (انصاف) یاترا کے دوران اٹھائے جانے والے’جس کی جتنی سنکھیا(بھاری) اس کی اتنی حصہ داری‘ کا نعرہ زندہ ہوگیا ۔

بہار میں نتیش کمار نے اس تفاوت کو ختم کرنے کے لیے ریزرویشن کا دائرہ بڑھاکر50 فیصد سے 65 فیصد کردیا۔ اس قانون کے خلاف گورو کمار سمیت دیگر کئی لوگوں نے ہائی کورٹ میں مقدمہ کردیا ۔ ان درخواستوں پر سماعت کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی بنچ نے تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ایس سی، ایس ٹی، ای بی سی اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے ریاستی حکومت کے 65 فیصد ریزرویشن کے لیے بنائے جانے والے ریاستی حکومت کے قانون کو منسوخ کرنے کا حکم دےدیا ۔نتیش کمار کے لیے یہ عافیت کی بات ہے کہ وہ اپنے رائے دہندگان سے کہیں کہ ہم تو تمہیں آگے بڑھانا چاہتے تھے مگر عدالت نے ہمارے ہاتھ باندھ دئیے۔ بی جے پی اپنے لوگوں سے کہے کہ ہم نتیش کمار کو اسے چیلنج کرنے سے روک کر غیر پسماندہ سماج کے لوگوں کی مداخلت سے اپنے ووٹرس کو بچا لیا۔ تیجسوی یادو نے اس کے خلاف سپریم میں جانے کا اعلان کرکے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ۔

ریزرویشن کے معاملے میں عدالتِ عظمیٰ کے لیے بھی ایک مشکل ہے۔ ملک میں اس وقت جو 49.5 فیصد ریزرویشن ہے اس میں او بی سی کو 27 فیصد، ایس سی کو 15 فیصد اور ایس ٹی کو 7.5 فیصد حصہ ملتا ہے۔ مودی سرکار نے اپنے غیر پسماندہ ووٹرس کو خوش کرنے کے لیے اقتصادی طور پر پسماندہ عام زمرے کے لوگوں کی خاطر 10 فیصد ریزرویشن کی گنجائش نکال لی ۔اس لحاظ سے ریزرویشن کی حد 50 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ مذکورہ بالا فیصلے کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کیا گیا تو نومبر 2022 میں اس نے اقتصادی طور پر پسماندہ عام زمرے کے لوگوں کا ریزرویشن مسترد کرنے کے بجائے یہ جواز پیش کردیا کہ یہ کوٹہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ اس طرح پچاس فیصد کا جو تقدس تھا وہ خود مرکزی سرکار اور عدالتِ عظمیٰ کے ذریعہ پامال ہوگیا۔ اس فیصلے کی بنیادی وجہ یہ تھی بیشتر جج حضرات نام نہاد اونچی ذاتوں سے آتے ہیں اور مودی سرکار بھی اسی سماج کی خیر خواہ ہے۔

بہار کے ریزرویشن کی ترمیم سے چونکہ نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کا نہیں بلکہ پسماندہ طبقہ کا فائدہ ہوتا ہے اس لیے ہائی کورٹ اس کو غیر قانونی قرار دے کر نہ صرف عدل و انصاف بلکہ سپریم کورٹ کی قائم کردہ نذیر کو بھی پامال کیا ہے ۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جب اس موضوع پر سیاست گرمائے گی تو نتیش کمار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ نتیش کمار کو جس طرح پسماندہ طبقات کا ریزرویشن عزیز ہے اسی طرح چندرا بابو نائیڈو کو مسلمانوں کے ریزرویشن سے فائدہ ہے اور یہ دونوں چیزیں بی جے پی کے گلے کی ہڈی ہیں۔ اس لیے موجودہ سیاسی صورتحال میں حزب اقتدار سے لے کر حزب اختلاف تک ہر کوئی نتیش کمار اور چندرا بابو کے حوالے سے شاکی اور پر امید ہے۔ ا ن وونوں میں سے ہر کنگ میکر نما بلیک میلر پر غالب کی زمین میں یہ شعر صادق آتا ہے؎
زنداں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے وزارت
منڈل میرے پیچھے ہے کمنڈل میرے آگے



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2077 Articles with 1286819 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.