منڈل کی آنچ پر کمنڈل کی ہانڈی کب تک چڑھے گی؟

جنتا دل یونائیٹڈکی قومی مجلسِ عاملہ کا سیاسی قرارداد منظور کرکے نتیش کمار کو لوک سبھا انتخابات میں پارٹی کی جیت پر مبارکباد دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کرکٹ کی ٹیم اپنے کوچ کو مبارکباد دے۔ کوچ کا تقرر ہی اس کام کے لیے کیا جاتا وہ تو بس بنیادی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ اس کی ادائیگی پر اسے مبارکباد دینا نہایت مضحکہ خیز حرکت ہے۔ کسی اسکول یا کالج کے طلباءکی اچھے نمبروں سے کامیابی پر ان کے پرنسپل کی جانب سے حوصلہ افزائی تو قابلِ فہم ہے مگر الٹا طلباء اپنے استاد کو مبارکباد نہیں دیتے لیکن نتیش کمار کی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ جے ڈی یو کی مجلس عاملہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو این ڈی اے کی جیت پر تہنیت پیش کی مگر بی جے پی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس میں یہ پیغام ہے موجودہ سرکار بی جے پی نہیں این ڈی اے کی مرہونِ منت ہےکیونکہ بی جے پی تو اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ سیاست کی دنیا کے اندر اشارے کنائے میں پیغام رسانی کے اپنے آداب ہوتے ہیں جن سے نتیش کمار خوب واقف ہیں ۔

مبارک سلامت کی اس منافقت کے بعد نتیش کمار کی پارٹی نے دو مطالبات کرکے موجودہ حکومت کےساتھ تنازعات کی داغ بیل ڈال دی ۔ ان میں سے پہلا مطالبہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ یا مخصوص پیکیج دینے کاہے۔ جموں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے والی بی جے پی اگر اپنی مرکزی حکومت کو بچانے کے لیے پہلے بہار اور پھر آندھرا پردیش کو بھی خصوصی درجہ دے دیتی ہے تو جموں کے اندر بی جے پی کے رائے دہندگان کیا سوچیں گے اور لداخ کا بودھ سماج اسے کیوں ووٹ دے گا ؟ وادیٔ کشمیر کے مسلمان تو بی جے پی کے الٹا لٹک جانے پر بھی ووٹ نہیں دیں گے اسی لیے اس نے وہاں سے امیدوار کھڑا کرنے کی بھی جرأت نہیں کی تھی۔ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کروا نے کے بعد اس لحاظ سے ریزرویشن کی توسیع کرنا جے ڈی یو کےلیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بی جے پی کے اندر بھی چونکہ اس کی کھلے عام مخالفت کی ہمت نہیں ہے اس لیے اس نے پٹنہ ہائی کورٹ کے چور دروازے سے ا سے مسترد کروا دیا۔ آر جے ڈی نےاس فیصلے کو عدالتِ عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرکے نتیش کے لیے سنفین مسائل پیدا کردیئے۔ اس معاملے میں نتیش کمار کی کمزوری آر جے ڈی کے وارے نیارے کردیں گے ۔

ریزرویشن کے دائرۂ کار بڑھانا بی جے پی کے لیے بہت بڑا دھرم سنکٹ ہے۔ وہ اگر اس کی حمایت کرے تو اس کے برہمن بنیا ووٹرس ناراض ہوجاتے ہیں اور مخالفت کرے نتیش کمار ، چراغ پاسوان اور جتن رام مانجھی کا سیاسی وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اس لیے جے ڈی یو نے اسے نویں شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کردیا۔ این ڈی اے کے اندر پڑنے والی اس دراڑ کا فائدہ اٹھا کر کانگریس نے اس کے اگلے ہی دن پارلیمنٹ میں 50 فیصد کی حد سے زیادہ ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے ایک قانون بنانے کی مانگ کردی ۔ اب یہ صورتحال ہے کہ بی جے پی کی خاموشی کے باوجود شیڈول کاسٹ (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے لیے ریزرویشن کو 50 فیصد سے بڑھا کر 65 فیصد کرنے کے بہار ی فیصلے نے کئی سیاسی جماعتوں نے ہلچل شروع کردی ۔ بی جے پی کے کمنڈل میں ویسے تو پہلے ہی کئی سوراخ ہوچکے ہیں اب دیکھنا ہے کہ منڈل کی اس دھواں دھار بارش میں اس کا کیا حال ہوگا؟

