نتیش کمار اور مودی کا پُل کب ٹوٹے گا؟

ریاست بہار کےاندر گزشتہ دو دنوں میں تین پُل گر چکے ہیں اور گزشتہ 15؍ دن میں 10؍ پُل گر چکے ہیں جبکہ تیجسوی یادو کے دعوے کے مطابق 12؍ پل منہدم ہو چکے ہیں۔ ان پلوں کے ٹوٹنے کا نتیش کمار اور نریندرمودی کے ساتھ سے کوئی خاص تعلق نہیں کیونکہ اگر وہ تیجسوی کے ساتھ بھی ہوتے تو بھی پُل اپنے وقت پر ٹوٹ جاتا ۔ اس انہدام سے عوام کو بے شمار مشکلوں کا سامنا کرنے پڑے گا لیکن خواص تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے درمیان بنے پُل کے ٹوٹنے کا انتظار کررہے ہیں ۔ نتیش کمار پُل بنانے میں ماہر ہیں ۔ وہ کبھی مودی اور کبھی لالو کے ساتھ پُل بنالیتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ان کا ایک پُل ہے جو کبھی نہیں ٹوٹتا۔ فی الحال مسلمانوں کے ووٹ کی اہمیت بہار میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیا ضلع کے بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں ضمنی انتخاب کی تاریخ کا اعلان بھی نہیں ہوا ہے لیکن وہاں آر جے ڈی کے خیمے میں ایک آواز مسلم رہنماکو ٹکٹ دینے کا مطالبہ اٹھنے لگا ہے۔

مسلمانوں کی دلیل ہے کہ وہ برسوں سے یہاں آر جے ڈی کے امیدوار کو ووٹ دیتے آرہے ہیں تاکہ این ڈی اے اتحاد کا امیدوار نہیں جیتے۔ یہاں تک کہ گزشتہ کئی اسمبلی انتخابات کے دوران این ڈی اے میں شامل جے ڈی یو اور ہم پارٹی کے مسلم امیدواروں کو مسلم ووٹروں کا ووٹ آر جے ڈی کے بنسبت کم پڑا۔ لیکن اس بار اگر مسلم رہنما کو امیدوار نہیں بنایا گیا تو مسلم ووٹر این ڈی اے کے ساتھ چلے جائیں گے، امیدواری کے طالب گاروں میں آر جے ڈی کے سابق ضلع صدر محمد یاسر ، موجودہ صدر محمد نظام سمیت کئی اور رہنماوں کے نام ہیں ۔کانگریس کے محمد موسی نے کہنا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں مسلمانوں نے انڈیا اتحاد کے حق میں جم کر ووٹ کیا اور بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہے کہ وہاں جیت ہار کا فیصلہ مسلمانوں کے ووٹ سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جے ڈی یو نے کئی بار مسلم رہنماء کو امیدوار بنایا لیکن آر جے ڈی نے ایک بار بھی ایسا نہیں کیا۔ انڈیا اتحاد کے حوالے سے مسلم رائے دہندگان کو 2025 کے اسمبلی انتخابات میں اچھے پیغام اور تاثرات دینے کے لیے ضمنی انتخاب میں مسلم رہنماء کو ٹکٹ دینا بہتر ہے۔

مسلمانوں کے درمیان یہ باز گشت ہے کہ آر جے ڈی کے سریندر پرساد یادو کو ریاست میں سیکولر نظریہ کی حکومت بنانے کے لیے ووٹ دیا جاتا تھا مگر اس ضمنی انتخاب سے حکومت بننے یا گرنے والی نہیں ہے اس لیے سریندر کے بیٹے وشو ناتھ کو ٹکٹ دینے کے بجائے مسلمان کو کامیاب کیا جائے۔ مسلمان پوچھ رہے ہیں کہ پہلے والد کو 35 برسوں تک ووٹ دیا گیا اور اب اگر ان کے بیٹے کو آر جے ڈی مسلط کرے گی رو مسلمانوں کا رجحان بدل جائے گا کیونکہ اس بارچونکہ حالات بدلے ہوئے ہیں اس لیے مسلمانوں بھی دوسری پارٹی کی جانب متوجہ ہوسکتے ہیں اور یہ دوسرا کوئی اور نہیں نتیش کمار کا امیدوار ہوگا۔ بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں جے ڈی یو کی طرف سے ہم پارٹی کے رہنما اسد پرویز عرف کمانڈر نے جے ڈی یو کی جانب سے شارم علی کا نام زیر بحث ہے۔ موصوف کے والد مرحوم پروفیسر شوکت علی کا وزیر اعلی نتیش کمار کے ساتھ سمتا پارٹی کے دور سے تعلقات تھے بلکہ شارم علی نے اپنی سیاست جے ڈی یو سے ہی شروع کی تھی۔

