٭.... 16 مارچ 1946ءکو انگریزوں
نے معاہدہ امرتسر کے تحت ریاست جموں و کشمیر ڈوگرہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75
لاکھ نانک شاہی روپے کے عوض فروخت کر دی، گویا اسے یہ جنت نظیر وادی 155
روپے فی مربع میل میں پڑی اور فی نفر قیمت 7 روپے ٹھہری۔
٭.... 1925ءمیں ہری سنگھ کے دور اقتدار میں مسلمانوں کو بطور خاص مشق ستم
بنایا گیا۔
٭.... 1925ءمیں شیخ محمد عبداللہ نے ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے پہلی مسلم
تنظیم بنائی۔
٭.... چوہدری غلام عباس مرحوم نے کرینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن کو منظم کیا۔
٭.... 1931ءکو دیاسی میں مسجد شہید کر دی گئی۔
٭.... مسلمانوں کو کوٹلی میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔
٭.... ایک ہندو کانسٹیبل نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔
٭.... ان مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی پاداش میں مسلم رہنما
عبدالقدیر کو گرفتار کرلیا گیا۔
٭.... جس جیل میں عبدالقدیر کو رکھا گیا، اس کا محاصرہ کرنے پر 27 مسلمان
شہید کر دیے گئے۔
٭.... 25 جولائی 1931ءکو علامہ اقبال ؒ کی موجودگی میں آل انڈیا کشمیر
کمیٹی قائم کی گئی، اس اجلاس میں خواجہ حسن نظامی، اے آر ساغر، اسماعیل
غزنوی جیسی قدر آور شخصیات موجود تھیں۔
٭.... کمیٹی کا صد قادیانی رہنما مرزا بشیر الدین محمود کو بنایا گیا۔ مرزا
بشیر الدین نے اس انتخاب کو اپنی حقانیت کی دلیل کے طور پر خوب استعمال کیا
جس کے نتیجے میں کافی مسلمان قادیانی ہوگئے۔
٭.... امیر شریعت علامہ سید عطاءاللہ شاہ بخاری ؒ نے ملک کے طول و عرض کے
ہنگامی دورے کیے، قادیانی عزائم کا پردہ چاک کیا، جس کے نتیجے میں قادیانیت
قبول کرنے والے تمام لوگ دوبارہ مسلمان ہو گئے۔
٭.... علامہ محمد اقبال ؒ نے جب دیکھا کہ کشمیر کمیٹی قادیانی عزائم کیلئے
کام کر رہی ہے تو مستعفی ہو گئے۔
٭.... ڈوگرہ راج کی سخت نگرانی کے باوجود 14 اگست 1931ءکو یوم کشمیر (کشمیر
ڈے) منایا گیا۔
٭.... مجلس احرار کے قائدین نے 1931ءمیں ہری سنگھ حکومت سے افہام و تفہیم
کے ساتھ معاملات حل کرنے کیلئے مذاکرات کیے، مگر حکومت نے انکار کر دیا۔
٭.... قائدین احرار کی کال پر پنجاب سے دس ہزار سے زائد نوجوان گرفتاریاں
دینے جموں پہنچ گئے۔
٭.... میرپور میں ایک مسلمان کارکن کو سرعام ایک ڈوگرہ افسر نے قتل کر دیا۔
٭.... 30 مجاہدین نے تین دن کی انتھک محنت کے نتیجے میں دریائے جہلم پر
کوہالہ پل پر قبضہ کرکے اسے بند کر دیا جو کشمیر کے ساتھ تجارت کی واحد
شاہراہ تھی۔
٭.... گجرات اور گورداس پور کے مکینوں نے بھی تحریک کا آغاز کر دیا، تاہم
ہندوﺅں کی اکثریت کی بنا پر کامیابی نہ ہو سکی۔
٭.... مہاراجہ کی درخواست پر برطانوی حکومت بھی مجاہدین کے خلاف اس کی پشتی
بانی کرنے لگی۔
