قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں تین سے چار تاریخ تک
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان مملکت کی کونسل کے 24 ویں
اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے
رہنماؤں نے ایس سی او آستانہ اعلامیے پر بھی دستخط کیے اور اسے جاری
کیا۔اعلامیے کے مطابق ایس سی او ممبران بین الاقوامی اور علاقائی مسائل کے
حل کے لئے محاذ آرائی کی ذہنیت کے استعمال کی مخالفت کرتے ہیں۔اعلامیے میں
شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتوں اور
غزہ میں انسانی تباہی کی شدید مذمت کی گئی۔ دوسروں کی سلامتی کی قیمت پر
اپنی سلامتی اور تحفظ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا۔چین کے چھنگ ڈاؤ شہر کو
2024-2025 کے لئے شنگھائی تعاون تنظیم کا سیاحتی اور ثقافتی دارالحکومت
قرار دے دیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں 2025 ء کو
پائیدار ترقی کا سال قرار دے دیا گیا ہے۔
اعلامیہ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک
سمجھتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو جامع امن، سلامتی اور استحکام کو
فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ایک نئے جمہوری اور منصفانہ بین الاقوامی سیاسی اور
معاشی منظرنامے کی تعمیر میں بڑا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے دنیا میں انصاف، ہم آہنگی اور ترقی کے
لئے یکجہتی کے بارے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اقدام کو اپنایا اور بین
الاقوامی برادری کی شمولیت کی تجویز پیش کی۔ رکن ممالک نے ایک نئی قسم کے
بین الاقوامی تعلقات اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے اپنی
کوششوں کا اعادہ کیا جس میں باہمی احترام، انصاف، شفافیت اور جیت جیت تعاون
شامل ہے۔ رکن ممالک نے بین الاقوامی قانون کے عالمی طور پر تسلیم شدہ
اصولوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کے تنوع، مساوات اور باہمی فائدہ مند تعاون
اور اقوام متحدہ کے مرکزی رابطہ کار کردار پر مبنی ایک زیادہ وسیع ، جمہوری
اور منصفانہ کثیر قطبی عالمی نظام کی تعمیر کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
سمٹ کے دوران دنیا میں انصاف، ہم آہنگی اور ترقی کے فروغ کے لیے یکجہتی اور
مشترکہ کوششوں پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اقدام کی منظوری دی گئی، شنگھائی
تعاون تنظیم کے آپریشنل میکانزم کو بہتر بنانے کی تجاویز، اچھی ہمسائیگی،
باہمی اعتماد اور شراکت داری کے اصولوں پر ایک بیان اور توانائی، سرمایہ
کاری اور انفارمیشن سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون سے متعلق متعدد قراردادوں
کی بھی منظوری دی گئی۔اجلاس میں بیلاروس کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت
کی باضابطہ منظوری دی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ چین 2024 سے 2025 کے دوران
شنگھائی تعاون تنظیم کی صدارت سنبھالے گا۔
چینی صدر شی جن پھنگ نے سمٹ سے اہم خطاب کرتے ہوئے کئی امور کی کھل کر
وضاحت کی اور کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے ارکان کو اتحاد کو
مستحکم کرنا چاہئے اور مداخلت اور تقسیم کے حقیقی چیلنجوں کا سامنا کرتے
ہوئے مشترکہ طور پر بیرونی مداخلت کی مخالفت کرنی چاہئے۔شی جن پھنگ نے واضح
کیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کو ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کرنی
چاہیے، ایک دوسرے کے خدشات کو مدنظر رکھنا چاہیے، اندرونی اختلافات کو ہم
آہنگی کے جذبے کے ساتھ حل کرنا چاہیے اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے
ہوئے مشترکہ بنیاد تلاش کرکے تعاون کی مشکلات کو حل کرنا چاہیے اور اپنے
ممالک کی تقدیر اور خطے کے امن و ترقی کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں لینا
چاہیے۔
چینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ دنیا کو ایک صدی میں نظر آنے والی تبدیلیوں
کا سامنا ہے، انسانی معاشرہ ایک بار پھر تاریخ کے چوراہے پر کھڑا ہے۔اس بات
کا ذکر کرتے ہوئے کہ 23 سال قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے
قیام کے بعد سے آج تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد 10 ہو چکی ہے ، شی نے کہا
کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تعاون کی بنیاد زیادہ مضبوط ہوگئی ہے کیونکہ
شنگھائی تعاون تنظیم کے "بڑے خاندان" کی رکنیت بڑھ رہی ہے جو دنیا بھر میں
تین براعظموں کا احاطہ کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم تاریخ،
انصاف اور شفافیت کے دائیں جانب کھڑی ہے اور یہ دنیا کے لیے بہت اہمیت کی
حامل ہے۔
شی جن پھنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ سرد جنگ
کی ذہنیت کے حقیقی خطرے کے پیش نظر سلامتی کو یقینی بنائیں۔رکن ممالک
مشترکہ، جامع، تعاون پر مبنی اور پائیدار سلامتی کے وژن پر عمل کریں،
مذاکرات اور ہم آہنگی کے ذریعے پیچیدہ اور باہم مربوط سیکیورٹی چیلنجز سے
نمٹیں اور انتہائی بدلتے ہوئے بین الاقوامی منظرنامے کا جواب جیت جیت حکمت
عملی کے ساتھ دیں ، تاکہ پائیدار امن اور عالمگیر سلامتی کی دنیا کی تعمیر
کی جا سکے۔انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ حقیقی خطرات کے پیش نظر
ترقی کے حق کا تحفظ کریں۔
شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ رکن ممالک کو باہمی فائدے اور شمولیت پر عمل
کرنا چاہیے، سائنسی اور تکنیکی جدت طرازی پر زور دینا چاہیے، صنعتی اور رسد
کی زنجیروں کو مستحکم اور ہموار رکھنا چاہیے، علاقائی معیشتوں کی داخلی
تحریک کو متحرک کرنا چاہیے اور مشترکہ ترقیاتی اہداف کے لیے کام کرنا
چاہیے۔
|