بادل چھاتے ہیں تو بارش ہوتی ہے مگر برسات کے بعد وہ چھٹ
بھی جاتے ہیں۔ مودی سرکار کی بدولت قومی انتخابات سے قبل خوف کےگھنے بادل
چھا گئے تھے مگر نتائج کے وقت وہ ایسے برسے کہ سیاسی ڈر چھٹ گیا ۔ اس کا
ایک ثبوت مہاراشٹر کے سابق وزیر داخلہ انیل دیشمکھ کا شواہد کی پین ڈرائیو
کے ساتھ موجودہ وزیر داخلہ دیویندر فڈ نویس پر الزام لگانا ہے ۔ انہوں نے
پریس کانفرنس میں کہا کہ ان کے سامنے ایم وی اے رہنماوں کو جھوٹے الزامات
میں پھنسانے کے لیےچار عدد حلف نامے پیش کیے گئے تھے ۔ انیل دیشمکھ نے
پارٹی تبدیل کرنےکی خاطر دباو ڈالنے کا الزام پہلے بھی لگایا تھالیکن چونکہ
ثبوت وغیرہ پیش کرنے کی بات نہیں کی تھی اس لیے اسے سیاسی بیان بازی سے
تعبیر کرکے نظر انداز کردیا گیا مگر اس بار صورتحال مختلف ہے ۔ سابق وزیر
داخلہ کے اس قدر کھل کر بولنے کی وجہ مرکزی حکومت کے دہشت سے بے خوفی ہے
اور جیسے جیسے مہاراشٹر کےریاستی الیکشن نزدیک آئیں گے اس طرح کا شور
شرابہ بڑھتا چلا جائے گا نیز بی جے پی کے مسائلمیں بھی اضافہ ہوتا رہے گا ۔
اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بدمعاشوں کا وہ
ٹولہ ہے جو مخالفین کو بلیک میل کرکے اپنے نرغے میں لے لیتا ہےلیکن یہ کام
کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کی تفصیل اور ثبوت پہلی بار سامنے آرہے ہیں ۔ یہ کام
اس شخص کے ذریعہ ہورہا ہے جس کوایک سال ایک ماہ کی قیدو بند کے بعد ضمانت
دیتے ہوئے جج صاحب نے حکومت کو خوب لتاڑ لگانے کے بعد کہا تھا کہ بلا کسی
ٹھوس ثبوت انہیں جیل میں رکھا گیا۔ ایسے میں انیل دیشمکھ کے بیان کو آسانی
سے مسترد کرنا ممکن نہیں ہے۔ دسمبر 22 میں رہائی کےتین ماہ بعد نیشنلسٹ
کانگریس پارٹی کے لیڈر انیل دیشمکھ نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں جیل میں رہتے
ہوئے ایک ایسا آفر دیا گیا تھا جس سے ڈھائی سال قبل مہا وکاس اگھاڑی نامی
اتحاد ختم ہوسکتا تھا۔ان کے مطابق جیل کی پیشکش کا انہوں نے اس لیے انکار
کیاکیونکہ وہ انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ دیشمکھ نے مصالحت کرنے کے بجائے جیل
میں رہ کر رہائی کا انتظار کرنے کو ترجیح دی ۔
این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے اس تقریب میں کہا تھا کہ حکومت نے دیشمکھ
کے معاملے میں اپنی طاقت کا غلط استعمال کیا اور قریبی ساتھیوں سمیت خودان
پر 130 چھاپے مارے۔پیشکش کی مختصر تفصیل بتاتے ہوئے پوار نے کہا تھا کہ
حکومت نے دیشمکھ سے این سی پی چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے کو کہا تھا
لیکن وہ دباؤ میں آنے کے بجائے کارروائی سے نبرد آزمائی کا انتخاب کیا۔
انیل دیشمکھ نے اب صوبائی وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس پر پھرسے الزام لگایا
کہ تین سال قبل اُن پر ایک حلف نامہ دینے اور ادھو ٹھاکرے، اجیت پوار،
آدتیہ ٹھاکرے و انل پرب کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے لیے دباؤ ڈالا گیا
تھا۔ان سنگین الزامات کی تفصیل پروفیسر شیام مانو نامی معروف دانشور نے پیش
