ہندوستان کی جمہوریت اور اس کا بدلتا منظر

ہندوستان کی جمہوریت کا سفر 1947 میں آزادی کے ساتھ شروع ہوا، جب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں ایک جامع آئین تیار کیا گیا۔ 26 جنوری 1950 کو اس آئین کو نافذ کیا گیا، جس نے ملک کو ایک جمہوری ریاست بنایا۔ ہندوستان کی ثقافت میں تنوع، محبت، اور بھائی چارہ شامل ہے، مگر آج کل حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ مختلف مسائل جیسے حجاب، CAA، اور NRC مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو متاثر کر رہے ہیں۔ ہمیں ایک انصاف پسند حکومت کی ضرورت ہے جو تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ہمیں مل کر ایک مضبوط اور پرامن معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی، جہاں ہر فرد کو عزت اور مساوات ملے۔

یوں تو ہمارا ملک 1947 میں انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا تھا، مگر ان کے نافذ کردہ قوانین و ضوابط کی دلدل میں ابھی بھی باشندگانِ ہندوستان پھنسے ہوئے تھے۔ ہر طرف یہ ہلچل مچی ہوئی تھی کہ کس طرح کے دستور کو عمل میں لایا جائے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے بعض ہندوستانی افسروں کو بلایا اور دستور کی تعمیر پر بحث و مباحثہ کیا، جس کے بعد تمام حکمرانوں اور افسروں نے مل کر ایک ایسے آئین کو وجود میں لایا جس پر ملک کی عوام متفق ہو گئی۔ اسی وجہ سے آج ہم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو بابائے آئینِ ہند قرار دیتے ہیں۔ اس آئین کو 26 جنوری 1950 کو عمل میں لایا گیا اور ملک بھر میں نافذ کیا گیا۔ تب سے اس دن کو خاص اہمیت حاصل ہوئی اور اسے یومِ جمہوریہ کے نام سے جانا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ 15 اگست کو بھی یومِ آزادی کے نام سے جانا گیا جس دن تمام باشندگانِ ہند کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی ملی۔ آج بھی ان دونوں دنوں کو قومی تہوار کے طور پر بڑے ہی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔

ہندوستان ایک منفرد ملک ہے جہاں ہر چیز کا وجود ہے: ہر قسم کے لوگ، مختلف زبانیں، طرح طرح کے پکوان، اخوت، بھائی چارہ، پیار و محبت، دوستی، دشمنی، اور عجائبات، یہ سب ہندوستان کی جمہوریت اور شناخت کو عالمی سطح پر قائم رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کہ ایک زمانے میں ہندوستان "سنہری چڑیا" کے نام سے مشہور تھا۔ دنیا بھر کے تاجروں کی یہی خواہش رہی کہ وہ ہندوستان کی سیاحت و تفریح کے لیے آئیں اور یہاں کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھائیں اور امن و امان کی زندگی گزار سکیں۔ اسی وجہ سے ہندوستان میں شورش سی مچ گئی اور ایک شور سا بپا ہو گیا۔ دیکھا گیا کہ انگریز ہندوستان میں قبضہ جمانے کے لیے گہری سازشیں کر رہے ہیں۔ ابتدا میں انہوں نے تاجر کی حیثیت سے اپنی جگہ بنائی اور وقتاً فوقتاً تاجروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ جس کی بنا پر ان کے دلوں میں جو تجارت کا خیال تھا، وہ حکمرانی میں تبدیل ہو گیا۔ ان کے دل نفرت، بغض و عدوات، حسد و کینہ سے بھر گئے۔

انگریز ذہانت و فطانت میں ہندوستانیوں کے مقابلے میں زیادہ چالاک تھے۔ معصوم عوام کو بے وقوف بنا کر مال و دولت لوٹتے رہے۔ کچھ عرصے تک یہی سلسلہ جاری رہا، پھر وہ ہندوستان میں اپنی حکومت اور نظام کو بڑھاوا دینے لگے اور اس کی نشر و اشاعت میں رات دن ایک کر دیے۔ ہندوستان کے بڑے بڑے حکمرانوں اور مہاراجاؤں کو اپنی ہوشیاری اور چالاکی دکھا کر مال و دولت کی چاشنی پلا کر دلوں پر یوں ہی قابض و حاوی ہو گئے۔ انہی وجوہات کے پیش نظر ہندوستانیوں نے ان کے خلاف احتجاج اور بغاوت کرنا شروع کر دی، اور اس کی سب سے بڑی مثال میر صادق ہیں۔

