حماس کے عظیم وبہادر رہنما اسماعیل ہنیہ کی ایران میں شہادت ۰۰۰ عالمِ اسلام کیلئے اہم سانحہ تو دشمنوں کیلئے خوشیاں

فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اور عظیم و بہادر فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں ایک حملے میں شہید کردیئے گئے ہیں۔انّا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔ڈان نیوز نے برطانوی نشریاتی ادارے میں شائع رپورٹ کے مطابق سعودی میڈیا الحدث نے کہا کہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی ایران کے دارالحکومت تہران میں رہائش گاہ کو ایک گائیڈڈ میزائل کے ذریعہ چہارشنبہ کی رات2بجے کے قریب نشانہ بنایا گیا ۔ جس میں 62سالہ حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ شہید ہوگئے۔حماس کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران میں موجود تھے جہاں انھیں نشانہ بناکر شید کردیا گیا۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو یہودی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا ، یہ حملہ بزدلانہ کارروائی ہے ، جس کا بدلہ لیں گے۔ اسرائیل کی جانب سے ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

اسماعیل ہنیہ کی تدفین 2؍ اگست کو قطر میں ہو گی: حماس
حماس نے اعلان کیا ہے کہ 31؍ جولائی کو تہران میں ہلاک کیے جانے والے رہنما اسماعیل ہنیہ کی تدفین 2؍ اگست کو قطر میں ہو گی۔ٹیلی گرام پر تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ یکم؍ اگست کو ایرانی دارالحکومت تہران میں ہنیہ کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی جس کے بعد میت کو 2؍ اگست کو تدفین کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل کیا جائے گا۔حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو قطر کے شہر لوسیل کے قبرستان میں سپرد خاک کیا جائے گا۔واضح رہیکہ اسماعیل ہنیہ طویل عرصے سے قطر میں ہی قیام پذیر تھے۔

اسماعیل عبدالسلام ہنیہ جن کو ابو العبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، وہ1962ء میں غزہ شہر کے مغرب میں شاتی پنا ہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والدین کو سنہ1948ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران غاصب اسرائیل کے قصبے اشکلون کے قریب اپنا گھر چھوڑنا پڑا تھا۔انھوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے وہ اسلامی تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔اسماعیل ہنیہ نے سنہ 1987 میں گریجویشن کی۔ اسی سال غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تھی۔ انھیں اسرائیلی حکام نے اس کے فوراً بعد مظاہروں میں حصہ لینے پر گرفتار کر لیا تھا لیکن اس وقت ان کی قید کی مدت مختصررہی۔ 1988 میں حماس کے غزہ میں ایک سرکردہ مزاحمتی گروہ کے طور پر سامنے آنے کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اس بار انھیں چھ ماہ کی قید ہوئی۔اسرائیل تاہم فلسطینی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہا اور پھر اگلے سال سنہ 1989 میں اسرائیل نے انہیں گرفتار کرکے تین سال کے لیے قید میں رکھا تھا اورتین سال بعد حماس کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ لبنان۔اسرائیلی سرحد پر مرج الظہور میں انہیں جلاوطن کر دیا گیا تھا ۔1992 میں ان کی رہائی کے بعد اسرائیل نے انھیں حماس کے سینئر رہنماؤں عبدالعزیز الرنتیسی اور محمود الزہر کے علاوہ 400 سے زائد دیگر کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں جلاوطن کر دیا۔ان جلاوطنوں نے مرج الظہور کیمپ میں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزارا جہاں ان کے اسلامی گروپ کو بہت زیادہ میڈیا کوریج ملی اور دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔اسماعیل ہنیہ دسمبر 1993 میں غزہ واپس آئے اور اسلامی یونیورسٹی کے ڈین مقرر ہوئے۔ اسرائیل نے سنہ 1997 میں شیخ احمد یاسین کو جیل سے رہا کیا جس کے بعد ہنیہ کو ان کا معاون مقرر کیا گیا۔دونوں افراد کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ کو فلسطین میں حماس کی مزاحمتی تحریک میں زیادہ اہمیت حاصل ہوئی اور وہ فلسطینی اتھارٹی میں گروپ کے نمائندہ بن گئے۔ستمبر 2003 میں ہنیہ اور احمد یاسین غزہ شہر کی ایک رہائشی عمارت پر ہونے والے اسرائیلی فضائی حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ اسرائیلی طیارے کے قریب آنے کی آواز سن کر دونوں افراد بم گرنے سے چند سیکنڈ قبل عمارت سے نکل گئے تھے۔لیکن اس کے محض چھ ماہ بعد احمد یاسین فجر کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے اسرائیلی ہیلی کاپٹر سے برسائی جانے والی گولیوں کے زد میں آ گئے تھے۔

