اسرائیلی ظلم و بربریت کے درمیان زخمی فلسطینی ماں کی موت کے بعد بچے کی پیدائش

 غزہ میں اسرائیلی ظلم و بربریت کا بازار ابھی گرم ہے۰۰۰ معصوم اور بے قصور فلسطینی شہید اور زخمی ہورہے ہیں۰۰۰ کہیں مائیں اپنے نومولودوں کو چھوڑ کر اسرائیلی حملوں میں داعی اجل کو لبیک کہہ رہی ہیں تو کہیں معصوم شیر خوار اور ننھے منے بچے جنت کے باغات کا رخ کررہے ہیں۰۰۰ مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کیلئے ہزاروں فلسطینی مرد و خواتین شہادت کا جام پی چکے ہیں اور نہیں معلوم فلسطینیوں کو مستقبل میں مزید کتنا صبر آزما دور دیکھنا پڑے گا۰۰۰ عالمِ اسلام کے حکمرانوں میں اتنی جرأت اور طاقت نہیں کہ وہ اسرائیلی ظلم و بربریت کو ختم کرانے کیلئے اس سے بات چیت کریں۰۰۰ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو اپنی کرسی عزیز ہے اور وہ نہیں چاہتے ہیں کہ مظلوم فلسطینیوں کیلئے اسرائیل سے دشمنی موڑلیں۰۰۰ اگر آج بھی عالمِ اسلام کے تمام حکمران متحدہ طور پر اسرائیلی اشیاء خوردو نوش اور دیگر کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کردیں تو وہ دن دور نہیں جب اسرائیل خود فلسطینی علاقوں پر اپنی ظالمانہ کاررائیوں کو روکنے کیلئے خود سپرد ہوجائے گا۰۰۰ عالمِ اسلام، امریکہ،برطانیہ اور دیگر اسرائیل کی مدد کرنے والے ممالک پر دباؤ ڈالتے ہوئے انہیں اسرائیل کا تعاون کرنے سے روکنے کی کوشش کریں اور انہیں انتباہ دیں کہ اگر وہ اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے اسکی مالی اور فوجی طاقت میں اضافے کے ذریعہ مدد کررہے ہیں توان ممالک کی اشیاء کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا ۔ لیکن ایسا ہونا یا کرنا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ عالمِ اسلام کے حکمرانوں میں صرف بیان بازی کے علاوہ کوئی خاص عنصر دکھائی نہیں دیتا۰۰۰ جس طرح عام شہری احتجاج کرتے ہوئے بیان دیتے ہیں اسی طرح عالمِ اسلام کے رہنماؤں کا حال ہے۰۰۰ غزہ کی پٹی اور فلسطین کے دیگر علاقوں کو جس طرح اسرائیل نے ملیامیٹ کرکے رکھدیا ہے اور لاکھوں شہریوں کو بے گھر کر دیا ہے اسکے خلاف اقوام متحدہ اور عالمِ اسلام صرف بیان بازی کے علاوہ کچھ کر نہیں پارہے ہیں۔ اقوام متحدہ اتنا بڑا ادارہ ہونے کے باوجود اسرائیل کی ظالمانہ کاررائیوں کو روکنے سے قاصر ہے۔ ایسی کئی فلسطینی حاملہ خواتین ہیں جنکے شکموں میں بچے پل رہے تھے اور وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئیں اور انکی اولاد بھی انکے ساتھ شہید ہوگئے ، لیکن ان میں سے یکہ دکّا حاملہ خواتین جو شدید زخمی ہونے کے بعد خالقِ حقیقی سے جاملیں ان کی روح پرواز ہونے کے بعد ڈاکٹروں اور طبی عملے نے محسوس کیا کہ انکے شکموں سے معصوم جانوں کی زندگی باقی ہے تو فوراً آپریشنس کے ذریعہ ان بچوں کی زندگی کو بچایا گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ گذشتہ ہفتہ غزہ کے ایک ہسپتال میں پیش آیا۔ اسرائیلی حملے میں زخمی ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہارنے والی ایک حاملہ خاتون کے رحم میں موجود بچے کو بچا لیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق علا عدنان حرب الکرد جو نو مہینے کی حاملہ تھیں، اسرائیل کے میزائل حملوں میں بمشکل بچ پائیں۔ غزہ کی ریسکیو سروسز کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں 24 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے چھ کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔بتایا جاتا ہیکہ سرجن اکرم حسین کا کہنا تھا کہ الکرد جب العودۃ ہسپتال پہنچیں تو وہ ’تقریباً مر چکی‘ تھیں۔ڈاکٹرز ماں کو بچانے میں تو ناکام رہے لیکن جب انہوں نے الٹرا ساؤنڈ کیا تو انہیں بچے کی دل کی دھڑکن محسوس ہوئی۔سرجن کے مطابق ’انہوں نے فوری طور پر آپریشن کیا اور بچے کو نکالا۔‘ہسپتال کے شعبہ گائنالوجی کے سربراہ رائد السعودی کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر نومولود کی حالت تشویشناک تھی تاہم آکسیجن اور طبی امداد ملنے کے بعد اس کی حالت مستحکم ہو گئی۔بچے کو انکیوبیٹر میں رکھا گیا اور بعد میں دیر البلح کے الاقصیٰ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔اس طرح العودۃ ہسپتال کے ایک طبی اہلکار کے مطابق وسطی غزہ میں نصیرات پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی میزائل حملے میں ہلاک ہونے والی تین خواتین اور ایک بچے کی فہرست میں علا عدنان حرب الکرد بھی شامل ہیں۔ آبائی گھر پر حملے میں ان کے شوہر بھی زخمی ہوئے ہیں۔اسرائیلی ظلم و بربریت ابھی کب تک جاری رہے گی اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ البتہ فلسطینی گروپوں میں اتحاد ہوچکا جو قابلِ تحسین اقدام ہے۔

