امریکہ کی جمہوری قبا میں پائے کوب فسطائیت بے نقاب


صدر جو بائیڈن نے اس ہفتہ ایکس پر یہ اعلان کرکے امریکہ سمیت پوری دنیا کو چونکا دیا کہ "آپ کے صدر کے طور پر خدمات انجام دینا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے۔ اوراگرچہ میرا یہ پختہ ارادہ تھا کہ میں اس عہدے کے لیے دوبارہ منتخب ہو جاؤں، مجھے یقین ہے کہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ میں صدارتی دوڑ سے دستبردار ہو جاؤں ۔‘‘الیکشن کی دوڑ سے الگ ہونے کے تقریباً 30 منٹ بعد، بائیڈن نے نائب صدر کملا ہیریس کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ ،’’آج میں کملا کی نامزدگی کے لیے اپنی مکمل حمایت اور توثیق کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ اب وقت آگیا ہےکہ ڈیموکریٹس متحد ہوکر ٹرمپ کو شکست دیں۔‘‘ پچھلی بار ہیلری کلنٹن کی نسوانیت نے ٹرمپ کی کامیابی میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا لیکن کم ازکم وہ سفید فام تھیں۔ اس بار کملا توسیاہ فام ہے اس لیے اگر ڈیموکریٹس نے انہیں کو واقعی میدان میں اتاردیا تو ٹرمپ کی راہ نہایت آسان ہوجائے گی۔کملا کے والدین تمل تھےاس لیےان کی توثیق سےعام ہندوستانی پھولے نہیں سمارہے ہیں مگر مودی اور ان کے بھگت ناراض ہیں کیونکہ وہ سنگھ پریوار کی بہت بڑی مخالف ہیں۔ اب دیکھنا ہے امریکی جمہوریت اس بار کیا گل کھلاتی ہے؟

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر پچھلے ہفتے جب گولی چلی تو اس وقت تک وہ اپنی پارٹی کی جانب سے صدارت کے لیے نامزد نہیں ہوئے تھے مگر قتل ہونے سے بال بال بچنے کے بعد انہوں اعلان کیا کہ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ یہ سنتے ہی نام نہاد پوری خدا ترس پارٹی بھی ان کے ساتھ ہوگئی اور ہفتہ بھر بعد ریپبلکن نیشنل کنونشن میں ان کا تقرر ہوگیا ۔ اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ حملہ خود انہوں نے ہی کروایا تھا تو اس کی کیا غلطی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ پھر ایک بار تھامس کروک کی گولی نے امریکہ کے جمہوری نظام میں سوراخ کرکے فسطائیت کو سر ابھارنے کا نادر موقع عطا کردیا۔ سرزمین امریکہ پر یہ نیلم پری پہلی باربے لباس نہیں ہوئی بلکہ ماضی میں بھی ایسے متعدد سانحات رونما ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر پر لعن طعن کرنے والا امریکہ بہادر ایسے واقعات کی پردہ پوشی کرکے اپنے سینے پر دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت کا تمغہ لگا ئے رہتا ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ دیگر سیاسی نظام کے حاملین کو یہ کہہ کر عار دلاتا رہتا ہے کہ ان کےیہاں اقتدار کی منتقلی کے لیے خون خرابہ ہوتا ہے جبکہ جمہوریت کے اندر نہایت مہذب انداز میں پر امن طریقہ پر یہ سب ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا کا بہت بڑا جھوٹ ہے کیونکہ امریکی صدور نے انتخابی کا میابی کے لیے دنیا بھر میں جو خون خرابہ کیا اس کے الزام سے یہ نظام بری نہیں ہوسکتا ۔ مغربی قوم پرستی میں اپنے ملک کے فائدے کی آڑ میں جو دراصل حکمراں کا ذاتی مفاد ہوتا ہے دوسروں کی ایذارسانی کارِ ثواب سمجھی جاتی ہے لیکن ملک کے اندر بھی اس کی خاطرعام و خاص لوگوں کا خون خرابہ ہوتا رہا ہے مثلاً حالیہ حملے میں ٹرمپ تو بچ گئے مگر ایک شریک جلسہ اور خود حملہ آور ہلاک کردیا گیا ۔ امریکی سیاست میں اس کی ابتدا جمہوریت کا کلمۂ طیب ’ عوام کا( نظام حکومت)، عوام کے لیے، عوام کے ذریعہ ‘ وضع کرنے والے ابراہم لنکن سے ہوئی ۔موصوف امریکہ کے 16 ویں صدر تھے ان پر 14؍ اپریل 1865 کو واشنگٹن ڈی سی کے فورڈ تھیٹر میں گولی چلی اور اگلے دن وہ فوت ہو گئے۔ ان کا قصور سیاہ فام افراد کے حقوق کی پیروی اور غلامی کا خاتمہ تھا۔ دنیا کے نام نہاد مہذب لوگ اپنے رہنما کے کارِ خیر کی ایسی پذیرائی کرتے ہیں۔

قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ جاری رہا یہاں تک 20ویں امریکی صدرجیمز گارفیلڈ بھی دو جولائی 1881 کو گولی کھاکر رخصت ہوگئے۔ امریکہ کے 25 ویں صدر ولیم مکنلی کو ۶؍ ستمبر 1901 کو بفلو میں خطاب عام کے دوران ایک بیروزگار نوجوان کی گولیوں کا شکار ہونا پڑ ااور ایک ہفتہ زیرِ علاج رہنے کے بعد 14 ستمبر 1901 کو ان کی موت ہو گئی ۔فرینکلن ڈی روز ویلٹ، امریکہ کے 32 ویں صدرتھے جن پر فروری 1933 میں گولی چلی مگر وہ ٹرمپ کی طرح بچ گئے۔ 33 ویں امریکی صدر ٹرومین پر 1950 میں صدارتی مہمان خانے کے اندر حملہ ہوا مگر وہ بھی بچ گئے۔ابراہم لنکن کے بعد امریکی تاریخ کے سب سے مقبول ومعروف صدر جان ایف کینیڈی تھے۔ ان کو نومبر 1963 میں کھلی گاڑی کے اندر ڈیلس شہر کا دورہ کر تے ہوئے گولی مار دی گئی۔کینیڈی کا قاتل جیل جاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تاکہ قتل کی وجہ کا انکشاف ہی نہ ہو ۔

امریکہ کے 38 ویں صدرجیرلڈ فورڈ پر 1975 میں دو قاتلانہ حملے ہوئے اور وہ خوش قسمتی سے وہ دونوں میں محفوظ رہے۔ اتفاق سے دوسری مرتبہ حملہ کرنے والی ایک خاتون تھی۔رونلڈ ریگن جو 40 ویں امریکی صدر تھے ان پر ایک پرحملہ کرنے والے کو گوں ناگوں وجوہات کی بنیاد پر خبط الہواس کہا گیا حالانکہ کسی پاگل کے ذریعہ ایسے جرم کا ارتکاب تقریباً ناممکن ہے۔ مارچ 1981 میں ہونے والے اس حملہ نے انہیں زخمی تو کیا مگر علاج کے بعدوہ صحت یاب ہو گئے ۔ ٹرمپ سے قبل 43 ویں امریکی صدرجارج ڈبلیو بش طرف 2005 میں جیارجیا کے اندر ایک دستی بم پھینکا گیا۔ وہ بم صرف 100 فٹ کے فاصلے پر گرا لیکن چونکہ پھٹا نہیں اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ جان ایف کینیڈی کے بھائی صدارتی امیدوار بننے کے لیے کوشش کر رہے تھےکہ انہیں 1968 میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ۔ ریاست الاباما کے گورنرجارج والس پر بھی صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں 1972 کی انتخابی مہم کے دوران فائرنگ ہوئی اور وہ جزوی طور پر مفلوج ہوکررہ گئے ۔ دنیا کی عظیم ترین جمہوریت میں وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات کے باوجود جو لوگ اس چنگیزی سیاست کواقتدار کی منتقلی کاپرامن وسیلہ سمجھتے ہیں ان کی آنکھوں پر مرعوبیت کا پردہ نہیں توکیا ہے؟