شارم علی نے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کی ٹکٹ پر آر جے ڈی کے امیدوار ڈاکٹر سریندر پرساد یادو کے خلاف انتخاب بھی لڑ چکے ہیں ۔ شا رم علی کو 42000 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور انہیں محض 12 ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی تھی۔ آگے چل کر انہوں نے ( 2020 )کے اسمبلی انتخاب میں چندر شیکھر آزاد کی پارٹی سے انتخاب لڑاتھا مگر اس بار جے ڈی یو میں شامل ہوکر وہ انتخاب لڑنا چاہتے ہیں۔ شارم کے علاوہ اقبال حسین، محمد امجد، جے ڈی یو کے سابق ضلع صدر ایڈوکیٹ شوکت علی خان ، صبیح الباقی عرف پرنس سمیت کئی اور رہنما اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں ۔ مسلم امیدواری کی غیر موجودگی میں جے ڈی یو یہاں سے سابق ایم ایل سی منور ما دیوی یا ان کے بیٹا راکی یادو کو ٹکٹ دے سکتی ہے۔ مسل امیدوار کے مطالبے کی وجہ یہ ہے کہ بیلا گنج اسمبلی حلقہ میں موجود تین لاکھ سے زائد ووٹر میں قریب 65 ہزار مسلم ووٹر ہیں جبکہ 55 ہزار کے قریب یادو برادری کےلوگ ہیں۔

بہار کے اندر نتیش کمار کی اس کامیابی کے پسِ پشت ’پاسباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی‘ والی حکمت عملی کا بڑا عمل دخل ہے ۔ انہوں نے بی جے پی کا ساتھ لینے کے باوجود مسلمانوں سے رشتہ منقطع نہیں کیا ۔ نتیش کمار کے مشیر مولانا عمر نورانی کے مطابق این ڈی اے میں رہتے ہوئے نتیش کمار نے بہار میں این آر سی کے خلاف اسمبلی میں بل پاس کرواکر مسلمانوں کا اعتماد حاصل کیاجبکہ سرکار میں شامل بی جے پی اس کی مخالف تھی ۔نورانی کا دعویٰ ہے کہ این ڈی اے میں رہنے کے باوجود جے ڈی یو اپنے نظریہ اور اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرے گی یعنی یو سی سی اور اگنی ویر اسکیم میں نظرثانی پر زور دیتی رہے گی ۔ وہ کہتے ہیں مخلوط حکومت کے اندر یک طرفہ فیصلے نہیں ہونگے بلکہ متنازع معاملوں میں سبھی ریاستوں اور اتحاد و حکومتوں کے مشورے سے متفقہ فیصلے کیے جائیں گے۔مولانا عمر نورانی پر امید ہیں کہ مسلمان اسمبلی انتخابات میں بھی جے ڈی یو کو ووٹ کریں گے کیونکہ وہ بہار میں ترقی، امن بھائی چارہ چاہتی ہے۔

حالیہ پارلیمانی الیکشن میں جے ڈی یو نے تمام تر مسائل کے باوجود 12 نشستوں پر جیت درج کرلی ۔انتخابی نتائج کے بعد سیاسی مبصرین اور رہنماوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ جے ڈی یو کی اس جیت میں مسلمانوں کا بھی اہم کردار ہے۔ اس دعویٰ کی حقیقت کوئی نہیں جانتا مگر جیتن رام مانجھی کی پارٹی ’ہم‘ اور جے ڈی یو کے مسلم و غیر مسلم رہنمااس بات کا کھلے عام اعتراف کرتے ہیں۔ وزیراعلی نتیش کمار نے مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کرنے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیا ۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی موجودگی میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ بی جے پی کے ساتھ رہ کر بھی وہ مسلمانوں کے مسائل کو حل کرتے رہے ہیں ۔اس کے برعکس آر جے ڈی اور تیجسوی یادو کی بابت یہ تاثر عام ہوگیا کہ انہوں نےانتخابی تشہیر میں مسلم قیادت کو نظرانداز کیا ۔ اس کی وجہ سےسیوان اور پورنیہ جیسے مقامات پر مسلمانوں نے آر جے ڈی کا ساتھ نہیں دیا ۔