ہنیہ فلسطین کے وزیر اعظم بھی رہے
16 فروری سنہ 2006 میں حماس نے انھیں فلسطین کے وزیر اعظم کے عہدے کیلئے نامزد کیا اور اسی ماہ کی 20؍ تاریخ کو انھوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔سنہ 2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ایک سال بعد فلسطین کے صدر محمود عباس نے انہیں برطرف کر دیا تھا جب القسام بریگیڈ نے غزہ کی پٹی میں سکیورٹی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔اسماعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔ بعد میں اسماعیل ہنیہ نے فتح کے ساتھ مفاہمت پر زور دیا۔6؍ مئی 2017 کو اسماعیل ہنیہ کو حماس کی شوریٰ نے سیاسی بیورو کا سربراہ منتخب کیا۔ سنہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ انہیں حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا ۔ پارلیمانی انتخابات میں حماس کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد فلسطینی اتھارٹی میں جب انھوں نے حکومت کی صدارت سنبھالی تھی تو ان کا نام اور ان کا عرفی نام (ابو العبد) سنہ 2006 سے ہی دنیا کو معلوم تھا۔ صحافی اسد اﷲ میر حسینی کے مطابق: ’’ 25 جولائی 2009 کو اسلامی یونیورسٹی غزہ میں 28ویں بیچ کے فارغ التحصیل طلبہ کی تقریب کے دوران، یونیورسٹی انتظامیہ نے اسماعیل ہنیہ کو اعزازی ڈاکٹریٹ اور پہلے درجہ کی اعزازی سند سے نوازا۔ یہ اعزاز ان کی فلسطینی مسئلے کے لیے بے لوث خدمات اور جدوجہد کی اعلیٰ قدردانی کی علامت تھا، جو ان کی محنت اور فکری بصیرت کا ثبوت تھا۔‘‘ اسد اﷲ میر حسینی نے اسماعیل ہنیہ کے مشہور اقوال کو اپنی ایک تحریر میں بتایاکہ: "ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے، ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔"، "قلعے نہیں گر سکتے، قلعے نہیں ٹوٹ سکتے اور ان شاء اﷲ ہم سے موقف نہیں چھینے جا سکتے۔"، "وزیرِ اعظم کی حیثیت سے، میں اسلامی تحریک حماس کا حصہ ہونے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔"، "وزیرِ اعظم کی حیثیت سے، مجھے شاطئی پناہ گزین کیمپ میں رہنے پر فخر ہے۔"،
"ہم وہ لوگ ہیں جو موت کو اسی طرح پسند کرتے ہیں جیسے ہمارے دشمن زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ ہم شہادت کو پسند کرتے ہیں جس پر رہنماوں نے جان دی۔"

