نریندر مودی کا دورہ روس پر امریکہ و مغرب ممالک کی تشویش

گذشتہ ہفتے جمعرات کو نئی دہلی میں یو ایس-انڈیا ڈیفنس نیوز کانکلیو میں انڈیا میں امریکن سفیر ایرک گار سیٹی نے بات کرتے ہوئے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے روس کے دورے کے بارے میں انڈیا کو ای طرح سے خبردار کیا۔ امریکن سفیر نے کہا کہ ’اب کوئی بھی جنگ دور نہیں ہے۔
ایرک گارسیٹی نے کہا کہ انڈیا امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس طرح نہ لے کہ وہ کسی بھی حالت میں غیر متزلزل حالات میں رہے گا۔

امریک سفیر نے کہا کہ امریکہ اور بھارت کو ضرورت کے وقت ایک دوسرے کے قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر مل جُل کر کام کرنا چاہیے۔

امریکن سفیر کے بیان سے واضح ہے کہ مودی کے دورۂ روس پر امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں کافی کشیدگی نظر آ رہی ہے.
( کہیں انڈیا میں بھی مودی کے خلاف عدم اعتماد نہ آجائے)

انڈین وزیراعظم مودی ایک ایسے وقت میں روس پہنچے تھے جب مغربی ممالک کے رہنما نیٹو اتحاد کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں جمع ہو رہے تھے اور روسی میزائلوں سے یوکرین میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکن سفیر گارسیٹی نے مزید کہا: ’کوئی جنگ اب دور نہیں ہے اور ہمیں نہ صرف امن کے لیے پُرعزم رہنا چاہیے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ امن میں خلل ڈالنے والوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کی جائے۔
جبکہ اس سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بھی مودی کے دورۂ روس کے حوالے سے بیان دیا تھا۔ ملر نے گذشتہ ہفتے اپنی رسمی گفتگو میں کہا تھا: ’روس کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کے بارے میں ہماری تشویش بالکل واضح ہے۔ ہم نے اپنی تشویش حکومت انڈیا کے سامنے رکھی ہے اور اس میں کوئی ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
اس ہی طرح جمعے کی شام انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے امریکہ کے این ایس اے جیک سولیوان سے بات کی۔ سولیوان نے روس کے ساتھ انڈیا کے تعلقات پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ ’روس پر شرط لگانا انڈیا کے حق میں نہیں ہے۔

جیک سولیوان نے واشنگٹن میں نیٹو کےاجلاس کے موقع پر ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا: ’انڈیا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے روس پر طویل مدتی شراکت دار کے طور پر بازی لگانا امریکہ کے لیے اچھا خیال نہیں ہے۔ یہ بات خاص طور پر انڈیا کے لیے درست ہے۔

اس کی وجہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ’روس چین کے قریب آ رہا ہے اور اس کا جونیئر پارٹنر بننے کی اپنی سی کوشش میں لگا ہوا ہے، روس کسی بھی دن اس کی طرف جھک جائے گا۔ چین کی طرف سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کی صورت میں یہ مسئلہ وزیر اعظم مودی کے لیے بھی تشویشناک بن سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں نظر آرہا ہے۔

جبکہ پچھلے دو سالوں میں انڈیا کی طرف سے روسی تیل کی خریداری میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ انڈیا روسی تیل کی ایک بہت بڑی ریفائنری بن گیا ہے۔'’بہتر ہوتا کہ انڈیا جانے والا روسی تیل مغربی ممالک سے چلنے والے بحری جہازوں پر جی 7 کی حدود میں جاتا، لیکن اس کا زیادہ تر حصہ پوتن کے ظلی فلیٹ سے گزر رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یوکرین پر روسی جارحیت میں انڈیا مدد کر رہا ہے۔ اسے روکنا ہوگا۔

انڈیا کے سابق سکریٹری خارجہ اور روس میں انڈیا کے سفیر کنول سبل نے رابن بروکس کے استدلال کو 'روس کو شکست دینے میں مغرب کی اپنی ناکامی کی ذمہ داری منتقل کرنے کی کوشش' قرار دیا ہے۔

رابن بروکس نے اپنے ٹویٹ کوشیئر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ 'من مانی پابندی، یوکرین کو ہتھیار دینا، زیادہ سے زیادہ مہلک ہتھیاروں کی فراہمی، یہ سب ناکام ہو گیا تو دوسروں قربانی کا بکرا بنانا اپنی شدید غلطیوں کی ذمہ داری سے نکلنے کا ایک بہترین طریقہ ہے.

