عالمی موسمیاتی رپورٹ جب سے پڑھی ہے تب سے پریشانی سی
لاحق ہو گئی ہے کہ کہ آنے والے دنوں میں ہمارا کیا بنے گا کیا خاص کر ان
علاقوں کے باسیوں کا جہاں اس سال گرمی نے کڑاکے نکال دیے ہیں ہمارے سندھ کے
رہائشی لوگوں نے توان گرمیوں میں بجلی کے بغیر جو گرمیوں کے مزے لیے ہیں
پنجاب والے بھی ان سے پیچھے نہیں رہے اور رہی سہی کسر بجلی کے بلوں نے پوری
کردی ہے ایسے لگتا ہے کہ حکمران غریب عوام کے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک
نچوڑنا چاہتی ہے جن کے ووٹوں سے اقتدار میں آئے ہیں انہیں ہی رگڑا لگایا
جارہا ہے ایک غریب محنت کش کو جون کا بل بجلی 35ہزار آیا ہوا ہے اور اسکے
پورے مہینے کی آمدن 30ہزار بھی نہیں ہے اس نے کرایہ مکان بھی دینا ہے اور
تین بچوں کو کھلانا پلانا بھی ہے اب وہ کیا کریگا اپنے بچوں کو فاقے کروائے
گا یا حالات سے تنگ آکر خود کشی کر لے گا یا پھر ڈاکو بن کر لوٹ مار کرے گا
خیر وہ جو بھی کرے اسکا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں حکومت نے بس اس سے بل
وصول کرنا ہے ہر صورت میں ورنہ ہمارے ووٹوں سے ہم پر مسلط ہونے والے حکمران
اپنی عیاشیاں کیسے کرینگے یہ تو بیچارے اتنے غریب ہیں کہ سرکاری گاڑی پر
اپنی جیب سے پیٹرول تک نہیں ڈلوا سکتے اپنے دفتر میں آنے والوں کو اپنی جیب
سے ایک کپ چائے کا نہیں پلوا سکتے اور تو اور اپنے گھروں کے بل بھی ادا
کرنے کے قابل نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے جو خرچہ کرنا تھا وہ الیکشن میں
کردیا اب یہ عوام کے پیسوں پر موج مستیاں کرینگے بہرحال ایک بات تو اب سب
ہی مان رہے ہیں کہ بجلی بلوں کے ستائے ہوئے لوگوں صرف موقعہ کی تلاش میں
ہیں اور اندرواندر سلگ رہے ہیں جس دن کسی نے بھی ان جابرانہ بلوں کے خلاف
احتجاج کی کال دیکر ایک ہلکی سی چنگاری بھی پھینک دی تہ پھر ان سلگتے ہوئے
بے جان جسموں میں ایسے ایسے دھماکے ہونگے کہ کسی کو بھاگنے کا موقعہ نہیں
ملے گا اب بھی وقت ہے کہ حکومت فوری طور پر بلوں میں 50فیصد تک رعایت دے
تاکہ عام آدمی کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو ورنہ پھر واقعی انقلاب کی تیاری کریں
اور پھر نہ کہنا کہ ہمیں خبر نہ ہوئی اس کے علاوہ جس خبر نے پریشان کررکھا
ہے کہ پاکستان کے گرم ترین علاقے آئندہ 7 سالوں کے بعد رہنے کے قابل نہیں
رہے گے کیونکہ ہم نے اپنی زرعی زمینوں پر بڑی بڑی ہائسنگ سوسائٹیاں بنا لی
ہیں درختوں کی کٹائی کرکر کے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھیکنا ہے جسکی وجہ سے گرمی
کی شدت میں ابھی سے بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے عالمی موسمیاتی جریدے نے
پاکستان کے گرم ترین علاقے بلوچستان پنچاب اور سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے
پیش نظر خبردار کردیاہے کہ سندھ اور بلوچستان میں معمول سے زیادہ پھلدار
مقامی درخت نا لگایا گیا تو یہ علاقے آئندہ 7 سال بعد رہنے کے قابل نہیں