امریکہ میں صدارتی امیدوار ٹیلی ویژن کے پردے پر ایک دوسرے کے ساتھ قومی مسائل پر بحث و مباحثے میں اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بار پہلی بحث کے وقت ٹرمپ اور بائیڈن متوقع امیدوار تھے اس لیے ان کے درمیان ہونے والی بحث کے دوران ٹرمپ نے کئی بلاثبوت اوٹ پٹانگ دعوے کر ڈالے اور ایسا کرتے ہوئے جھوٹ کا بھی سہارا لیا لیکن جو بائیڈن اپنے ضعف اور درازیٔ عمر کے سبب ان کی غلط بیانیوں کو بے نقاب نہیں کرسکے۔اسقاط حمل کے موضوع ٹرمپ کی غلط بیانی پر صدر بائیڈن فقط اتنا کہہ سکے کہ ’آپ نے جو کیا ہے وہ بہت غلط ہے۔‘ویسے بائیڈن نےجب فحش اداکارہ سٹورمی ڈینیئلز کیس میں ٹرمپ کو ملنے والی سزا کا ذکرکرتے ہوئے انہیں ’آوارہ بِلے‘سے تشبیہ دی تو و ہ آگ بگولا ہوگئے ۔اسی طرح 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے پر ٹرمپ کو اپنا قدم پیچھے ہٹانا پڑا۔

ریپبلکن پارٹی کا قومی اجلاس تو ہوچکا مگر ڈیموکریٹس کنونشن اگست کے اندر شکاگو میں ہونا ہے۔ اس وقت یہ فیصلہ ہونا تھا کہ 81 سالہ جو بائیڈن کو پھر سے موقع دیا جائے یا پھر ان کا متبادل تلاش کیا جائے ؟پارٹی تو انہیں بدلنا چاہتی ہے مگر جوبائیڈن اس دوڑ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ اس ماہ کے اوائل میں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ ’میرا ہر ایک دن ایک علمی امتحان ہوتا ہے اور ہر روز میرا (ذہنی استعداد کا) ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جو کچھ میں کرتا ہوں وہ ایک امتحان ہے۔‘صدر جو بائیڈن نے بعض ڈیموکریٹک عہدیداروں اور عطیہ دہندگان کی متبادل والی سوچ کو مسترد کرتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنی خراب کارکردگی کو صحت اور عمر کے بجائے تھکن و بخار سے منسوب کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی شخص مجھ سے زیادہ صدر بننے یا جیتنے کا اہل ہے۔‘ انتخابی دوڑ سے باہر ہونے پر وہ پہلے بولے تھے کہ ’اگر خدا خود نیچے (زمین پر) آئے اور کہے کہ اس دوڑ سے باہر ہو جاؤ تو ہی میں مسابقت سے باہر نکلوں گا۔ اور خدا یہ کہنے کے لیےنیچے نہیں آیا۔‘

اس اتوار کی صبح اچانک جب یہ خبر ذرائع ابلاغ آئی کہ بائیڈن کے اہل خانہ انہیں دوبارہ قسمت آزمائی سے منع کررہے ہیں۔ اس کے بعد خدا کے بجائے گھر والوں کے دباو میں آکرصدر جو بائیڈن نے اتوار کی شام آئندہ انتخابات سے اپنی دستبرداری کا اعلان کر کے ڈیمو کریٹک پارٹی کو ایک بہت بڑی الجھن سے نجات دلا دی ورنہ اس سے پہلے یہ صورتحال تھی کہ عوامی اصرار انہیں اس عمر میں سبکدوشی کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کررہے تھا مگر ان کی آراء سے علی الرغم بائیڈن کے جوابات سے معلوم ہورہا تھا کہ جمہوریت نواز صدر کے اندر بھی اقتدار کی ہوس کسی بادشاہ سے کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب کا جمہوری نظام بھی بہترین فرمانروا مہیاکرنے میں ناکام ہوجاتا ہے ورنہ ایک بار ہارنے کے بعد حلالہ کرکے ٹرمپ کی قسمت آزمائی چہ معنیٰ دارد؟ موجودہ انتخاب میں کل تک امریکی عوام کی ایک جانب ٹرمپ کی آگ اور دوسری طرف بائیڈن کی کھائی تھی ڈاکٹر اعظم کایہ شعر (بعد ازترمیم ) امریکی سیاسی صورتحال کی خوب عکاسی کررہا تھا ؎
یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر
یاتو مکار بیٹھے گا،یاتو بیمار بیٹھےگا
)۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1459366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.