1971 میں آنے ہوئے حُکمرانوں نے اپنے اپنے مُلک میں کیا میرٹ کا قتل عام


پاکستان کے صوبہ سندھ میں پیپلزپارٹی اپنے پہلے دور اقتدار میں سندھ میں دیہی اور شہری کوٹہ نافذ کرکے شہری طلباء کے ساتھ تو وہ ظلم کیا ہی مگر اس نے دیہی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ بھی ظلم کیا کہ جس کا خمیازہ اب دنیا کہ سامنے نظر آرہا ہے. کہ شہروں سے وہ پڑھا لکھا طبقہ جس نے پاکستان کی آزادی کے بعد اس کو اپنی شب روز محنت سے دنیا کہ مقابلے پر لاکھڑا کیا مگر جب پیپلز پارٹی نے کوٹہ سسٹم کو جاری رکھنے پر بضد رہی تو پھر شہر کراچی کا وہ پڑھا لکھا طبقہ تو اپنی اولاد کے ساتھ 1990 سے آج تک یورپین، امریکہ ، کینیڈا وغیرہ نقل مکانی کرگیا اور یہی حال کاٹن انڈسٹری میں دنیا بھر میں گنے چُنے پاکستانی بھی اپنی انڈسٹریاں سمیت فیصل آباد، بنگلہ دیش، انڈیا، افریقہ وغیرہ میں شفٹ ہوگئے جبکہ شہر کراچی اور شہر حیدرآباد جو کبھی مسائل حل کرنے کے لیے مشہور تھے اب خود مسائل کا گڑھ بن گئے.
جبکہ ان کوٹہ پر میرٹ کے قتل پر جو بھی آئے اور جن اداروں میں بھی گئے وہ ادارے تباہی کی طرف ہی گامزن ہوئے اور آج سندھ کشمور سے لے کے کراچی تباہی کی طرف ہی رواں دواں ہے.
یہ حال سندھ کہ شہری اور دیہی کوٹہ سے سندھ کی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے.
اور وہی بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم نافذ کرنے کے لیے دوبارہ حکومت نے ہائی کورٹ سے رجوع کررکھا تھا اور جب 5 جون 2024ء کو بنگلہ ہائی کورٹ نے 2018ء میں ختم کیے گئے کوٹہ سسٹم کو بحال کردیا۔
عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے اگلے دن سے شروع ہونے والے طلبہ کے احتجاج کو پوری دنیا نے پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ شیخ حسینہ واجد نے طلبہ کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی اور عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’چھاترا لیگ‘ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا لیکن طلبہ کے جذبات کو اُس وقت ٹھیس پہنچی جب شیخ حسینہ واجد نے 16 جولائی کو ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس نے منظم اور پُرامن طلبہ مظاہرین کے جذبات کو بھڑکایا۔
اس مسئلے کو ابتدا سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخریہ مسئلہ ہے کیا؟ ساتھ ہی یہ سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ جنوری 2024ء میں مسلسل چوتھی بار وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے والی شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ حکومت اس بار صرف سیاسی ہچکولے کھائے گی یا واقعی اس بار ان کی حکومت خطرے میں ہے؟

1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا اور اس دوران پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے بنگلہ دیش کے ہیرو کہلائے۔ ان جنگی ہیروز کے خاندانوں کو سرکاری نوکریوں بالخصوص سول سروسز میں مخصوص کوٹہ سے نوازا جاتا رہا اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ لیکن 2018ء میں طلبہ کے پُرزور احتجاج پر اس کوٹے کو ختم کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 2018ء میں بھی حکومت نے طلبہ کے احتجاج کے پیشِ نظر صرف فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو منسوخ کیا تھا یعنی مکمل طور پر اسے منسوخ نہیں کیا گیا تھا۔ حکومتی فیصلے کے خلاف 2018ء میں ہی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ بنگلہ عدالت نے 5 جون 2024ء کو اس درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص کوٹہ بحال کردیا۔ فیصلے کے اگلے ہی دن یعنی 6 جون کو ہی طلبہ نے ڈھاکا یونیورسٹی میں احتجاجی ریلی نکالی۔

