جولوگ بل گیٹس کے اندازقیادت اورطرزتجارت سے واقف ہیں
انہیں علم ہے وہ جب اپنے کسی پراجیکٹ پرکام شروع کرتا ہے تو وہ اپنے بورڈ
آف ڈائریکٹرز کے اجلاس میں اپناکوئی نیا تصور اورنیا منصوبہ پیش کرتا ہے
اور پھر کہتا ہے جومیری سوچ سے متفق ہیں وہ باہرجاسکتے ہیں تاہم جومتفق
نہیں وہ میرے ساتھ مکالمے کیلئے تشریف رکھیں ، ہم باہمی ڈائیلاگ کے دوران
ایک دوسرے سے سیکھیں گے ۔یہ ایک کامیاب شخصیت کی صفات اورترجیحات ہیں۔بڑے
لوگ اختلاف رائے کو خوش دلی سے سنتے اور اس سے سیکھتے ہیں لیکن ہماری
جماعتوں میں بالکل اس کے متضاد کلچر ہے جو شخص کئی دہائیوں سے آپ کے ساتھ
کھڑا رہے ،سیاسی گرد اورسرد اور گرم موسم میں ہر طرح کی کٹھن صورتحال کا
سامنا کرے ، دشوار ترین آمرانہ ادوار میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا رہے ،قیدو
بند کی سختیاں بھی برداشت جبکہ ناجائز ،بوگس، سیاسی اورانتقامی مقدمات کا
سامنا بھی کرے لیکن اس کی کسی ناپسندیدہ بات پرپارٹی قائد ہمیشہ کیلئے ا س
سے ناراض اوردور ہوجاتا ہے ۔ میں متعدد سیاسی رہنماؤں کوجانتا ہوں جو
بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی سیاست
کوداغدارکیا اورنہ اپنی سیاسی قیادت کودغا دیا لیکن اس کے باوجوداگران میں
سے کسی نے قیادت کے مزاج سے متصادم کوئی بات کردی یا مشورہ دے دیا توپارٹی
قائد نے اس کے نام پرکاٹا لگادیا۔پارٹی سربراہان ا س طرح کی شخصیات کو
برداشت نہیں کرتے، آج جاوید ہاشمی بھی آج مسلم لیگ( ن) میں نہیں ہے،پرویز ی
آمریت کے پرآشوب دور میں وہ نوازلیگ کا قائمقام صدراورکوٹ لکھپت جیل میں
تھا لیکن قیدوبند کے باوجودپارٹیوں میں جو کان بھرنے والے ہوتے ہیں انہوں
نے نوازشریف کے کان بھرے اورنتیجتاً جاوید ہاشمی کومسلم لیگ (ن) چھوڑنا پڑی
۔ سابقہ ممبر پنجاب اسمبلی ،سابقہ صدر مسلم لیگ (ن)وومن ونگ لاہوراوربیگم
تاج خاور کی باوفااورباصفا بیٹی عائشہ جاوید سمیت متعدد رہنماؤں کومسلم لیگ
(ن )میں دیوار کے ساتھ لگادیا گیا جس کے بعدباامرمجبوری انہیں کئی دہائیوں
کی سیاسی رفاقت اورقربانیوں کے باوجود جماعت چھوڑنا پڑی۔ مسلم لیگ (ن) میں
اپنے ناراض حامیوں کو منانے کاکوئی رواج نہیں۔ کسی ایک رہنماء یا دو چار
عمائدین کے چھوڑجانے سے جماعت کوکسی قسم کا فرق نہیں پڑتا ،یہ تاثر درست
نہیں کیونکہ جب کسی عمارت کی دیوارسے ایک خشت نکل جائے تو پھر باقی اینٹوں
کاکمزورپڑنا اورعمارت کازمین بوس ہونایقینی ہوجاتا ہے۔ جو سیاسی شخصیات
میرا موضوع ہیں وہ اینٹیں نہیں بلکہ انہیں ستون کہنا بیجا نہیں ہوگا۔ شاہد
خاقان عباسی کاشمار مسلم لیگ (ن)کے مرکزی اورممتازعمائدین میں ہوتا تھا۔وہ
قومی سیاست کی ایک قد آور شخصیت،وہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اوران کے
طرزسیاست کے ساتھ اپنے تحفظات اور اصولی اختلافات کابراہ راست اظہار
کیاکرتے تھے۔ شاہدخاقان عباسی کی شخصیت اورسیاست میں وضع داری،رواداری
اوربردباری کارنگ نمایاں ہے۔مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کئی بار ان کے تحفظات
دورکرنے کاوعدہ کیا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔سردارذوالفقار علی خان
کھوسہ، مشاہد حسین سیّد،نواب غوث بخش باروزئی ،جاویدہاشمی ، چوہدری نثار
علی خان،میاں غلام حسین شاہد جبکہ چنیوٹ سے باوفا اورباصفا شیخ قیصر محمود
یہ سبھی حضرات بھی نظریاتی اوراصولی سیاست کااستعارہ ہیں لیکن قومی سطح پر