انہوں نے ایک دفعہ پھر کہا کہ امریکہ، یورپ اور چین کی خریداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ 'یورپ اب بھی روس سے تیل، گیس، کوئلہ خریدتا ہے۔ خود امریکہ ٹائٹینیم اور دیگر اہم دھاتیں روس سے خریدتا ہے۔ یورپی کمپنیاں پابندیاں توڑ رہی ہیں۔ دوسرے ممالک کے ذریعے روس کے ساتھ تجارت کرنے والا چین انڈیا سے زیادہ تیل، گیس اور دیگر اشیا خریدتا ہے۔

انڈیا اور روس کے تعلقات امریکہ کے لیے بری خبر نہیں ہیں۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اب پہلے سے کم سازگار رجحانات اور جغرافیائی سیاسی حالات ہیں۔ دوسرے یہ کہ یوکرین جنگ پر انڈیا نے روس کی مخالفت کی ہے اور بین الاقوامی دباؤ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور تیسرے یہ کہ انڈیا اور روس کی شراکت داری سے روس چین تعلقات پر لگام لگانا ہے۔ چین کے عروج میں حصہ ڈال کر امریکہ نے انڈیا کے لیے ایک ناقابل تسخیر فوجی دشمن پیدا کر دیا ہے جو خطے میں اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ اب چین کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈیا روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہا ہے۔ اس وقت امریکہ غیر دانستہ طور پر اب چین کو روس کا بینکر اور اقتصادی لائف لائن بننے میں مدد کر رہا ہے۔

روس کو چین کا جونیئر پارٹنر کہنا درست نہیں ہوگا کیونکہ اس نے اکیلے یوکرین میں نیٹو کا سامنا کیا اور مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ سینکڑوں اقتصادی پابندیاں جھیلیں۔ جون میں جاری کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین، امریکہ اور انڈیا کے بعد روس دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بنتا جارہا ہے اور حد نظر بن گئی ہو.

روس اتنا خودمختار اور فوجی لحاظ سے اتنا طاقتور ہے وہ چین کا جونیئر پارٹنر بھی نہیں بن سکتا ہے۔ اس کی وسیع حکمت عملی امریکہ کو توازن میں رکھنا، یوریشیا اور ایشیا میں طاقت کا مرکزی توازن قائم کرنا ہے اور کثیر قطبی دنیا کو ایک صورت فراہم کرنے کے لیے گلوبل ساؤتھ کے ممالک سے تعاون کرنا ہے۔

1971 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان 13 روزہ جنگ ہوئی۔ یہ جنگ مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے ہوئی۔ اس جنگ کے بعد ہی مشرقی پاکستان علیحدہ ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ اس سے قبل انڈیا مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کی بالادستی کے بارے میں پوری دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

مشرقی پاکستان سے بڑی تعداد میں مہاجرین انڈیا پہنچ رہے تھے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان سیاسی حل کے سوا کوئی دوسرا چارہ نظر نہیں آرہا تھا.۔ اس وقت سوویت یونین واحد ملک تھا جس نے انڈیا کی بات سنی۔ اور اگست 1971 میں انڈیا کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 'انڈیا-سوویت امن، دوستی اور تعاون معاہدہ' پر دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت سوویت یونین نے انڈیا کو یقین دلایا تھا کہ جنگ کی صورت میں وہ سفارتی اور ہتھیار دونوں طرح کی مدد فراہم کرے گا۔

ماسکو انڈیا کے لیے ایک قابل اعتماد پارٹنر رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو اہمیت دیتا رہا ہے۔ لیکن سوویت یونین اور انڈیا کی دوستی کا آغاز 1971 میں نہیں ہوا تھا۔ آزاد انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بھی سوویت یونین کے ساتھ نظریاتی قربت تھی۔
انڈیا پہلے ہی چین اور پاکستان کی دوستی سے نبرد آزما رہا ہے۔ ایسے میں انڈیا روس کو ان کے ساتھ شامل ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر انڈیا روس سے الگ ہو جاتا ہے تو ایران میں انڈیا کا چابہار منصوبہ شروع نہیں ہو سکے گا اور شمال جنوب کوریڈور پر کام نامکمل رہ جائے گا۔

ایران کے ساتھ انڈیا کی قربت روس سے دور ہو کر حاصل نہیں کی جا سکتی۔ امریکہ کی چین سے لڑائی ہو سکتی ہے لیکن تجارت کم نہیں ہو رہی۔

لیکن 27 ماہ بعد بھی یوکرین میں جنگ جاری ہے۔ اپاہج ہونا تو دور کی بات، روس کی معیشت حیران کن طور پر ترقی کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے مطابق روس کی معیشت رواں سال تین عشاریہ دو فیصد کے حساب سے ترقی کرے گی۔ یہ شرح دنیا کی کئی ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ ہے۔

عالمی پابندیوں نے روس کی دکانوں میں سامان کی کمی پیدا نہیں کی۔ اس وقت روس کی سپر مارکیٹیں بھری ہوئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بڑھتی ہوئی قیمتیں ایک مسئلہ ضرور ہیں اور ہر چیز موجود نہیں کیوں کہ کئی مغربی کمپنیاں یوکرین پر روسی حملے کے بعد احتجاج کے طور پر ملک چھوڑ کر جاچکی ہیں۔

تاہم ان مغربی کمپنیوں کی مصنوعات اب بھی مختلف ذرائع اور راستوں سے روس پہنچ رہی ہیں۔ اگر آپ تلاش کریں تو روس کی دکانوں میں امریکی کولا بھی دستیاب ہے۔

 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 192001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.