آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے

18؍ ویں ایوان پارلیمان کا آغاز توقع کے عین مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کے بول بچن سے ہوا۔ اپنے خطاب میں انہوں اپنی عادت کے مطابق حزب اختلاف کے بارے میں زیادہ اور اپنے بارے میں کم کہا لیکن جو بولے وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ان کا سب سے اہم عزم ہے ’ہم پہلے سے تین گنا زیادہ محنت کریں گے‘‘ ۔ مودی جی اس تین کی گردان سناتے وقت بھول گئے کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے ہیں ۔ اب اٹھارہ کو تین سے ضرب دیا جائے تو چوپن بنتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مودی جی چوبیس گھنٹے کے دن میں چوپن گھنٹے کیسے کام کریں گے؟ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ یہ تو ناممکن ہے تو اسے وہ مشہور مقولہ یاد کرلینا چاہیے کہ ’مودی ہے تو ممکن ہے‘ ۔ یہ کیسے ممکن ہے اس کا نمونہ مودی جی 6؍ سال قبل عالمی معاشی فورم کے اجلاس میں پیش کرچکے ہیں۔ جنوری 2018میں انہوں نے عالمی رہنماوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’بھارت کے 600 کروڈ رائے دہندگان نے 2014 میں 30 سال بعد پہلی بار ایک سیاسی جماعت کو مرکز میں حکومت سازی کے لیے اکثریت سے نوازہ ہے‘‘۔ یہ بیان ٹوئٹر ہنڈل پر بھی نشر ہوا اور اسے سیکڑوں اندھ بھگتوں نے ری ٹویٹ بھی کیا تھا۔

اس دعویٰ میں 600 کروڈ کی تعداد نے ساری دنیا کو چونکا دیا کیونکہ الیکشن کمیشن کے مطابق اس وقت جملہرائے دہندگان کی تعدادصرف 81کروڈ45 لاکھ تھی ۔ مودی جی کے دعویٰ کو درست ٹھہرانے کے لیے اس بار اترپردیش میں ایٹا کے انیل سنگھ نے 8 ؍ بار کمل پر نشان لگایا ۔ اس ویر جوان نے تو اپنے وزیر اعظم کے دعویٰ کو سچ ثابت کردیا کیونکہ اگر ہرووٹر اس کی پیروی کرتا تو ملک میں گرنے والے ووٹ کی تعداد 600 کروڈ سے تجاوز کرسکتی تھی لیکن افسوس کہ یہ عظیم کارنامہ انجام دینے والےہندو ویربہادر کو یوگی سرکار نے کیس درج کر کے گرفتار کر لیا ۔ اس کی غلطی کئی بار ووٹ ڈالنا نہیں بلکہ ویڈیو بناکر ڈھٹائی سے تشہیر کرنا ۔ مودی بھگت میں اگر سب نہ کرے تو اس کے اصلی ہونے پر شبہ ہوتا ہے؟ اب اس بیچارے کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوگیا نیز پولنگ ٹیم کے تمام ارکان کو معطل کرنے کی ہدایت جاری کر نے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان سبھی پر تادیبی کاروائی شروع کردی۔ اس کے برعکس دن رات جھوٹ بول کر اپنی ویڈیو وائرل کروانے والے زعفرانی سیاستدانوں کا بال بیکا نہیں ہوتا ۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم اڈانی پر ٹیمپو میں بھر کر روپیہ راہل گاندھی کو پہنچانے کا دعوی ٰ کردیتے ہیں مگر ان سے تو دور اڈانی اور راہل سے بھی پوچھ گچھ نہیں ہوتی ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے2018میں عالمی معاشی فورم میں کہا تھا کہ ہم نے کسی ایک طبقہ یا کچھ لوگوں کی محدود ترقی کا نہیں بلکہ سب کی ترقی کا عزم کیا ہے۔ وقت نے یہ ثابت کردیا کہ ’ہم دو ہمارے دو‘ کی سرکار میں’ ہم سے مراد مودی اور شاہ نیز ’سب‘ کا مطلب اڈانی اور امبانی ہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر جو ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کا نعرہ لگایا تھا اسے وہ پوری طرح بھول چکے ہیں۔ خیر مودی جی کے تین گنا محنت والے دعویٰ کے دو پہلو ہوسکتے ہیں ۔ اول تو اس کو بھی انتخابی جھوٹ کا تسلسل سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے اور دوسرے یہ کہ کمیت کے بجائے کیفیت پر توجہ مرکوز کی جائے ۔ یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ وہ کرتے تھےاس کو تین گنا بڑھا دیں گے تو کیا ہوگا؟ یعنی اگر پہلے ایک دن میں تین مرتبہ کپڑے بدل کر تین بھاشن دیتے تھے تو اب نو بار کپڑے بدلے جائیں گے اور ہر دن نو عدد خطابات ہوں گے ۔ گودی میڈیا دن رات ان ویڈیو کی ترویج و اشاعت کرکے حقِ نمک تواداکرے گا مگر اسے دیکھے گا کون ؟ لوگ مودی کو دیکھ دیکھ کر اور سن سن کر پک چکے ہیں ۔اب تو یہ حال ہے کہ مودی کی ٹیلی ویژن پر آتے ہی ناظرین کا ہاتھ ریموٹ پر جاتا ہے لیکن بیچارہ گودی میڈیا سرکاری اشتہار کی خاطر اسے نشر کرنے کے لیے مجبور ہے۔