اسماعیل ہنیہ نے اپنے بچوں کی شہادت دیکھی اور اﷲ کا شکر ادا کیا
اسماعیل ہنیہ یہ وہ بہادر شہید ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کی شہادت کو دیکھا اور زبان پر کسی قسم کا شکوہ نہیں لایا بلکہ پورے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بچوں کی شہادت پر اﷲ کریم کا شکر ادا کیااور مظلوم فلسطینیوں کیلئے اسرائیل کے ناپاک عزائم کے خلاف مزید مضبوط دکھائی دینے لگے۔ رمضان المبارک کی عید کے دن یعنی10؍ اپریل 2024کو اسماعیل ہنیہ کے تینوں بیٹے اپنے بچوں کے ساتھ خاندان کے دیگر افراد سے عید ملنے جا رہے تھے کہ اسی دوران اسرائیل فضائیہ نے انکی کارپرغزہ پٹی کے الشاتی کیمپ کے قریب حملہ کرکے انہیں شہید کردیا تھا۔اپنے بچوں کی شہادت پر اسماعیل ہنیہ نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان کے تین بیٹے، حاضم، عامر اور محمد، جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں ہی رہائش پذیر رہے تھے۔جبکہ حماس کی جانب سے اس واقعہ کے بعد جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق اس حملے میں اسماعیل ہنیہ کے پوتے اور پوتیاں، مونا، امل، خالد اور رضان، بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے کسی رکن کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ اس سے قبل فروری میں اسماعیل ہنیہ کے ایک اور بیٹے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ اکتوبر میں ان کے ایک بھائی اور بھتیجے کی ہلاکت ہوئی اور نومبر میں اسماعیل ہنیہ کے ایک پوتے ہلاک ہو چکے ہیں۔اسماعیل ہنیہ نے اس بڑے سانحہ کے بعد الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’دشمن اس دھوکے میں نہ رہے کہ میرے بیٹوں کو امن مذاکرات کے دوران نشانہ بنا کر اور تنظیم کے جواب سے قبل وہ حماس کو اپنی پوزیشن بدلنے پر مجبور کر دے گا۔‘حماس کے ٹیلیگرام چینل پر اپنے ردعمل میں اسماعیل ہنیہ نے اﷲ رب العزت کا شکر ادا کیا تھا کہ ان کو اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کی ’شہادت سے عزت ملی۔‘اسماعیل ہنیہ نے کہا تھا کہ ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کرینگے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کرینگے۔‘ شہید اسماعیل ہنیہ نے واضح کیاتھا کہ ’میرے بیٹوں کا خون ہمارے لوگوں کے خون سے زیادہ عزیز نہیں۔‘ اپنے بھائیوں کی شہادت کے بعد’اسماعیل ہانیہ کے سب سے بڑے بیٹے عبدالسلام نے ایک فیس بک پوسٹ میں تصدیق کی کہ ان کے تین بھائی مارے گئے ہیں۔ عبدالسلام ہنیہ نے لکھا کہ ’اﷲ کا شکر ہے جس نے ہمیں میرے بھائیوں، حزم، عامر اور محمد اور ان کے بچوں کی شہادت سے نوازا۔‘

اسرائیل کو غزہ آپریشن ختم کرنے کا موقع مل سکتا ہے: لارڈ پیٹر ریکٹس
حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر جہاں کئی ممالک کی جانب سے سخت مذمتی بیانات جاری کئے گئے ہیں اور اس حملے کے بعد خطے میں کشیدگی میں مزید اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے وہیں برطانیہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر لارڈ پیٹرریکٹس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ’اسرائیل کی خطے تک رسائی کی صلاحیت کا ایک طاقتور مظاہرہ ہے۔‘اسرائیل نے اس حملے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے، حالانکہ اس سے پہلے اس نے کہا تھا کہ وہ حماس کے رہنماؤں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ریکٹس کا کہنا ہے کہ اس سے اسرائیل کو غزہ میں آپریشن ختم کرنے کے لیے سیاسی گنجائش مل گئی ہے کیونکہ اب وہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے ہنیہ کی قیادت کو واقعی ایک بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔تاہم ریکٹس کا کہنا ہے کہ یہ ’مشرق وسطیٰ میں بہت خطرناک وقت ہے۔‘برطانیہ کے سابق قومی سلامتی کے مشیر لارڈپیٹرریکٹس جیسے کئی افراد ہونگے جنہیں اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر خوشی ہوئی ہوگی لیکن انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے بزدلانہ حملے مجاہدین کے لئے مزید طاقت کے مواقع پیدا کرتے ہیں ۔ ویسے اسلام نے ہمیشہ اپنے بہادر و عظیم مجاہدین کی شہادت پر اﷲ کا شکر ادا کیا ہے اور انکا نعم البدل عطا فرمانے کی دعا کی ہے اور یہ یقین سے کہا جاسکتا ہیکہ ظالم اسرائیل کے خلاف فلسطینی مجاہدین اورپوری شجاعت اور جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہینگے جب تک کہ فلسطین آزاد نہ ہوجائے۔