پُرامن احتجاج جاری تھا۔ ابتدا میں چند عام بنگالی طلبہ اپنے سماجی حقوق کے لیے سامنے آئے اور یوں دیگر طلبہ بھی ہم آواز ہوتے چلے گئے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں مظاہرے ہونے لگے۔ احتجاج میں ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ زیادہ متحرک نظر آئے اور زیادہ ہنگامے بھی اسی کے کیمپس میں ہوئے۔ 15 جولائی تک طلبہ کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ حکومت آئینی اصلاح کرتے ہوئے اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرے۔ کوٹہ نظام حق تلفی اور میرٹ کے خلاف ہے۔ تمام لوگوں کو ان کی محنت کے مطابق سرکاری نوکریاں ملنی چاہئیں۔

اس وقت تک مظاہرین سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے لیکن حالات بے قابو نہیں ہوئے تھے لیکن شیخ حسینہ کے سیاسی بیان نے اس منظر نامے میں ہلچل مچادی اور طلبہ کو سیخ پا کردیا۔ شیخ حسینہ نے 16 جولائی کو مظاہرین کے کوٹہ نظام کے مکمل خاتمے کے نعروں کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں 1971ء میں پاکستانی فوج کی مدد کرنے والے گروہ یعنی ’رضا کار‘ سے تشبیہ دی۔

طلبہ اور ان کے والدین نے اسے توہین کے زمرے میں لیا اور پورے بنگلہ دیش کے نوجوان شدید مشتعل ہوگئے کیونکہ پاک فوج کی مدد کرنے والوں کو اس وقت مکتی باہنی ’رضا کار‘ کے نام سے پکارتے تھے یعنی احتجاج کرنے والے طلبہ پاکستانی فوج کے ساتھی ہیں۔

شیخ حسینہ کے طنز کے جواب میں طلبہ نے بھی خوب نعرے بلند کیے کہ ’تم کون ہو؟ میں کون ہوں؟ رضا کار رضا کار‘، ’ہم نے مانگا تھا اپنا اودیکار (حق) مگر ہمیں بنا دیا گیا ہے رضاکار.

چند ہی گھنٹوں میں طلبہ کا مظاہرہ حکومت مخالف مظاہرے میں تبدیل ہوگیا اور اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ لے لیا۔ یہاں تک کہ حکومت کو ملک میں کرفیو لگا کر ’سرکاری چھٹی‘ کا اعلان کرنا پڑا۔

ان پُرتشدد حالات کو دوسرا ہفتہ ہوا چاہتا ہے لیکن حالات قابو میں نہیں آرہے۔ یہاں تک کہ مظاہرین نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر بھی حملہ کیا کیونکہ ان کے نزدیک چلائی جانے والی خبریں حکومتی مؤقف کی تائید کرتی ہیں۔

بعدازاں شیخ حسینہ نے اپنے بیان پر کہا کہ ان کے بیان کا غلط مطلب اخذ کیا گیا۔ ساتھ ہی عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’چھاترا لیگ‘ نے سراپا احتجاج طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران پولیس بھی ان کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ پُرتشدد ہجوم کے ہاتھوں 15 جولائی کو ایک طالب علم ہلاک ہوا اور اگلے ہی دن یہ تعداد بڑھ کر 10 اور پھر تازہ ترین اطلاعات تک مرنے والوں کی تعداد 175 سے تجاوز کرچکی ہے۔ سرکاری ٹی وی بند اور انٹرنیٹ بندش کے باعث اموات کی حتمی تعداد واضح نہیں۔

بنگلہ دیش اس وقت 6 فیصد کی رفتار سے دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ایک کروڑ 80 لاکھ نوجوان یہاں بستے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت میں ملک نے بہت ترقی کی ہے لیکن یہ کپڑے کی صنعت کی وجہ سے ہے کہ جہاں خواتین بطور اسکل ورکرز کام کررہی ہیں۔

کپڑے کی صنعت میں زیادہ تر بلیو کالر نوکریوں کی گنجائش ہے جبکہ پروفیشنل تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے یہاں نوکریاں کم ہیں۔ پھر جب سرکاری نوکریوں پر بھی کوٹہ سسٹم نافذ ہو تو نوجوانوں کا ذہنی انتشار کا شکار ہونا حق بجانب ہے کیونکہ انہیں اپنا مستقبل روشن اور بہتر نظر نہیں آرہا۔