فلسطینی متحارب دھڑوں کا اتحاد۔چین کی کامیاب کوشش
مختلف فلسطینی دھڑوں نے چین میں بیجنگ اعلامیہ پر دستخط کر کے اختلافات ختم کرنے اور فلسطینی اتحاد کو مضبوط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ روئٹرز کے مطابق چین کے سرکاری میڈیا سی سی ٹی وی نے رپورٹ کیا ہے کہ فلسطینی دھڑوں کے درمیان بیجنگ میں 21؍ سے 23؍ جولائی تک جاری رہنے والے مصالحتی مذاکرات کی اختتامی تقریب کے دوران اعلامیہ پردستخط کیے گئے۔چین کے ٹی وی چینل سی جی ٹی این نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ متحارب گروپوں الفتح اور حماس کے رہنماؤں سمیت مجموعی طور پر 14 فلسطینی دھڑوں نے میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کی اور اس موقع پر چین کے وزیر خارجہ وانگ یی بھی موجود تھے۔بتایا جاتا ہیکہ اس سے قبل متحارب دھڑوں حماس اور الفتح نے اپریل میں چین میں ملاقات کی تھی جس میں 17 برس سے جاری تنازعات کے خاتمے کیلئے مصالحتی کوششوں پر بات چیت کی گئی تھی۔

چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے 14 فلسطینی دھڑوں کی طرف سے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کیلئے ’عبوری قومی مفاہمتی حکومت‘ کے قیام کے معاہدے کو سراہا ہے۔حماس اور الفتح سمیت فلسطینی دھڑوں نے مصالحت کی نئی کوشش کیلئے رواں ہفتے بیجنگ میں ملاقات کی۔ جیسے ہی منگل کو ملاقات ختم ہوئی، چین کے اعلیٰ سفارت کار نے بتایا کہ ’فریقین نے مفاہمت کا عہد کیا ہے۔‘چین کے دارالحکومت میں دھڑوں کی جانب سے ’بیجنگ اعلامیے‘ پر دستخط کرنے کے بعد وانگ یی نے کہا کہ ’سب سے نمایاں بات جنگ کے بعد غزہ کی گورننس کیلئے ایک عبوری قومی مفاہمتی حکومت کی تشکیل کا معاہدہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’مفاہمت فلسطینی دھڑوں کا اندرونی معاملہ ہے لیکن یہ بین الاقوامی برادری کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔‘چین کے وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ ’چین مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کیلئے تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔‘2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی کے بعد تباہ کن جھڑپوں میں تنظیم کے عسکریت پسندوں نے الفتح گروپ کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کر دیا تھا جس کے بعد سے حماس اور الفتح بدترین حریف ہیں۔2007 میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسلامی تحریک حماس نے غزہ پر حکومت کی ہے۔سیکولر تحریک الفتح فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتی ہے جس کا اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں جزوی انتظامی کنٹرول ہے۔اب دیکھنا ہے کہ چین ان فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت کے بعد اسرائیلی ظلم و بربریت کو ختم کرانے میں کوئی کردار ادا کرتا ہے یانہیں۰۰۰
عالمِ اسلام کی جانب سے نومبر میں منعقدہ امریکی انتخابات پر نظر
جوبائیڈن صدارتی انتخابات لڑنے سے دستبردار ،کملا ہیرس کی تائید کا اعلان
امریکہ میں نومبر میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کی مہم تیز تر ہوچکی ہے دنیا کے تقریباً تمام ممالک بشمول عالم اسلام کے حکمرانوں کی بھی امریکی انتخابات پر نظر ہے۔ موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن دوسری میعاد کیلئے انتخابات میں حصہ لینے والے تھے لیکن انہوں نے مختلف وجوہ کی بناء صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ سے باہرہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے موجودہ نائب صدر کملا ہیرس کیلئے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی راہیں پیداکردیں ۔ بتایا جاتا ہیکہ کملا ہیرس کی بطور ڈیموکریٹک پارٹی امیدوار کی نامزدگی کو سابق اسپیکر نینسی پلوسی سمیت بہت سارے ہیوی ویئٹس نے آگے بڑھایا اور بڑے پیمانے پر ووٹروں نے مہم کیلئے عطیات سے اْن کی حمایت کی۔اتوار کو جو بائیڈن کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی سے دستبرداری کے اعلان کے بعد انتخابی کارکنوں سے اپنی پہلی تقریر میں امریکی نائب صدرکملا ہیرس نے ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماضی میں ’ہر قسم کے مجرموں کا مقابلہ کر چکی ہیں۔