صدر محمود عباس کا کی جانب سے مذمت
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ حماس کے سربراہ کے قتل کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے فلسطینیوں کو ثابت قدم رہنے پر زور دیا۔

’مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کیلئے کھلی جنگ چھڑے گی‘
حماس کے سینئر ترجمان سامی ابوزہری نے ذرائع ابلاغ رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیلہنیہ کے قتل سے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکے گا، اور اب مقبوضہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے ’کھلی جنگ‘ چھڑے گی، اور حماس اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی فرقوں نے ہڑتال اور بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی ہے۔

مختلف ممالک اور رہنماؤں کی جانب سے مذمت
ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کے دفتر خارجہ نے ردعمل میں کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے ’قتل‘ کے اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوغان نے تہران میں اپنے قریبی اتحادی اور ’بھائی‘ اسماعیل ہنیہ کے ’دھوکے پر مبنی‘ قتل کی مذمت کی۔صدر اردوغان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ’اﷲ تعالیٰ میرے بھائی اسماعیل ہنیہ پر رحم کرے جو ایک ناخوشگوار حملے میں شہید ہوئے۔انہوں نے مزید لکھا ’اس شرمناک اقدام کا مقصد فلسطینی جدوجہد، غزہ والوں کی شاندار مزاحمت اور ہمارے فلسطینی بھائیوں کی منصفانہ لڑائی کو نقصان پہنچانا ہے اور فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔‘

اسماعیل ہنیہ کا قتل ’مکمل طور پرناقابل قبول‘۔روس
روسی وزارتِ خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ تاہم نائب وزیرِ خارجہ میخائل بوگدانوف کا کہنا ہے کہ ’حماس کے رہنما کی ہلاکت سے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔‘

قطر نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو گھناؤنا جرم قرار دیا
قطر نے بھی اسماعیل ہنیہ کے قتل پر شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے گھناؤنا جرم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ’کشیدگی کو خطرناک حد تک بڑھاوا دینا ہے اور بین الاقوامی اور انسانی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔‘قطر کی وزارت خارجہ نے جاری بیان میں زور دیا کہ ’قتل اور شہریوں کو بے پرواہی کے ساتھ نشانہ بنانے سے خطے میں افراتفری پھیلے گی اور امن کے امکانات کو نقصا پہنچے گا۔‘

ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ’گھناؤنا دہشت گردانہ جرم‘ قرار دیا ہے۔حوثیوں کے سیاسی بیورو کے رکن محمد علی الحوثی نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ اسماعیل ہانیہ کو نشانہ بنانا ’ایک گھناؤنا دہشت گردانہ جرم اور قوانین اور مثالی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔‘

لبنانی مسلح گروہ حزب اﷲ نے بھی تعزیاتی پیغام جاری کیا تاہم قتل کا الزام اسرائیل پر نہیں عائد کیا ہے۔پیغام میں گروپ نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے ایرانی حمایت یافتہ گروپ جیسے حزب اﷲ اور حماس ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ پرعزم ہیں۔

دوسری جانب ایک ذرائع نے بتایا کہ ایران کی اعلیٰ سکیورٹی ایجنسی کا اجلاس متوقع ہے جس میں تہران کے قریبی اتحادی اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔

پاکستان نے بھی اسماعیل ہنیہ ہلاکت کی مذمت کی ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان میں اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ اور فلسطینی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی کے مدیر رافی برگ اور مدیر برائے عالمی امور جیریمی بوئن کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو اب کیوں نشانہ بنایا گیا؟

