جمعہ نامہ: کوئی نذر پوری کرچکا اور کوئی منتظر ہے

 ارشادِ ربانی ہے:’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو اُس نے تم پر کیا جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں‘‘۔غزوۂ احزاب میں کافروں کا لشکر جب بیس دن کی گھیرابندی کے بعد آندھی کے سبب بے نیل و مرام لوٹ گیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اب سے کافر ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ ہم ہی ان پر چڑھائی کریں گے ۔ یعنی اب اسلام مدافعت سے اقدام کے دور میں داخل ہورہاہے ۔ یہ مرحلہ بڑی آزمائش سے گزرنے کے بعد آیا اور اس دوران مسلمانوں کامتضاد رویہ بھی سامنے آیا ۔ اس بابت فرمانِ قرآنی ہے :’’ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے‘‘۔ ایمان کے دعویداروں کا تضاد کیوں ظاہر ہوااس کاراز معرکۂ جنگ کی منظر کشی میں کھلا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں :’’جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آ گئے، اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے ‘‘۔

اہل غزہ فی الحال اسی طرح کے حالات سے نبرد آزما ہیں اس لیے ان کے تعلق سے بھی کچے ّ اور سچے مسلمانوں کا رویہ مختلف ہے۔ فرمان ربانی ہے: ’’یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے ۔ جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ "اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے، پلٹ چلو" جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ "ہمارے گھر خطرے میں ہیں،" حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے، دراصل وہ (محاذ جنگ سے) بھاگنا چاہتے تھے‘‘۔ ایسے لوگوں کے فتنہ میں پڑنے کا امکان اور عہد کی بازپرس کا حوالہ دینے کے بعد نبیٔ اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ:’’ ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہو گا اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا‘‘۔

حالات کی سنگینی سے گھبرا کر دشمنانِ اسلام سے پینگیں بڑھانے والوں کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ :’’اِن سے کہو، کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے؟ اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مدد گار نہیں پا سکتے ہیں‘‘۔ قائدِ مزاحمت اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ملت کے اندر جو خلفشار پیدا کرنے کی سعی کی گئی اس کو آگے والی اس آیت کی روشنی میں دیکھیں :’’ا للہ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جنگ کے کام میں) رکاوٹیں ڈالنے والے ہیں، جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ "آؤ ہماری طرف" جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنانے کوجو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، ۰۰۰‘‘۔ناقص ایمان کی یہ کیفیت خالص مسلمانوں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتی کیونکہ ان کو تو تلقین کی گئی ہے کہ :’’در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے‘‘۔

صحابۂ کرام ؓ نے نبیٔ کریم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کیسے کی، اس کیفیت کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تاقیامت اہل ایمان کی نصیحت و موعظت کی خاطر کتاب حق میں محفوظ فرمادیا ، ارشادِ قرآنی ہے:’’اور سچے مومنوں (کا حال اُس وقت یہ تھا کہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ "یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اُس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی" ۔ اہل ایمان ہر دور میں اِ س قوت ایمانی کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں دیکھیں تو ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد جب طاغوتی طاقتوں نے اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی یا جب عراق پر چڑھائی کرکے اسے نیست و نابود کرنے کی سعی کی گئی۔ افغانستان کے کوہساروں سے غزہ کے میدانوں تک باطل کے آگے سینہ سپر ہوجانے والوں پر یہ آیت صادق آتی ہے کہ :’’ اِس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ وہ نہ تو مایوس ہوئے اور نہ پژمردہ ہوئے‘‘ ۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد نصرت الٰہی انہیں پہلے بھی کامیابی وکامرانی سے ہمکنار کرچکی ہے اور فلسطین میں بھی کرے گی۔ان شاء اللہ

شہید اسماعیل ہنیہ کی شہادت پران کے بیٹے عبدالسلام ہانیہ کا بیان ان شکوک و شبہات پھیلانے والوں کے خلاف بہترین گواہی ہے جو نیتن یاہو سے زیادہ خوش نظر آتے ہیں ۔ عبدالسلام ہانیہ نے کہا کہ والد کے قتل سے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت ختم نہیں ہوگی،والد کی شہادت آزادی کے حصول تک لڑی جانے والی مزاحمت کو نہیں روکے گی ۔انہوں نے بتایا کہ میرے والد قومی اتحاد کی خاطر اور تمام فلسطینی دھڑوں کومتحدکرنے کے لیے کوشاں تھے، وہ چار قاتلانہ حملوں میں بچے، آج اللہ نے انہیں شہادت کا رتبہ عطا کیا۔ ظلم و جبر کے خلاف غلبۂ اسلام کی کشمکش میں اپنا جان مال اہل و عیال سب کچھ قربان کردینے والوں کو قرآن کریم میں بشارت دی گئی ہے کہ : ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی‘‘۔شہید اسماعیل ہنیہ اور ان کے فرزند عبدالسلام کا جذبۂ ایمانی اس آیت کی عملی تفسیر ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ اسماعیل ہنیہ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور عبدالسلام و اہل خانہ کو صبر جمیل سے نوازے ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1459378 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.