رہے گے اور پارہ 57 تک جانے کا قوی امکان ہے اس لیے ہمیں اپنے آپ کو زندہ
رکھنے کے لیے سندھ پنچاب اور بلوچستان میں آبادی کے لحاظ سے ہر ایک فرد کو
ایک ایک پھلدار درخت لازمی لگانا چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم
ہو اور ان علاقوں میں ٹمپریچر شدیدگرمیوں کے موسم میں 40۔42 تک رہے بدقسمتی
سے ہم نے نئے درخت لگانے کی بجائے پرانے درختوں کو ہی ختم کردیا اور زرعی
زمینوں پر جگہ جگہ ہاؤسنگ کالونیاں بنا لیں ہم نے لاہور شہر کو 70 سے 100
کلو میٹر تک پھیلا دیا ہے ہم نے ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاون کے نام سے ہزاروں
ایکڑ پر موجود دنیا کی بہترین زرعی زرخیز اراضی اور شہر کے قریب نایاب
الیچی،امرود اور آم کے باغ اجاڑ دیئے ہیں اب یہ وبا تمام چھوٹے بڑے شہروں
میں تیزی سے پھیل گئی ہے اگر ہمارے حکمران سوچ سمجھ کر ملکی مفاد کو سامنے
رکھ کر فیصلے کرتے تو اور لوگوں کے ساتھ بھلائی یا نیکی کرنا چاہتے تو
قاہرہ جیسے شہر کی طرح فلیٹ سسٹم کو رواج دیتے رہی سہی کسر روڈا نے پوری
کردی ہے لاہور شہر کی بغل میں بلک ہشہر سے متصل داروغہ والہ چوک سے لے کر
بند روڈ کے ساتھ ساتھ پاکستان بلکہ دنیا کا بہترین زرعی زرخیز رقبہ ہے جہاں
سے لاہور شہر اپنی سبزیوں اور جانوروں کے لیے چارہ جیسی ضروریات پوری کرتا
ہے اشرافیہ کی نظر اب اس پر ہے راوی اربن ڈویلپنمٹ اتھارٹی کے نام سے میلوں
میں کئی صد مربع زرخیز رقبہ کالونستان کے نام پر ختم کر دیا گیا ہے برکی
روڈ،بیدیاں روڈ،جی ٹی روڈ واہگہ بارڈر تک، لاہور شرق پور روڈ اورلاہور قصور
روڈ کو دیکھ لیں ہم نے حکومتی اداروں سے ملکر فارم ہاوسز اور سوساٹیز کے
نام سے ایک مرلہ زمین بھی نہیں چھوڑی جس کی وجہ سے دودھ،تازہ سبزیوں اور
تازہ پھلوں کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے جبکہ ہم نے دریا ہر نہر ہر کھالے ہر
بنے اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ کیکر، نیم، شیشم، پیپل، بوہڑاور سکھ
چین کے نایاب اور قیمتی درخت جڑوں سے اکھاڑ کر بیچ دیے ہیں یہی وجہ ہے کہ
اب پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور دو چار سال میں درجہ حرارت
55 تک پہنچ جائے گا جہاں انسانی حیوانی اور فصلوں درختوں کی زندگی ناممکن
ہو جائے گی اسلیے درخت لگائیں اپنے لیے اور اپنی آنے والی نسل کیلیے اس سے
پہلے کے دیر ہوجائے خشک سالی غالب ہونے سے پہلے پہلے آئیں زمین کو درختوں
اور ہریالی کی سرسبز چادر اوڑھا دیں تاکہ ہماری زمین بنجر ہونے سے بچ جائے
اور زیر زمین پانی کو کڑوا اور نایاب ہونے سے بھی بچایا جا سکے اس کا واحد
حل جنگلات کی بحالی اور گھنی شجرکاری ہے ہماری اور ماحول کی بقا اسی میں ہے
اور آنے والی نسلوں کا صحتمند مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے آئیں، سب مل کر
درخت لگائیں اور ماحول کو خوبصورت بنائیں اس لیے ابھی سے سنبھل جائیں ورنہ
پریشانیاں ہی پریشانیاں ہونگی کہیں گرمی کی تو کہیں بلوں کی ۔
|