مشرقِ وسطیٰ کے امور کے لیے بی بی سی کے مدیر رافی برگ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے قتل میں ہدف اور جس جگہ انھیں نشانہ بنایا گیا دونوں ہلا دینے والے ہیں۔اسرائیل پر حماس کے 7؍ اکتوبر 2023 کے حملے کے ہفتوں بعد، اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا تھا کہ انھوں نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کو ہدایت کی ہے کہ ’حماس کے رہنما جہاں بھی ہوں ان کے خلاف کارروائی کریں‘۔اسماعیل ہنیہ تہران میں تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ حملہ قطر میں نہیں ہوا جہاں ہنیہ سکیورٹی کے گھیرے میں ہوتے تھے، بلکہ ایران کے اندر ہوا جو حماس کا سب سے اہم حمایتی ہے۔ اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ حملہ اسرائیل نے کیا ہے تو یہ کارروائی ایک پیغام ہے کہ کچھ بھی اس کی پہنچ سے باہر نہیں اور یہ کہ وہ اپنے سب سے خطرناک دشمن کی ناک کے نیچے کارروائی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ہنیہ کی موت اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حماس کے نمبر دو، محمد ضیف کو نشانہ بنائے جانے کے صرف دو ہفتے بعد ہوئی ہے اور اس جنگ کے آغاز کے بعد سے اعلیٰ سیاسی اور عسکری رہنماؤں کی ہلاکت انفرادی اور آپریشنل سطح پر گروپ کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔

بی بی سی کے مدیر برائے عالمی امور جیریمی بوئن کا بھی یہی کہنا ہے کہ ’فرض کریں کہ اسرائیل نے ہی اسماعیل ہنیہ کو مارا اور میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے سوا اور کون ہو سکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جبکہ انہیں ماضی میں کچھ مواقع ضرور ملے ہوں گے، اب وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟

ان کے مطابق اسماعیل ہنیہ کوئی ایسی شخصیت نہیں تھے جو حماس کے عسکری ونگ کے رہنماؤں کی طرح چھپ کر رہتے ہوں۔جیریمی بوئن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی طور پر قطر میں اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنا ممکن نہیں تھا لیکن انھیں ایران میں قتل کرنا اسرائیل کی پہنچ کے بارے میں ایک پیغام دیتا ہے، یہ پیغام کہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے مذاکرات میں شامل تھی، اس لیے یہ واقعہ ان کوششوں میں مزید مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا ایران کا فرض ہے
ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو ہنیہ کے ’بزدلانہ‘ قتل پر بھرپور جواب دیں گے اور ایران ’اپنی علاقائی سالمیت، وقار اور وقار کا دفاع کرے گا۔‘ ذرائع ابلاغ اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے ایک بیان میں ہنیہ کو ایک ’بہادر رہنما‘ قرار دیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لینا ’تہران کا فرض‘ ہے۔ اْن کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیل جس نے اب تک ہنیہ کے قتل کی ذمہ واری قبول نہیں کی، نے ’سخت سزا‘ کی بنیاد فراہم کی ہے۔

ہنیہ کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا: ایران
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے ہنیہ کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں ’قابل فخر جنگجو‘ قرار دیا ہے۔ایرانی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق کنانی کا کہنا ہے کہ ’ہنیہ کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ایران تحقیقات کر رہا ہے لیکن اس ہلاکت سے ایران اور فلسطینیوں کے درمیان ’گہرے تعلق کو تقویت ملے گی۔‘اب دیکھنا ہیکہ کیا واقعی ایران شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا بدلہ لے گا یا نہیں۰۰۰

اسماعیل ہنیہ کا قتل ’’مکمل طور پر ناقابلِ قبول‘ ۔ روس
روسی وزارتِ خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ تاہم نائب وزیرِ خارجہ میخائل بوگدانوف کا کہنا ہے کہ ’حماس کے رہنما کی ہلاکت سے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد صرف چند ممالک ہیں جنہوں نے انکی شہادت پر مذمتی بیانات جاری کئے ہیں، جبکہ عالمِ عرب و کئی اسلامی ممالک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ حماس کے رہنما کی شہادت انکے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ البتہ شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے دنیا بھر کے مسلمان مغموم ہوگئے اور انکی شہادت عظیم سانحہ قرار دیا۔ کاش عالمِ اسلام متحدہ طور پر ایک قرارداد کے ذریعہ ان پر کئے گئے حملہ کی بھرپور طور پر مذمت کرتے ہوئے انکے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے آواز اٹھاتے۔
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 355 Articles with 223603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.