معاشی ترقی سے عام بنگالیوں کی زندگیوں میں استحکام آیا ہے لیکن جامعات سے گریجویٹ نوجوان میرٹ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ الجزیرہ نے 2018ء کے سرکاری دستاویزات کے مطابق بتایا ہے کہ 44 فیصد نوکریاں میرٹ پر تھیں۔ 30 فیصد نوکریوں پر مراعات یافتہ طبقے کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ 10 فیصد نوکریوں پر خواتین اور دیہی علاقوں کے شہریوں کا حق جبکہ 5 فیصد کوٹہ اقلیتی گروہ کے لیے مختص کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک فیصد کوٹہ معذوروں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تمام تر صورت حال میں نوجوان کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ 30 فیصد کوٹے سے صرف عوامی لیگ کے ووٹرز ہی مستفید ہوتے ہیں۔

یہ ہنگامے ایک دم نہیں پھوٹ پڑے، یہ لاوا کئی سالوں سے پک رہا تھا۔ بالخصوص حالیہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی پر صرف حزب اختلاف نے ہی نہیں بلکہ دنیا نے بھی آواز اٹھائی تھی۔ یہ غیر مقبول حکومت ہے۔ مخالفین ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی سمجھتی ہیں کہ عوامی لیگ کی بنیادی سوچ ہے کہ اٹھنے والی ہر مخالف آواز کو دبا دیا جائے۔ عرصے سے پلنے والی اس سوچ کی وجہ سے لوگوں نے کوٹہ سسٹم کے مکمل خاتمے کی تائید کی۔

’اس وقت بنگلہ دیش میں میڈیا پر پابندی ہے لیکن ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک کا کوئی واضح رہنما نہیں ہے۔ مذاکرات کے لیے واضح نکات ہونا ضروری ہیں اور یہ عام طلبہ کا گروپ ہے جنہیں سیاست نہیں آتی.

’شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش کی فوج کی حمایت کررہی ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل 4 بار وزیراعظم منتخب ہوچکی ہیں۔ چند سال پہلے بنگال رائفل شیخ حسینہ کی بڑی مخالف بن کر ابھری تھی لیکن اسے بری طرح کچل دیا گیا تھا‘۔

بہ ظاہر بنگلہ دیش کی فوج تشدد کی حمایت کرتی نظر نہیں آتی۔ وہ 18 جولائی سے پہلے بھی باہر نکلی تھی لیکن اس نے طلبہ کے خلاف جانا مناسب نہیں سمجھا اور بیرکوں میں واپس چلی گئی لیکن بدھ 17 جولائی کو 32 افراد کی ہلاکت کے بعد انہیں واپس آنا پڑا جبکہ دوسری جانب حکومت کرفیو نافذ کرکے ہنگاموں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے‘۔

’چند سال پہلے بھی طلبہ اسی طرح اپنے سماجی حق کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔ یہ مظاہرے حادثات میں کئی بچوں کی اموات کے بعد سڑکوں کی مرمت اور نئی سڑکوں کی تعمیر نہ ہونے کے خلاف تھا۔ یوں بنگلہ دیش میں سماج کی بہتری کے لیے طلبہ کے آگے آنے کی روایت پرانی ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت بنگال میں 52 فیصد نوجوان ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا‘۔

بنگلہ دیش میں ڈھاکا یونیورسٹی اور طلبہ یونین کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے اور بعد میں بھی بنگالی طلبہ اپنے حقوق کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ پہلے سنا تھا کہ کیسے مشرقی پاکستان میں طلبہ یونین انسانی اور سماجی حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے۔

’حالیہ احتجاج میں اموات نے موجودہ حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اور بہ ظاہر صورت حال بگڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 15 سال سے چلنے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت معاشی اصلاحات لانے سے میں کامیاب رہی ہے لیکن حالیہ عالمی کساد بازاری سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جس سے عوام متاثر ہوئے ہیں‘۔

