انسان بھی عجیب مخلوق ہےجب بھی کچھ سوچتا ہے تو یہی سوچتا
ہے کہ لوگ کیا کہیں گے حالانکہ لوگوں کے کہنے نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں
پڑتا۔ انسان نے خود ہی اپنے آپ کو ایک عجیب کشمکش میں ڈالا ہوا ہے ۔لوگ کیا
کہیں گے ،جیسی سوچ نے انسان کو احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے ،اس سوچ
نے انسان کو ذہنی طور پر مفلوج کر رکھا ہے۔اس سوچ نے انسان کو نفسیاتی
امراض میں مبتلا کر رکھا ہے۔اس جملے ،لوگ کیا کہیں گے ، نے انسان کے سوچنے
سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم کسی کا منہ بند نہیں کر سکتے
لوگ وہی سوچتے ہیں جو کہ ان کو سوچنا ہوتا ہے۔اور اگر ہم اس سوچ میں پڑ گئے
کہ لوگ کیا کہیں گے تو ہم کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ لوگ تو لوگ ہیں لوگ کبھی
بھی کسی بھی حال میں آپ سے خوش نہیں ہو گے۔چاہے آپ لوگوں کی خاطر جان کی
بازی ہی کیوں نہ لگا دیں۔لوگ پھر بھی کہیں گے کہ یہ ایسے نہیں تھا مرا اس
کو ایسے مرنا چاہیے تھا تو لہذا یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ لوگ کہیں گے ۔آپ وہ
کام کریں جس میں آپ کو تسکین ملتی ہے یا جو آپ کے رب کے ہاں محبوب ہے۔۔۔۔۔۔اس
میں یہ عمل بھی قابل غور ہے کہ آخر یہ لوگ کون ہیں ؟ لوگ ہیں کیا؟ کیا ہم
لوگوں میں شمار نہیں ہوتے ؟اس لیے انفرادی طور پر ہم سب کو اپنا اپنا مثبت
کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم سب مل کر انفرادی طور پر اپنا مثبت
کردار ادا کریں گے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ آپ نہ کسی کو بات کریں اور
نہ ہی کسی کو بات کرنے کا موقع دیں بلکہ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
|