اب ہندوستان ان کے بل بوتے پر چلنے لگا تھا۔ ایک ترقی یافتہ ملک، جہاں ہر جگہ شور و غوغا کی صدائیں گونجنے لگی تھیں۔ کوئی کسی پر زور و جبر کر رہا تھا، کوئی کسی پر کوڑے برسا رہا تھا، کوئی سمجھداری اور ہوشیاری سے کام لے رہا تھا، کوئی کسی کی زمین لوٹ رہا تھا، اور کوئی مکان پر قبضہ جما رہا تھا۔ البتہ ہندوستان کے ہر گوشے میں اب انگریزوں کے قبضے کا اثر پھیل گیا تھا اور ہر سمت مطلق الحکم شاہنشاہ انگریز کی حکمرانی چلنے لگی تھی۔ جب انگریزوں کے ظلم و ستم حد سے گزرنے لگے، تو ہندوستانیوں کا صبر جواب دے گیا، بے خوف ہندوستانی بے باک ہو گئے اور انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔ 1857 میں ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف پہلی جنگِ آزادی لڑی۔ اس وقت سے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ آخرکار 1947 میں ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا، لیکن 26 جنوری 1950 کو آزاد ملک جمہوری ملک بن گیا۔ بلاشبہ، اس دن کے لیے گاندھی جی، مولانا ابو الکلام آزاد، جواہر لال نہرو، خان عبدالغفار خان، نیتا جی سبھاش چندر بوس جیسے عظیم رہنماؤں کی قیادت میں ہزاروں لاکھوں ہندوستانیوں نے بلا امتیاز مذہب و ملت آزادی کے پرچم کو بلند کیا اور اپنی بے مثال قربانیوں اور اتحاد و اتفاق سے انگریزوں کا مقابلہ کیا اور انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔

جمہوریت کیا ہے؟ اس کی تعریف یہ ہے کہ ایک ایسا نظام جس میں عوام براہِ راست اپنے چنے ہوئے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت کے معاملات کو چلانے کا اختیار رکھتے ہیں، ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ اس آئین کو بنانے میں سب سے بڑا ہاتھ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا تھا۔ ان کی زیر نگرانی اس آئین کی تخلیق ہوئی۔ بابا صاحب امبیڈکر نے بین الاقوامی طور پر رائج ہونے والے تمام ممالک کے آئین کو اپنے سامنے رکھا اور جو قانون مناسب لگا، اسے ہندوستان کے آئین میں شامل کرتے گئے۔ اس کے بعد ہندوستان کے حکمرانوں سے بہت ہی بحث و مباحثے کے بعد بہت سے قوانین کو نکالا گیا اور آخرکار 1950 میں اس آئین کو عمل میں لایا گیا۔

پر آج کی حکومت نے ان تمام قوانین میں تبدیلی کرنے کی ضد پکڑ رکھی ہے اور لوگوں کو اپنے حقوق پر عمل کرنے کی قیود لگائی جا رہی ہیں۔ خصوصاً آج حکومت کا اصل مقصد یہ بن گیا ہے کہ تمام مسلمانوں کو یہاں سے نکال دیا جائے اور پورے ہندوستان میں ہندوتوا کا سکّہ چلایا جائے۔ یہ کہتے ہوئے مجھے راحت اندوری کا شعر یاد آ گیا:

اگر خلاف ہیں ہونے دو جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے کوئی آسمان تھوڑی ہے

لگے گی آگ تو آئیں گے کئی مکان زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرایے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری

اس طرح مختلف قسم کے مسائل میں مسلمانوںِ ہند کو گھیر لیا جا رہا ہے۔ جیسے کہ حجاب کا مسئلہ، CAA اور NRC کا مسئلہ، اور مساجد میں اذان بند کرنے کا مسئلہ۔ ان مسائل کے ذریعے مسلمانوں کے مذہبی اور ثقافتی حقوق پر قدغن لگائی جا رہی ہے اور انہیں مخصوص دائرے میں محدود کیا جا رہا ہے۔ اس کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ نیک اور انصاف پسند حکمران ہندوستان میں آئیں اور عدل و انصاف کا پرچم لہرائیں۔ ایسی حکومت جو تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرے، بغض و عداوت کی بجائے حب و احترام کا پیغام دے، اور ہر فرد کو ان کی مذہبی آزادی اور بنیادی حقوق فراہم کرے۔ مزید برآں، عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ ایسے رہنماؤں کو اپنا رہنما تسلیم کریں جو ان کے حقوق کی حفاظت کریں، نہ کہ دشمن سمجھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج کی حکومت کے خلاف جتنا بھی بولا جائے کم ہے، کیونکہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے نفرت اور تقسیم کو فروغ دے رہی ہے، اور اس سے صرف ایک مخصوص طبقے کے مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ آج کے حالات میں، انصاف اور مساوات کی بحالی کے لیے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ ایک بہتر اور پرامن معاشرہ قائم ہو سکے۔

ہندوستان میرا وطن ہے، تمام ہندوستانی میرے بھائی اور بہن ہیں۔ میں اپنے ملک سے محبت کرتا ہوں اور ہمیشہ اس کی شان و شوکت بڑھانے کی کوشش کروں گا۔ میرا ایمان ہے کہ ہر فرد کو اپنے حقوق اور آزادیوں کی مکمل حفاظت ملنی چاہیے، اور تمام قومیتوں، مذاہب، اور ثقافتوں کو برابری کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے۔ میرے دل میں ہر ایک ہندوستانی کے لیے محبت اور احترام ہے، اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم سب مل کر اپنے ملک کو ایک مضبوط، پرامن، اور انصاف پسند معاشرہ بنا سکتے ہیں۔ ہم سب کی مشترکہ جدوجہد اور عزم ہی ہمارے وطن کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔ ہر چیلنج اور مشکل کے باوجود، میں اپنی کوششیں جاری رکھوں گا تاکہ ہندوستان کو ایک مثالی ملک بنایا جا سکے جہاں ہر شہری کو عزت اور مساوات ملے۔
 

MAHAMMAD KAREEM MULLA
About the Author: MAHAMMAD KAREEM MULLA Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.