کی جو توہم پرستی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کے رہنما ہیں اور باگیشور
بابا جیسے پاکھنڈیوں کا ابھی حال میں بھانڈا پھوڑ چکے ہیں۔
شیام مانو کے مطابق جب انیل دیشمکھ وزیر داخلہ تھے اس وقت ان کے گھر پر
اقتدار سے باہر ایک بی جے پی رہنما نے ای ڈی کی تفتیش سے بچنے کی خاطرچار
حلف نامے دستخط کرنے کے لیے روانہ کیے تھے۔ ان میں سے پہلے میں لکھا تھا کہ
وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے انہیں اپنے گھر ماتو شری پر بلا کر سو کروڈ
روپیہ جمع کرنے کا حکم دیا۔ دوسرا حلف نامہ اس سے بھی سنگین تھا جس میں درج
تھا کہ ادیتیہ ٹھاکرے نے دِ شا سالیان کی عصمت دری کرکے اس کا قتل کردیا۔
تیسرے میں انل پرب کی غیر قانونی تعمیرات کا ذکر تھا اور چوتھے حلف نامہ
میں اجیت پوار پر الزام تھا کہ انہوں نے گٹکھا تاجروں سے کروڈوں روپیہ جمع
کرنے کا حکم دیا۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر ادھو ٹھاکرے کو پہلی دو دھمکیاں
دے کر مہا وکاس اگھاڑی کے بجائے بی جے پی کے ساتھ حکومت سازی کی دعوت دی
جاتی تو ان کے لیے اسے ٹھکرانا کس قدر مشکل ہوجاتا ۔اس طرح جب حریف
سیاستدانوں کو گھیر کر خوفزدہ کیا جاتا ہے تو اچھے سے اچھا رہنما گھٹنے
ٹیکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
انل پرب کے سر پر اب بھی ای ڈی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس کے سائے تلے وزیر
اعلیٰ ایکناتھ شندے کی پناہ میں جانے کے بجائے ادھو ٹھاکرے کے ساتھ رہناان
کے لیے کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اجیت پوار
کے حوالے سے تو خود وزیر اعظم نے سات ہزارکروڈ کی بدعنوانی کا الزام لگا
دیا اور پھر پرمبیر سنگھ و سچن وازے جیسے پولیس افسران بہتان تراشی کررہے
ہوں ۔ ای ڈی والوں کے بار بار فون آنے لگیں اور ان سے بچنے کی خاطر اگر
پالا بدلنے کے لیے کہا جائے نیز انعام کے طور نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی بھی
تھما دی جائے تو بھلااس کا انکار کیسے ممکن ہے؟ بی جے پی نے شتر بے مہار کی
مانند پورے ملک میں یہ کھیل کھیلالیکن مہاراشٹر کےاندر نہایت بے حیائی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے ساری حدیں پار کردی لیکن اب وہ ساجھے کی ہانڈی بیچ چوراہے
پر پھوٹ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بدعنوانی اور بلیک میلنگ کے مایا جال میں
بی جے پی نے ہندوستانی سیاست کواسی طرح جکڑ لیا ہے جس کی منظر کشی احمد
فراز نے اپنی مشہور نظم محاصرہ یوں کی ہے کہ ؎
مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے
فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر
کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے
ایک زمانہ تھا جب نگرانی کے لیے فصیل شہر کے برج و مینار پر عسکری تعینات
کیے جاتے تھے اور خفیہ جاسوس کی مدد سے ثبوت مہیا ہوتے تھے۔ آج کل یہ سارا
کام الیکٹرونک مشینیں کردیتی ہیں ۔ خفیہ کیمرے اورموبائیل و کمپیوٹر میں
چھپے پیگاسس جیسے سافٹ ویئر خاموشی سے بہترین جاسوسی کے فرائض انجام دیتے
ہیں ۔ اسی لیے انیل دیشمکھ سینہ ٹھونک کر اپنے پاس موجود پین ڈرائیو کا
حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ فڈنویس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات سے
متعلق ان کے پاس ثبوت موجود ہیں ۔ انیل دیشمکھ نے یہ بھی کہا کہ اگر مجھے
چیلنج کیا گیا تو میں اپنے پاس موجود ویڈیو ثبوتوں کو ظاہر کروں گا۔ ان کا
دعویٰ ہے کہ وہ بلا ثبوت کے کچھ نہیں کہتے۔ ان کے مطابق یہ ثابت کرنے کے
لیےکہ ان پر مہا وکاس اگھاڑی کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے لیے دباؤ ڈالا
گیا تھا بہت سارے شواہد ہے ۔دیشمکھ کے اس الزام کا جواب دیتے ہوئے فڈنویس
نے بھی از خود جاسوسی کاالزام تسلیم کرلیا ۔ وہ بولے انیل دیشمکھ کے
الزامات بے بنیاد ہیں ۔ انیل دیشمکھ نے ٹھاکرے،پوار اور وزے کے خلاف جو
بیانات دئیے اس کے کئی آڈیو-ویڈیو ثبوت ان کے پاس ہیں جنھیں وہ جھوٹے
الزامات کے جواب میں عام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی فی الحال ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے ۔ اس کے خزانے
میں الیکٹورل بانڈ سے پی ایم فنڈ تک کئی سفید اور کالے دھن کےذرائع ہیں ۔
انسانی وسائل فراہم کرنے کے آر ایس ایس اور اس کی بے شمار ذیلی تنظیمیں
ہیں۔ اس کے باوجود دیویندر فڈنویس کو اقتدار میں آنے کے لیے ای ڈی اور سی
بی آئی کی مدد سےمخالفین کوڈرا دھمکا کر بلیک میل کرنے اور انہیں خریدنے
کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ یہ سوال قابلِ توجہ ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ
دیویندر فڈنویس کا چت پاون برہمن ہونا ہے۔ مہاراشٹر میں ویسے تو برہمنوں کی
تعداد آٹھ تا دس فیصد ہے مگر ان میں سے نام نہاد اعلیٰ ترین ذات کے چت
پاون دو فیصد سے کم ہیں اور آر ایس ایس پر انہیں کا غلبہ ہے۔ یہ لوگ اپنے
بل بوتے پر اقتدار میں نہیں آسکتے اس لیے پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر بی
جے پی کو مضبوط کیا مگر اس کے ساتھ ان کے رہنما بھی طاقتور ہوکر حریف بن
گئے۔
دیویندر فڈنویس نے اپنے اقتدار کی خاطر منڈے ، کھڑسے اور تاوڑے جیسے داخلی
حریفوں کو کنارے کر کے باہر والوں کو پارٹی میں شامل کیا ۔ اس طرح اگر
پارٹی اور وہ خود کمزور نہ ہوتے تو ڈرانے دھمکانے پر مجبور نہ ہونا پڑتا ۔
فڈنویس کے تکبر، بغض و کینہ پروری نے شیوسینا جیسے قدیم حلیف کو دور کرکے
واپسی کے سارے راستے بند کردئیے۔ اس حکمت عملی کے سبب مہاراشٹر کی سب سے
بڑی پارٹی کے رہنما فڈنویس کوہائی کمان نے نائب وزیر اعلیٰ بننے پر مجبور
کیا اور اجیت پوار کو شریکِ کار بنادیا ۔یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی انتخاب
میں دونوں علاقائی پارٹیوں کو توڑنے کے باوجود آر ایس ایس کے مرکز والے
صوبے کے اندربی جے پی ۹ پر سمٹ گئی اور دیویندر فڈنویس کو استعفیٰ کی پیشکش
کرنی پڑی۔ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے جسے وہ بھگت رہے ہیں ۔دیویندر
فڈنویس کی حالت پرسجاد باقر رضوری کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق ہے
؎
کرسی جی کا روگ ہے پیارے جی کو روک لگاؤ کیوں
جیسی کرنی ویسی بھرنی اب اس پر پچھتاؤ کیوں
|