٭.... مسلمانوں نے اس قدر گرفتاریاں پیش کیں کہ جیلیں کم پڑ گئیں اور احرار
کے دفاتر کو سب جیل قرار دیا گیا۔
٭.... ان قربانیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ سربی جے گلینسی کی قیادت میں ایک
کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں مسلمانوں کی نمایندگی چوہدری غلام عباس کر رہے
تھے، کمیشن کے مقاصد میں ریاست میں بسنے والے مسلمانوں کی حالت زار کا
جائزہ لینا، ان کے حقوق کی نشاندہی اور شہداءکے کوائف وغیرہ جمع کرنا شامل
تھا۔
٭.... کمیشن کی تجویز اور انگریزوں کے پولیٹیکل ڈیپارٹمنٹ کے دباﺅ کے تحت
مہاراجہ نے 75 رکنی ایک اسمبلی قائم کی، جس میں 21 مسلمان رہنما بھی شامل
تھے۔
٭.... 1933ءمیں پتھر مسجد سری نگر میں جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کا قیام
عمل میں آیا، جس کا صدر شیخ محمد عبداللہ اور جنرل سیکریٹری چوہدری غلام
عباس کو منتخب کیا گیا۔
٭.... 1934ءمیں راشٹریہ سیوک سنکھ نے حکومتی چھتری تلے مسلمانوں کے خلاف
کارروائیاں شروع کر دیں۔
٭.... 1935ءمیں شیخ عبداللہ مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔
٭.... عوام اپنے قائدین شیخ عبداللہ، چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر کی
قیادت میں منظم ہونے لگے۔
٭.... 1939ءمیں گاندھی اور جواہر لال نہرو کی کوششیں، نیز نگاہوں کو خیرہ
کرنے والی حکومتی مراعات کی پیشکش رنگ لائی اور مسلمانوں کے چوٹی کے رہنما
شیخ عبداللہ نے وفاداریاں تبدیل کر لیں اور مسلم کانفرنس کے خلاف کشمیر
نیشنل پارٹی، جو درحقیقت کانگریس کی بی ٹیم تھی، کی داغ بیل ڈال دی۔
٭.... مسلم کانفرنس چوہدری غلام عباس کی قیادت میں جانب منزل گامزن رہی اور
تمام تر سازشوں کے باوجود 1945ءکے انتخابات میں 80 فیصد نشستیں حاصل کرنے
میں کامیاب ہو گئی۔
٭.... ڈوگرہ راج نے اس صورت حال سے بدحواس ہو کر مسلم کانفرنس پر پابندی
لگا دی۔
٭.... 1946ءکو منظور ہونے والے تقسیم ہند کے فارمولے میں جن 562 ریاستوں کو
یہ حق دیا گیا کہ وہ پاکستان یا ہندوستان میں سے جس ملک سے چاہیں الحاق کر
لیں، ان میں خطہ کشمیر بھی شامل تھا۔ جموں میں 80 فیصد مسلمان بستے تھے اور
سب کی اولین خواہش یہی تھی کہ وہ پاکستان کا حصہ بنیں۔ پونچھ میں 95 فیصد
مسلمان بستے تھے اور ان سب کی اولین خواہش تھی کہ یہی وہ پاکستان کا حصہ
بنیں۔
٭.... جموں کے مسلمانوں کا قتل عام کرکے انہیں شہید کر دیا گیا۔
٭.... پونچھ کے مسلمانوں نے سردار محمد عبدالقیوم کی قیادت میں مزاحمت کی
اور افواج کو عبرت ناک شکست دی۔ کیپٹن فیروز خان اور میجر نصراللہ جیسے شیر
دل کمانڈروں کی سرکردگی میں لڑے جانے والے ان معرکوں کے نتیجے میں بھمبر،
میرپور، مینڈھیر، راجوری اور نوشہرہ کو بھی آزادی حاصل ہو گئی۔
٭.... ادھر پاکستانی قبائل میں ڈوگرہ راج کے خلاف بھڑکنے والی آتش انتقام