ا ن کی قائدانہ صلاحیت اورقابلیت سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا، اس طرح مزید
کئی اہم نام ہیں جو اب قومی سیاست میں فعال اور متحرک نہیں رہے ۔
عوام پاکستان کے پاس پرجوش ٹیم اور ایک بھرپور سیاسی ایجنڈا ہے ۔ اس جماعت
کے بانیان کاایک سیاسی پس منظر ہے،جس جماعت کے پاس کوئی سیاسی فلسفہ نہ ہو
وہ زیادہ دیرتک اپناوجود برقرار نہیں رکھ سکتی ۔ مجھے لگتا ہے آنیوالے دنوں
میں اوورسیز پاکستانیوں سمیت ملک بھر سے بڑی قد آور سیاسی شخصیات اور سیاسی
کارکنان اس پارٹی کے حصہ ہوں گے کیونکہ جہاں تک میری معلومات ہیں یہ ایک
نظریاتی جماعت ہے اور تعمیری سوچ کے ساتھ میدان سیاست میں اتری ہے۔ یہاں پر
موروثی سیاسی کلچر اور سیاسی خاندان یا ون مین شو نظر نہیں آئے گا ۔چندمخصوص
اورمنحوس سیاسی شخصیات کی اجارہ داری نہیں ہوگی۔اس جماعت کے بانیان مثبت
سیاسی روایات کوفروغ دیں گے ۔جو ان کے شریک سفر ہوں گے انہیں عزت،اہمیت
اوراقتدارمیں شراکت ملے گی۔ شاہاخاقان عباسی ،سردار مہتاب احمد خان عباسی ،
مفتاح اسماعیل اورسیّدزعیم حسین قادری اپنے اپنے شعبہ کے ماہراور منجھے
ہوئے سیاستدان ہیں۔ خاص طور پر سیّد زعیم حسین قادری کاتعلق پاکستان کے ایک
بڑے اورمعتبر سیاسی خاندان سے ہے ،ان کے باپ دادانے قومی سیاست پرانمٹ نقوش
چھوڑے ہیں، اس خاندان کا قیام پاکستان اوراستحکام پاکستان کی جدوجہدمیں
کلیدی کرداررہا ہے ،سیّد زعیم حسین قادری یقینا ریاست ،قومی سیاست کے ساتھ
ساتھ اپنی جماعت اور قیادت کیلئے مفیدرہیں گے۔استحکام پاکستان کیلئے سیاسی
،معاشی مضبوطی اور مستندومنظم سیاسی اداروں کی ضرورت ہے۔اگرسیاسی اداروں
میں نقب لگائی جائے گی اورانہیں کمزورکیاجائے گاتو ریاست ، سیاست اورقومی
معیشت پراس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔سنجیدہ پاکستانیوں کی طرح
شاہدخاقان عباسی اورسیّد زعیم حسین قادری نے بھی پی ٹی آئی پرپابندی کی
تجویز کومستردکردیا،پی ٹی آئی جیسی قومی سیاسی جماعت پرپابندی کا شوشہ ملک
میں شورش کوہوادینے کی سازش ہے ۔جو مایوس لوگ سیاسی میدان میں جمہوری اور
سیاسی انداز سے ایک مقبول سیاسی جماعت کامقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے وہ
منافقانہ اور آمرانہ ہتھکنڈوں پراتر آتے ہیں۔ یہ نیت اور صلاحیت دونوں سے
محروم ہیں، میں سمجھتاہوں تحریک انصاف کوجس قدردیوارکے ساتھ لگایااور دبا
یا گیا یہ اس قدر ابھرتی چلی گئی ۔
ہمارے ہاں حکمرانوں کااعلانیہ مشیر کوئی اورہوتا لیکن یہ مشاورت نامعلوم
اورنقاب پوش کرداروں کے ساتھ کرتے ہیں،اس صورتحال میں ان کابندگلی سے نکلنا
ممکنات میں سے نہیں ۔آپ جس طرح جھرنوں ،دریاؤں اور سمندروں کا راستہ نہیں
روک سکتے اس طرح سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کا راستہ روکایارخ موڑا نہیں
جاسکتا۔ آمرانہ سوچ کے حامل سیاسی حکمران فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے ناکام
اوربدنام تجربات کویادرکھیں،سیاسی قیادت فوجی آمر پرویز مشرف کے پرآشوب
دورمیں مسلم لیگ (ن) میں ناکام نقب زنی کوبھی فراموش نہ کرے۔فوجی آمروں نے
اپنے اپنے دور آمریت میں سیاسی جماعتوں کا بٹوارہ اورکباڑہ کرنے کی کوشش کی
لیکن وہ اپنے مذموم ارادوں میں بری طرح ناکا م رہے لہٰذاء فوجی آمروں
کاانجام دیکھتے ہوئے ان کے دورکاکوئی بھی ناکام تجربہ دہرانے سے گریز کیا
جائے۔(ختم شد)
|