اپنے ابتدائی کلمات میں مودی جی نے تین گنا زیادہ محنت کے نتیجے میں تین گنا بہتر نتائج لانے کا اعلان کیا ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ مہنگائی ، بیروزگاری اور جبر و استحصال میں تین گنا اضافہ ہوجائے گا اس لیے کہ پچھلے دس سالوں میں اس سرکار نے ان ہی انعامات سے عوام کو نوازہ ہے۔ انہوں نے حزب اختلاف کو یہ نصیحت کرڈالی کہ ملک کے عوام اپوزیشن سے اچھے اقدامات کی توقع کرتےہیں اور انہیں امید ہے کہ مخالفین اس پر کھرا اتریں گے ۔ اس پروچن کے بین السطور میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ اب ملک کے عوام نے موجودہ حکومت سے خیر کی امید چھوڑ دی ہے۔ وہ اس سرکار سے پوری طرح مایوس ہوچکے ہیں اور کیونکہ وہ حسبِ توقع کے اپنے اڑیل رویہ پر جمی ہوئی ہے ۔ مودی کی نئی سرکار کے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ اسی لیے سبھی اہم وزارتوں کے علاوہ ایوان کا صدر یعنی اسپیکر تک نہیں بدلا گیا ۔ ملک کے لوگوں کو یہ فریب دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کچھ بھی نہیں بدلا حالانکہ بہت کچھ بدل گیا ۔ اس فریب دہی کے ذریعہ ابن الوقتوں کو بھاگنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی میں فی الحال جو کنفیوزن پایا جاتا ہے اس کا مظاہرہ پہلے ہی دن ہوگیا۔ ایوان پارلیمان کے اندر حزب اقتدار کی پہلی صف میں چار حضرات بیٹھے تھے ۔ ان میں سے ایک برہمن نیتن گڈکری سب سے نچلے درجے پر تھا ۔ ان سے اوپر امیت شاہ نامی ویش یعنی بنیا تھا۔ دوسرے نمبر پر شتری یعنی ٹھاکر راجناتھ سنگھ تھے اور سب سے اوپر او بی سی وزیر اعظم یعنی شودر تھا ۔ یہ کل یگ کا ہندوتوا ہے جس میں ٹھاکر اور بنیا کی جگہ تو نہیں بدلی مگر برہمن اور شودر کا مقام ادل بدل گیا۔ موجودہ سرکار بی جے پی کی نہیں بلکہ این ڈی اے کی ہے مگر نشست و برخواست میں حامی جماعتوں کا کہیں اتہ پتہ نہیں تھا۔ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کو پیچھے سرکا کربی جے پی کا لیبل ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ وہ جب ایوان میں آئے تو لوگ اپنی نشستیں سنبھال چکے تھے۔ ان کے لیے پہلی اور دوسری صف میں کوئی جگہ نہیں تھی اس لیے وہ تیسری قطار کی جانب بڑھے ۔ یہ دیکھ وزیر قانون ارجن میگھوال کو ان پر رحم آگیا اور انہوں نے اپنے بغل میں بیٹھے جی کشن ریڈی کو پیچھے جاکر نڈا کے لیے جگہ بنانے کے لیے کہہ دیا ۔ وہ پیچھے کی جانب نکلے تو ’گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ لگانے والے انوراگ ٹھاکر کو احساس ہوا کہ اب چونکہ انہیں وزارت سے محروم کردیا گیا ہے اس لیے پیچھے جاکر بیٹھنا چاہیے ۔ اس افرا تفری کے بجائے اگر بیچارے پارٹی صدر کو پہلی قطار میں امیت شاہ کے بغل میں بیٹھا لیا جاتا تو کون سا آسمان پھٹ پڑتا؟

