اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ ایران کی سرزمین پر شہید
کردیے گئے جہاں پر وہ بطور ایک مہمان کے مہمان ایرانی صدر کی تقریب حلف
برداری میں شرکت کیلیے گئے تھے ایک انتہائی اہم شخصیت ایک اہم ترین موقع پر
بطور مہمان شریک ہو اور پھر یقیناً ان کے قیام کا انتظام بھی کسی محفوظ
ترین مقام پر ہوگا اسکے باوجود ایک مہمان کا یوں قتل ہوجاناایک سوالیہ نشان
ہے اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ ایران مکمل طور سے غیر محفوظ ملک ہے اسی
تقریب میں شرکت کیلیے پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی مدعو تھے جن
کا دورہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ملتوی کردیا گیا اس سے قبل بھی ایران میں
ہی ملا اخ تر منص ور بھی قتل کئے جاچکے ہیں ایران کے صدر ایک ہیلی کاپٹر
حادثہ میں چل بسے تھے جس کے بعد ایران میں یہ ایک اہم ترین موقع تھا جس پر
سیکورٹی انتظامات کا غیر معمولی ہونا یقینی تھا لیکن اسکے باوجود اسماعیل
ہنیہ کو آسانی سے شہید کردیا گیا اسماعیل ہنیہ کا قیام، ہجرت اور شہادت اﷲ
کے لیے تھی اسماعیل ہنیہ نے دنیا کی ظالم ترین طاقتوں کا بے جگری سے مقابلہ
کیا پہلے اپنے خاندان کو راہ خدا میں قربان کیا پھر خود بھی جنت کا مسافر
بن گیا شہادت ایک مسلمان کی زندگی کا اختتام نہیں بلکہ راحتوں بھری نئی
زندگی کا آغاز ہے اسماعیل ہنیہ خاندان کے 31لوگ شہید ہوچکے ہیں اسماعیل
ہنیہ ایک سمندر کی طرح دل رکھتے تھے مسکراتے رہتے تھے اسماعیل ہنیہ عالم
اسلام کی بہت بڑی شخصیت تھی سب جانتے ہیں یہ یہودی اور اسرائیلی کارروائی
ہے کیونکہ اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کو زندہ نہیں چھوڑیں
گے جبکہ غزہ جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے درجنوں افراد شہید ہو
چکے ہیں اسماعیل ہنیہ 1962 میں غزہ کے شہر کے مغرب میں شطی پناہ گزین کیمپ
میں پیدا ہوئے انہوں نے 16 سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی
جن سے ان کے 13 بچے پیدا ہوئے جن میں 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں شامل ہیں اکتوبر
2023 میں غزہ شہر میں ان کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں خاندان کے چودہ
افراد شہید ہوگئے جن میں ایک بھائی اور بھتیجا شامل تھے نومبر 2023 میں ان
کی ایک پوتی غزہ شہر میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئی اور پھر اسی
ماہ کے آخر میں ان کا سب سے بڑا پوتا اسرائیلی حملے میں شہید ہوگیا اسماعیل
ہنیہ کے تین بیٹے اور تین پوتے 10 اپریل 2024 کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی
فضائی حملے میں شہید ہوگئے تھے 25 جون 2024 کواسماعیل ہنیہ کے خاندان کے دس
افراد بشمول انکی کی 80 سالہ بہن الشطی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی فضائی
حملے میں شہید کردیے گئے اسماعیل عبدالسلام احمد ہنیہ مصر کے مقبوضہ غزہ کی
پٹی کے الشطی پناہ گزین کیمپ میں مسلمان فلسطینیوں کے خاندان میں پیدا ہوئے
تھے انہوں نے اقوام متحدہ کے زیر انتظام سکولوں میں تعلیم حاصل کی اور غزہ
کی اسلامی یونیورسٹی سے 1987 میں عربی ادب میں ڈگری حاصل کی یونیورسٹی میں
رہتے ہوئے وہ حماس سے وابستہ ہو گئے۔ 1985 سے 1986 تک وہ اخوان المسلمون کی
نمائندگی کرنے والی طلبہ کی کونسل کے سربراہ رہے اسماعیل ہنیہ نے پہلی بار
انتفاضہ میں مظاہروں میں حصہ لیاجسکے بعد اسرائیلی فوجی عدالت نے انہیں
مختصر قید کی سزا سنائی اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 1988 میں دوبارہ حراست