‘انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے آغاز پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ پر ذاتی حملے کیے ہیں اور کہا ہے کہ وہ نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گی۔خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پیر کو ولیمنگٹن، ڈیلاویئر میں واقع ہیڈکوارٹر میں اپنے حامیوں سے خطاب میں کملا ہیرس نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہایت سخت الفاظ استعمال کیے۔خیال رہے کہ امریکہ کی نائب صدر بننے سے قبل کملا ہیرس کیلیفورنیا ریاست کی چیف پراسیکیوٹر کے طور پر کام کر چکی ہیں۔انہوں نے اپنے اْسی کردار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والے، دھوکے باز جنہوں نے صارفین کو لوٹا، وہ دھوکے باز جنہوں نے اپنے فائدے کے لیے قوانین کو توڑا، تو سنیں، جب میں کہوں کہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسوں کو جانتی ہوں۔‘کملا ہیرس نے مسکراتے ہوئے اپنے حامیوں سے کہا کہ ’ہم نومبر میں جیتنے جا رہے ہیں۔‘ اْن کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جن کو عدالت سے سزا ہوئی۔اب دیکھنا ہیکہ سابق صدر ٹرمپ پر جان لیوا حملہ انکی کامیابی کی راہیں فراہم کرتا ہے یا پھر کملا ہیرس اپنی کامیابی کا جھنڈا لہراتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ایک طرف ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق امریکی صدر و صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں تو دوسری جانب انکی مد مقابل کملا ہیرس کا ہندوستانی نژاد ہونے پر ہندوستانیوں کیلئے انکی اہم ہے۔

بنگلہ دیش میں پرُتشدد جھڑپوں کے بعد حالات معمول کی طرف رواں دواں
بنگلہ دیش میں حالات معمول پر آتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک میں 15؍ جولائی کو پولیس اور طلبہ مظاہرین کے درمیان جھڑپوں اور تشدد کے واقعات کا آغاز ہوا تھا بتایا جاتا ہیکہ اسکے بعد سے اب تک تشدد اور جھڑپوں میں کم از کم 197افراد ہلاک ہوئے ہیں۔15 جولائی کو پولیس اور خاص طور پر طلبہ مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب وہ ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوٹہ سسٹم کے تحت اچھی تنخواہ والی سول سروسز، جن میں لاکھوں سرکاری ملازمتیں بھی شامل ہیں، کے عہدوں کو مخصوص گروپوں کے لیے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ ان گروپوں میں سن 1971 میں پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ میں حصہ لینے والے افراد کے بچے بھی شامل ہیں۔شدید احتجاج اور جھڑپوں کے بعد گزشتہ اتوار کو سپریم کورٹ نے سن 1971 کے جنگی سابق فوجیوں کا کوٹہ کم کرتے ہوئے پانچ فیصد کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے نئے حکم نامے کے مطابق اب سول سروس کی 93 فیصد نوکریاں میرٹ کی بنیاد پر ہوں گی جبکہ باقی دو فیصد نسلی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں اور معذور افراد کیلئے مخصوص ہونگی۔مظاہرین نے اتوار کے فیصلے پر ردعمل دینے کیلئے کچھ وقت لیا لیکن منگل کو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس کے بعد کا حکومتی سرکلر مظاہرین کے حق میں ہیں لیکن حکومت کو احتجاج کے دوران خونریزی اور ہلاکتوں کا جواب دینا چاہیے۔دوسری جانب ملکی وزیر قانون انیس الحق بارہا الزام عائد کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ تشدد اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ کے مسلح مظاہرین کی وجہ سے سنگین ہوا۔ وزیر قانون کے مطابق پارٹی اور دائیں بازو کی جماعت اسلامی نے احتجاجی مظاہروں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کئی سرکاری تنصیبات پر حملہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کے دوران بنگلہ دیش کے سرکاری ٹیلی ویژن، ایک فلائی اوور کے دو ٹول پلازوں، ایک ایکسپریس وے، ڈھاکہ میں میٹرو ریل کے دو اسٹیشنوں اور سینکڑوں سرکاری گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔بنگلہ دیش پولیس کی جانب سے مرکزی اپوزیشن جماعت کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارتے ہوئے اسے سیل کر دیا گیا ہے۔اب دیکھنا ہیکہ وزیر اعظم شیخ حسینہ اپوزیشن کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرتی ہیں اور ان طلبہ اور دیگر افراد جو ان جھڑپوں اور پولیس تشدد میں ہلاک ہوئے ہیں انکے لئے کیا فیصلہ کرتی ہیں۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 355 Articles with 223568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.