سیوان سے سابق رکن پارلیمان ڈاکٹر شہاب الدین کی اہلیہ تین مرتبہ آر جے ڈی کے ٹکٹ پر انتخاب ہار چکی ہیں لیکن لالو پرشاد یادو سے شہاب الدین کی قربت کے سبب ٹکٹ ملتا رہا۔ اس بار تیجسوی یادو نے حنا کی جگہ اودھ بہاری چودھری کو لالٹین پکڑا دیا ۔ اس فیصلے کے خلاف حنا شہاب نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑا اور نتائج نے ثابت کردیا کہ آر جے ڈی کا فیصلہ غلط تھا ۔ حنا شہاب کو اودھ چودھری سے تقریباً ایک لاکھ ووٹ زیادہ ملے ۔ ان دونوں کے ووٹ جمع کردئیے جائیں تو حنا جے ڈی یو کی امیدوار وجئے لکشمی دیوی سے 46ہزار ووٹ کے فرق سے جیت جاتیں ۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ سیوان کے مسلمانوں نے یکمشت حنا شہاب الدین کی حمایت کرکے اپنی ناراضی کا اظہار کیا ۔ سیوان ہی کی طرح پورنیہ میں بھی تیجسوی کا فیصلہ غلط نکلا اور آر جے ڈی کی امیدوار تیسرے نمبر پر رہیں ۔ وہاں پر پپو یادو کافی مقبول ہیں اور انتخاب سے قبل وہ اپنی پارٹی کو کانگریس میں ضم کرکے انڈیا محاذ میں شامل ہوگئے۔

پورنیہ کو کانگریس اور پپو کے لیے چھوڑ دینا سیاسی دانشمندی کا تقاضہ تھا مگر وہاں سے آر جے ڈی نے بیما بھارتی کو میدان میں اتار دیا۔ وہ چار بار رپولی سے رکن اسمبلی کا انتخاب جیت چکی ہیں مگر اس دوران انہوں نے کئی بار آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے درمیان ہچکولے کھائے ہیں۔ پپو یاد اگر باہو بلی ہیں تو بیما بھارتی کے شوہر اور بیٹا بھی اسی پس منظر سے آتے ہیں ۔ پورنیہ کے مسلمانوں کو تیجسوی کا فیصلہ پسند نہیں آیا ۔ مسلمان سمیت پورنیہ کے دیگر لوگوں نےپپو یادو کو تقریباً 24 ہزار ووٹ کے فرق سے کامیاب کرکے بیما بھارتی کی ضمانت ضبط کروادی کیونکہ انہیں صرف 27 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ ملے ۔ کشن گنج حلقۂ انتخاب میں مسلمانوں کی آبادی 65.2% فیصد ہے اس لیے کانگریس، جے ڈی یو اور اتحاد المسلین تینوں نے مسلم امیدوار میدان میں اتار دئیے ۔ یہاں پرہندووں نے جے ڈی یو کو ووٹ دیا ہو جو دوسرے نمبر رہا اور ایم آئی ایم کے اخترالایمان تیسرے مقام پر آئے۔ مسلم ووٹ کی تقسیم کے باوجود کانگریسی امیدوار 93586 کے فرق سے کامیاب ہوگیا۔بہار کی سیاست کے اندر مسلمانوں کے اندر خود اعتمادی میں اچھا خاصہ اضافہ ہوا ہے جو نیک شگون ہے۔ بہار کے مسلمان مودی جی کی وجہ ست نتیش کمار سے دور ہوگئے ہیں لیکن اگر وہ اس پُل کو مسمار کرکے آر جے ڈی کے ساتھ نیا بُل بنا لیں تو مسلمان ان پر پھر سے فدا ہوجائیں گے۔



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451573 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.