میں لیا اور چھ ماہ تک قید رکھابعد میں 1989 میں انہیں تین سال کے لیے
قیدکردیا گیا 1992 میں ان کی رہائی کے بعد اسرائیلی فوجی حکام نے انہیں
حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرنتیسی، محمود ظہار، عزیز دوائیک
سمیت400 کارکنوں کے ساتھ لبنان جلاوطن کر دیا یہ کارکن جنوبی لبنان کے مرج
الظہور میں ایک سال سے زائد عرصے تک رہے جسکے بعد وہ غزہ واپس آئے اور
اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے اسرائیل نے احمد یاسین کو 1997 میں جیل
سے رہا کیا تو اسماعیل ہنیہ ان کے دفتر کے سربراہ مقررہوگئے حماس کے اندر
ان کی اہمیت بڑھی تو انہیں فلسطینی اتھارٹی کا نمائندہ مقررکردیا گیا 2003
میں یروشلم میں ایک خودکش بم حملے میں حماس کی قیادت کو ختم کرنے کی کوشش
کے دوران اسماعیل ہنیہ کے ہاتھ پر معمولی زخم بھی آئے تھے دسمبر 2005 میں
اسماعیل ہنیہ کو حماس کا سربراہ کے لیے منتخب کرلیا گیا جسکے بعد انہوں نے
قانون ساز کونسل کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی 25 جنوری 2006 کو حماس کی
"تبدیلی اور اصلاحات کی فہرست" کی فتح کے بعداسماعیل ہنیہ کو 16 فروری 2006
کو وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا اور 29 مارچ 2006 کو بطور وزیر اعظم
حلف اٹھایا تو اسکے بعد اسرائیل نے فلسطین کے خلاف اقتصادی پابندیوں سمیت
تعزیری اقدامات کا ایک سلسلہ نافذکردیا اسماعیل ہنیہ نے پابندیوں کو مسترد
کرتے ہوئے کہا کہ حماس نہ تو غیر مسلح ہوگی اور نہ ہی اسرائیل کو تسلیم کرے
گی۔ اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے محض ایک دن قبل اسرائیلی فوج نے لبنان کے
دارالحکومت بیروت پر ڈرون حملے میں حزب اﷲ کے سینئر کمانڈر فواد شْکرکو
شہید کیا تھا فواد شْکْر کی شہادت سے خطے میں عدم استحکام کی نئی لہر دوڑنے
کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا اور اب اسماعیل ہنیہ کو شہید کردیا گیا اس شہادت کے
بعد اسرائیل کی طرف سے جس نوعیت کا ردِعمل سامنے آیا ہے اْس سے اندازہ ہوتا
ہے کہ اْسے امریکا اور یورپ کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے اور امریکا کا یہ
کہنا محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کو کنٹرول کرکے
مشرقِ وسطٰی میں کسی بڑی جنگ کی راہ روکنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے اْس سے
یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے اچھی خاصی تیاری کرکے بیٹھے ہوئے تھے
اگر امریکا اور یورپ نے اس مرحلے پر اسرائیل کی پشت پناہی سے ہاتھ نہ
کھینچا تو خطے میں ایک ایسی جنگ چھڑسکتی ہے جو بہت سے ممالک پر محیط ہوسکتی
ہے اور اس جنگ میں کسی بھی فریق کے لیے نقصان سے بچنے کی گنجائش نہ ہوگی
اسکے ساتھ ساتھ اسرائیل پر حماس، حزب اﷲ اور حوثی ملیشیا کے حملوں میں شدت
بھی آسکتی ہے جبکہ اسرائیل کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ دنیا کے جدید
ترین ہتھیار اْسے میسر ہیں تاہم بڑی جنگ چھوٹے سے رقبے والے اسرائیل کے لیے
بہت بڑے نقصان کا سبب ہو سکتی ہے جس سے بچنا کسی بھی طور ممکن نہ ہوگا اب
یہ مسئلہ ڈائیلاگ کا نہیں رہا بلکہ اب اسکا ایک ہی حل ہے کہ اسرائیل
مسلمانوں کے علاقے سے نکل جائے اسرائیل ایک دہشتگردہے اس نے اسلامی سرزمین
پر قبضہ کیا ہوا ہے اسرائیل نے معاملات کو ایک جامع جنگ کی طرف دھکیل دیا
ہے اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے ظاہرہوتا ہے کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا ۔
|