راہل گاندھی کے ساتھ یہ حسن اتفاق ہوا کہ وہ جس وقت ایوان میں داخل ہوئے تو اسی لمحہ قومی ترانہ شروع ہوگیا اور سارے ارکان پارلیمان کو تعظیم میں کھڑا ہونا پڑا۔ یہ اعزاز تو مودی کو بھی نہیں ملا تھا ۔ وہ جس قطار کے پاس پہنچتے تھے وہاں پر بی جے پی کے ارکان پارلیمان اٹھ کر بے دلی کے ساتھ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ تو لگاتے تھے مگر حزب اختلاف بھلا کیوں اٹھتا ؟ مگر راہل گاندھی کی آمد کے وقت کسی اور وجہ سے سہی سبھی لوگ کھڑے ہوگئے تھے۔ افتتاحی اجلاس میں سب سے اہم پیغام سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے دیا ۔ انہوں ایوان کے اندر داخل ہوتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جو تصویر کھنچوائی تو اس میں ایک طرف ڈمپل یادو اور دوسری جانب اودھیش سنگھ پاسی تھے۔ رام جس وقت بن باس کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ بھی سیتا اور لکشمن تھے ۔ مودی کی سیتا یعنی جسودھا بین کو یہ سعادت کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ اٹلی کی سربراہ جارجیا میلونی کو یہ موقع مل سکتا تھا مگر وہ بیچاری ہندوستانی پارلیمان کی رکن نہیں ہے لیکن ڈمپل کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا۔

اکھلیش سنگھ یادو پسماندہ طبقہ سے آتے ہیں اور اودھیش سنگھ پاسی دلت ہیں ۔ ان دونوں کا ساتھ بیٹھنا اس بات کی علامت تھا کہ اب کمنڈل کی منڈل سے جنگ چھڑ چکی ہے اور اس آمنے سامنے کی لڑائی میں زعفرانیوں کی اسی طرح شکست ہوگی جیسے ایودھیا میں بی جے پی کے رکن پارلیمان للن سنگھ کی ہوئی ہے۔ یہ تو اس وقت ہوگیا جبکہ رام مندر کی پول کھلی نہیں تھی یعنی اس کی چھت ٹپکی نہیں تھی ۔ مودی جی خوش قسمت تھے جو یہ انتخاب ایودھیا کی سڑکوں کے ٹوٹنے ، دیوار کے گرنے اور مندر کی چھت ٹپکنے کے بعد ہواورنہ مودی سرکار سریو ندی میں بہہ جاتی۔ مودی تو بچ گئے مگر یوگی نہیں بچیں گے اگلے انتخاب میں سماجوادی پارٹی کی سائیکل لازماً ان کے بلڈوزر کو کچل دے گی ان شاء اللہ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451279 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.