نے اپنا کام دکھا دیا اور 4 اکتوبر 1947ءمیں ہزاروں وزیر، محسود اور آفریدی
قبائل بٹراسی کے جنگلات میں جمع ہو گئے اور 20 اکتوبر کی شب مجاہدین نے
میجر خورشید انور اور خوش دل خان کی کمان میں پیش قدمی کا آغاز کیا اور
کوہالہ، دومیل اور مظفرآباد کو فتح کرتے ہوئے بارہ مولا اور سری نگر تک
پہنچ گئے۔
٭.... 24 اکتوبر کو مجاہدین نے سری نگر سے 35 میل پہلے مہورہ کا پاور ہاﺅس
اڑا دیا، جس سے پورا شہر تاریکی میں ڈوب گیا۔
٭.... خطہ کشمیر آزادی سے محض چند گھنٹوں کے فاصلے پر تھا اور سری نگر
ائیرپورٹ پر قبضے کی گھڑی قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک کایا
پلٹ گئی۔
٭.... تاریکی کا فائدہ اٹھا کر مہاراجہ جموں کی طرف فرار ہوگیا اور یہاں
پہنچ کربھارت سے مدد کا خواستگار ہوا۔
٭.... بھارت نے امداد کواس شرط کے ساتھ مقید کر دیا، کہ راجہ جموں و کشمیر
کا الحاق بھارت کے ساتھ کر دے اور بزدل راجہ نے الحاق کی دستاویز پر دستخط
کردیے۔
٭.... بھارت نے یکایک حملے شروع کر دیے اور مجاہدین کو ان کے باہمی افتراق
کی بدولت پسپا کر دیا۔
یوں ریاست جموں و کشمیر پاکستان کی گود میں آتے آتے بھارت کے غاصبانہ قبضے
میں چلی گئی، وہ دن ہے اور آج کا دن، مسلمان لاکھوں کی تعداد میں قربانی
دینے کے باوجود آزادی حاصل نہیں کر سکے۔
٭.... ہر چند کہ اس مسئلے پر ہر سطح پر مذاکرات اور معاہدے ہوئے مگر بھارت
ٹس سے مس نہیں اور اس نے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ، جورو جبر اور تشدد و
فرعونیت کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
٭.... یہ ایک یقینی امر ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق کبھی بھی مذاکرات کی
تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کیا جائے گا، اگر ایسا ہوتا تو اب تک یہ حق دیا
جا چکا ہوتا۔ آئیے مذاکرات اور معاہدوں پر ایک سرسری سی نظر ڈالتے ہیں:
٭.... مارچ 1949ءمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل کرتے
ہوئے پاکستان نے افواج کے انخلا کا پروگرام پیش کیا، مگر بھارت نے صاف
انکار کر دیا۔
٭.... اگست 1949ءمیں ایڈمرل نمسٹر کی ثالثی اور فوجوں کے انخلا کا فیصلہ
پاکستان نے تسلیم کیا، مگر بھارت نے اسے مسترد کر دیا۔
٭.... دسمبر 1949ءمیں سلامتی کونسل کی تجاویز کو پاکستان نے منظور اور
بھارت نے مسترد کر دیا۔
٭.... 1951ءسے 1958ءتک ڈاکٹر گراہم کے پیش کردہ فارمولوں کوپاکستان منظور
اور بھارت مسترد کرتا رہا۔
٭.... 1947ءسے لے کر 1965ءتک یہ مسئلہ 132 مرتبہ زیر بحث لایاگیا مگر نتیجہ
وہی ڈھاک کے تین پات۔
٭.... اب بھی صورت حال جوں کی توں ہے، لہٰذا ان حقائق کے پیش نظر یہ دعویٰ
بے محل نہیں کہ کشمیر مذاکرات اور معاہدوں سے نہیں، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ
سے آزاد ہوگا۔
٭....٭....٭ |