بنگالی عوام ہمیشہ سے ہی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے آئے ہیں۔ اردو زبان کا مسئلہ ہو یا 1960ء یا 1970ء کی دہائی کے مسائل۔ لیکن تازہ ترین واقعات اس لیے شدت اختیار کرگئے کہ جہاں ڈھاکا یونیورسٹی اور میڈیکل کالج سے شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ موجودہ حکومت پر پہلے ہی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا نے بھی ان کے حالیہ انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے ملک کا شمار دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں ہوتا ہے، ان ہنگاموں سے معاشی ترقی متاثر ہوگی۔ یہ سیاسی بے یقینی بنگلہ دیش کے عوام کے لیے بھی ٹھیک نہیں۔ شیخ حسینہ کو طلبہ کے مطالبات کو سننا چاہیے کیونکہ پُرامن حالات بنگلہ حکومت کے استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔

سال سے عوامی لیگ کی وزیراعظم 77 سالہ شیخ حسینہ کی حکومت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مخالفین کے لیے ایک خوف کی فضا پیدا کی ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں کے اغوا اور ہلاکتوں کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ جبکہ ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کے سابق اردلی کے اکاؤنٹ میں 400 کروڑ کی موجودگی بھی خوب خبروں میں رہی۔

حالیہ صورت حال یہ ہے کہ مقامی افراد ان ہنگاموں پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ بیرونِ ملک مقیم بنگلہ دیش کے شہری بھی کھل کر اظہارِ رائے نہیں کررہے کیونکہ وہ موجودہ حکومت سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں وہ بھی حکومت کی نظروں میں نہ آجائیں اور ان پر زمین تنگ ہوجائے۔

’موجودہ حکومت نے طلبہ کے ساتھ تعصبانہ رویہ اپنایا اور ان کی بات نہیں سنی گئی جس کی وجہ سے پورے ملک میں فسادات پھیلے اور بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔

طلبہ کا مطالبہ تھا کہ کوٹہ مکمل طور پر ختم کیا جائے لیکن حکومت نے معاملہ خود حل کرنے کے بجائے عدلیہ کے ذمہ ڈال دیا۔ حکومت کو عدلیہ اور فوج کی حمایت حاصل رہی ہے۔ طلبہ موجودہ حکومت پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کوٹہ سسٹم سے مکمل چھٹکارا چاہتے ہیں جبکہ حکومت غیر سیاسی طلبہ مظاہروں کو پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، وہ طلبہ کو اپنے بنیادی مطالبے سے بھٹکانا چاہتی ہے’۔

حکومت کو اگر وقتی کامیابی مل بھی جائے گی تو مخالفت اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام پھر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے احتجاج نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مخالفت تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن اس مخالفت کو آگے لے کر جانے کے لیے کوئی رہنما نہیں۔

سیاسی سوچ یہی نظر آرہی ہے اگر انہوں نے کھل کر عوام کا ساتھ دیا تو پھر انہیں شیخ حسینہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

طلبہ کی طرف سے 9 نکات سامنے آئے ہیں۔

وزیراعظم ان فسادات کی ذمہ داری قبول کریں اور عوامی سطح پر ہلاک طلبہ سے معافی مانگیں۔
وزیرداخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ وزارت اور عوامی لیگ سے مستعفی ہوں۔
اموات والے مقامات پر تعینات پولیس اہلکار بھی مستعفی ہوں۔
ڈھاکا، جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیز کے وائس چانسلر مستعفی ہوں۔
طلبہ پر حملہ کرنے والے تمام غنڈوں کو گرفتار کیا جائے۔
زخمی اور مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بنگلہ چھاترا لیگ پر پابندی لگائی جائے۔
تعلیمی ادارے، طلبہ ہوسٹل اور ہال دوبارہ کھولے جائیں۔
طلبہ کو ضمانت دی جائے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔
تعلیم کی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کی جائیں۔
دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشتوں میں شمار کیے جانے والے ملک کو اسی کی اپنی حکومت نے ہی پٹری سے اتارا تو اب کیا وہ ایک بار پھر اسے پٹری پر واپس لانے میں کامیاب ہوسکے گی؟ 5 بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے والی شیخ حسینہ کا یہ مسلسل چوتھا دورِ حکومت ہے۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں، اب وقت کا تقاضا ہے کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔


ا
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 346 Articles with 139737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.