سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق
کیس کی سماعت جاری ہے جو براہ راست ٹیلی کاسٹ کی جاری ہے۔ سماعت کے دوران
معزز وکلاء کے دلائل، معزز ججز کے ریمارکس و تابڑ توڑ سوالات اور سوشل
میڈیا پر نت نئے تبصروں کی بدولت مختلف سیاسی جماعتوں میں بے چینی بڑھتی
جارہی ہے۔ پی ٹی آئی حمایتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعہ معزز ججز کے
ایسے ریمارکس جس سے انکی جماعت کے موقف کو بظاہر تقویت ملتی نظر آئے اسکی
تشہیر زور وشور سے کی جارہی ہے جبکہ پی ٹی آئی مخالف سوشل میڈیا اکاؤنٹس
کی جانب سے معزز ججز کے ایسے ریمارکس جس سے پی ٹی آئی/سنی اتحاد کونسل کے
موقف کی بظاہر نفی نظر آئے اسکی تشہیر جاری و ساری ہے۔ باوجود اسکے مخصوص
نشستوں کا مقدمہ سیاسی سے زیادہ آئینی و قانونی ہے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا
پارٹی انتخابات پر سپریم کورٹ کےفیصلہ اور مخصوص نشستوں کے موضوع پر اپنی
گذشتہ تین معروضات "اندرشیر باہر ڈھیر" اور "سپریم کورٹ فیصلہ کے 20نکات"
اور" مخصوص نشستوں سے محرومی کا ذمہ دار کون؟" میں چند حقائق منظر عام پر
لانے کی ادنی سی کوشش کی تھی اور یہ عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی نووارد
افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے ۔ پارٹی کی موجودہ قیادت کی اکثریت وکلاء
حضرات پر مشتمل ہے۔ مگرافسوس ایسے سینئر اور فاضل وکلاء کے ہوتے ہوئے بھی
ہر آئینی و قانونی محاذ پر پی ٹی آئی کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ سپریم
کورٹ براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونے والی سماعت کی بدولت یہ دیکھنے میں آیا ہے
کہ ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے بڑھکیں مارتی پی ٹی آئی قیادت کمرہ
عدالت میں آئینی و قانونی سوالات کے جوابات دینے سے قاصر نظر آتی ہے۔ ان
فاضل وکلاء کو انتخابی نشان کے متعلق الیکشن ایکٹ، 2017کے باب نمبر 12اوراس
میں درج دفعات 214تا218 او ر مخصوص نشستوں کے متعلق آئین پاکستان کے
آرٹیکل 51، آرٹیکل 106اور آرٹیکل 224(6) کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ کے
باب نمبر 7اور اسکی دفعہ 104 اور الیکشن رولز 2017کی دفعات 92اور 94 کا
مطالعہ کرنے سے کس نے روکے رکھا تھا؟ ان دفعات میں واضح طور پر درج ہے کہ
مخصوس نشستیں صرف اس سیاسی جماعت کو الاٹ کی جاتی ہیں جو سیاسی جماعت اپنے
انتخابی نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لیکر اسمبلیوں تک پہنچے۔ الیکشن ایکٹ
کے سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفافیت سے نشستوں کے لیےلسٹ دینی
ہوتی ہے لیکن اس سے زیادہ اور کیا مضحکہ خیز بات ہوگی کہ سنی اتحاد کی طرف
سے کسی امیدوار نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، اسی سبب خواتین کی لسٹ
موجود نہیں اور نہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی یعنی خود سنی اتحاد
کونسل کے امیدواروں نے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بطور جماعت
حصہ نہیں لیا اور حد تو یہ ہے سنی اتحاد کونسل کے پارٹی چیئرمین صاحبزادہ
حامد رضا نے پارٹی ٹکٹ/ نشان کی بجائے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ
لیا تھا۔ کیا پی ٹی آئی کے فاضل وکلاء نے اپنے آزاد ممبران اسمبلی کے سنی
اتحاد کونسل میں شمولیت سے پہلے آئین و قانون کی مذکورہ دفعات کے مطابق
معاملات کو پرکھ لیا تھا یا پھر شمولیت اختیار کرنا جلدبازی یا جذباتی
فیصلہ تھا؟ اس وقت پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے معزز وکلاء کو سپریم
کورٹ میں جاری سماعت کے دوران معزز ججز کی جانب سے انہی سوالات کا سامنا
کرنا پڑرہا ہے۔ مخصوص نشستوں کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کرہ
حکم نامہ میں بہت ہی اہم قانونی ضرب المثل کا ذکر کیا گیا تھا کہ law is
for the vigilant not the indolent سادہ الفاظ میں اسکا مطلب ہے کہ یہ طے
شدہ بات ہے کہ قانون چوکس شخص کی مدد کرتا ہے نہ کہ بےخبر/نادان شخص کی ۔
بحیثیت قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ آئین پاکستان اور الیکشن
ایکٹ 2017کے مطابق فروری 2024انتخابات میں جیت کر پہنچنے والے سنی اتحاد
کونسل اور پی ٹی آئی ممبران کی حیثیت صرف اور صرف آزاد ممبرپارلیمنٹ ہی
کی ہے۔ لہذا الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین و الیکشن
قوانین کی روشنی میں حقائق پر مبنی تھا اور قوی امکان یہی ہے کہ الیکشن
کمیشن کا مخصوص نشستوں کا حکم نامہ سپریم کورٹ میں بھی برقرار رہے گا۔
ہوسکتا ہے کچھ معزز ججز کی جانب سے اختلافی نوٹ بھی آئے کہ نئی قانون سازی
تک مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ معطل رکھی جائے، کیونکہ خیبر پختونخواہ میں
اپوزیشن جماعتوں کو انکی عددی قوت کے برعکس زائد مخصوص نشستوں کے ملنے کا
امکان ہے۔ یاد رہے سنی اتحاد کونسل عدالتوں میں مخصوص نشستوں کے حصول کے
لئے تگ و دو میں مصروف عمل ہے مزے کی بات یہ ہے کہ اس جماعت نے الیکشن ایکٹ
کے سیکشن 104 کے تحت انتخابات کے انعقاد سے پہلے مخصوص نشستوں کے لئے اپنے
امیدوران کی ترجیحی فہرست ہی الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کروائی تھی۔ کیا ہی
بہتر ہوتا اگر سنی اتحاد کونسل کی بجائے اسمبلیوں میں ان جماعتوں میں
شمولیت اختیار کی جاتی جن کی اسمبلی میں موجودگی ثابت ہوچکی تھی جیسا کہ
مجلس وحدت المسلمین پاکستان یا مسلم لیگ ضیاء یا جمعیت علماء اسلام تو
یقینی طور پر مخصوص نشستوں کے حصول میں اس طرح رسوا نہ ہونا پڑتا۔ بطور
قانون و سیاست کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ انتخابی نشان اور مخصوص
نشستوں سے محرومی کی ذمہ دار خود پی ٹی آئی لیڈرشپ ہے۔
|