ریزرویشن پر این ڈی اے میں شامل اترپردیش کے اپنا دل ایس کی رہنما اور مرکزی وزیر انوپریا پٹیل نے یوگی حکومت کو خط لکھ کر ایک نیا بکھیڑا کھڑا کردیا ۔ انوپریہ پٹیل کے سماج وادی پارٹی ایم پی لال جی ورما کی حمایت سے بی جے پی خیمے میں ہنگامہ ہوگیا ۔ لال جی ورما نے اہل نہ ہونے کی بنیاد پر محفوظ عہدوں کو ختم کرنے پر اعتراض کیا تھا ۔ یوپی کی امبیڈکر نگر لوک سبھا سیٹ سے ایس پی ایم پی نےسرکاری نوکری میں تحفظ پر ایک پوسٹ لکھ کرایسا وبال مچایا کہ این ڈی اے اتحاد سے بھی انہیں حمایت ملنے لگی ۔ لال جی ورما نے لکھا "ایس جی پی جی آئی لکھنؤ میں نیورولوجی ڈپارٹمنٹ میں پروفیسر کی دو سیٹیں تھیں جن میں ایک سیٹ یو آر (ان ریسَروڈ) کے لیے تھی اور ایک سیٹ او بی سی کے لیے تھی۔ ڈاکٹر سرویش ورما اس کے لیے واحد امیدوار تھے۔ سرویش ورما نے اپنی پہلی کوشش میں ہی ایم بی بی ایس کوالیفائی کیا تھا اور اس کے بعد انہیں ڈی ایم نیورولوجی کے امتحان سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ وہ اس عہدے کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ لال جی ورما نے پوچھا کہ بڑے اداروں میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جہاں او بی سی سیٹوں پر او بی سی امیدواروں کا داخلہ نہیں کرکے سیٹیں خالی چھوڑ دی جاتی ہیں۔ کیا او بی سی ہونا ہی ڈاکٹر سرویش کا جرم ہے؟‘‘

لال جی ورما کی تائید میں مرکزی حکومت کی وزیر انوپریہ پٹیل نے یوپی حکومت کو لکھا کہ او بی سی، ایس سی اور ایس ٹی کے عہدوں کے لیے ریزرویشن کو اس بنیاد پر ختم نہیں کیا جانا چاہیے کہ ان عہدوں کے لیے امیدوار موزوں نہیں ہیں بلکہ اس عہدے کو اس وقت تک خالی رکھا جائے جب تک کہ اس زمرے کا کوئی موزوں امیدوار نہ مل جائے۔قومی انتخابات کے دوران انڈیا اتحاد نے ریزرویشن کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کی مگر بی جے پی اس کو مسلم ریزرویشن کا نام دے کر پسماندہ سماج کو ڈراتی رہی کہ وہ لوگ تمہارا حق چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے جیتے جی مذہبی بنیاد پر ریشرویشن ناممکن ہے لیکن اب ان کو جھک کر ایسا کرنا پڑے گا ورنہ سرکار گر جائے گی اوروہ جھولا اٹھا کر جانے کے لیے مجبور کردئیے جائیں گے۔

سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے حال میں بی جے پی پر ملک میں پسماندہ ریزرویشن کے خلاف کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی ریزرویشن کی بنیادی روح کے خلاف چھیڑ چھاڑ کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی والے ریزرویشن کے بنیادی اصولوں کے خلاف مسلسل کام کر رہے ہیں۔ اکھلیش یادو نے یہ بھی کہا کہ انہیں معلوم ہونا چاہیئے باشعور شہری ان کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں۔انہوں نے آئین کو بچانے کے لئے ووٹ دینے والوں کو یقین دلایا کہ اگر آئین پر حملہ ہوا تو سماجوادی عوام کے ساتھ کھڑی نظر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں ہم سب کا مطالبہ تھا کہ مردم شماری کرائی جائے، مردم شماری کے مطابق سب کو حقوق اور عزت ملنی چاہیئے، آئین کی پاسداری کا یہی تقاضہ ہے۔ یہ بات 49 کے ایمرجنسی کے دوران آئین کی برخواستگی پر ٹسوے بہا کر نہیں چھپائی جاسکتی ۔

کانگریس نے بھی بڑی مہارت سے اس اختلاف کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ۔ اس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا کہ لوک سبھا انتخابی مہم کے دوران اپوزیشن پارٹیاں کہتی رہی ہیں کہ ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سی کیلئے ریزرویشن سے متعلق سبھی ریاستی قوانین کو نویں شیڈیول میں شامل کیا جانا چاہئے ۔ رمیش نے جے ڈی یو کے ذریعہ 29 جون کی جانب سے کیے جانے والے اس مطالبہ کا خیر مقدم کیا اور ریاست اور مرکز دونوں میں اس کی اتحادی جماعتوں کی توجہ اس سنگین معاملے میں بی جے پی کی مکمل خاموشی کی جانب مبذول کروائی ۔سابق مرکزی وزیر نے آگے بڑھ کر کہا کہ ویسے تو ریزرویشن قوانین کو 50 فیصد کی حد سے باہر نویں شیڈول میں لانا بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کے 2007 میں ایسے قوانین کو عدالتی نظرثانی کا تابع کرچکا ہے یعنی جو ہائی کورٹ میں ہوا وہی اوپر بھی ہوسکتا ہے ۔

جئے رام رمیش کے مطابق اس مقصد کے لیے آئینی ترمیمی قانون کی ضرورت ہے۔یعنی چار سو پار کرنے کے بعد ریزرویشن کو ختم کرنے والوں کو اب اس کی حد بڑھانی ہوگی ورنہ سرکار گر جائے گی کیونکہ اس مطالبے کی حمایت بی جے پی کے سارے حامیوں کی مجبوری ہے۔کانگریس کے اس موقف کو سیاسی ابن الوقتی کے خانے میں ڈالنا ممکن نہیں ہے کیونکہ اگست، 2021 میں جب کانگریس اور ترنمول کانگریس نے پیگاسس مسئلے پر بحث کرنے کی تجویز پیش کی تو اسپیکر نے اسے مسترد کرکے دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) برادریوں کی فہرست بنانے کا اختیار ریاستوں کو دینے سے متعلق آئین کے 127 ویں ترمیمی بل میں سبھی کو الجھانے کی کوشش کی۔ اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپوزیشن نے الزام لگایا تھاکہ عوام کے دباؤ میں اس بل کودو سال پہلے کی گئی غلطیوں کو سدھارنے کیلئے مجبوراً لانا پڑا ہے ۔ کانگریس نے اسی وقت سرکار سے ریزرویشن کے لیے 50 فیصد کی حد کو ہٹانے کے لئے بل لانے کا مطالبہ کیا تھا ۔ منڈل کے معاملے میں کانگریس سمیت حزب اختلاف میں شامل ساری جماعتیں اور این ڈی اے کے اندر موجود علاقائی جماعتوں کے در میان زبردست ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور مودی ۳ سرکارکا ذات پات کے مدعا پر کرنے کا قوی امکان ہے۔ ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا اور ہوگا تو کب ہوگا یہ کہنا کسی بڑے سے بڑے جیوتش کے بس کی بات نہیں ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451452 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.