آج سے دس سال قبل جب امریکہ ٹوئن
ٹاورز کے انہدام کے بعد پھنکارتا ہوا افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا تو ایسے
میں اسے افغانستان میں یقینی کامیابی کیلئے ایک ایسے مخبر اور اتحادی کی
ضرورت تھی جو طالبان کی جڑوں تک سے واقف ہو اور اس کیلئے بلاشبہ پاکستان ہی
بہترین انتخاب تھا جس کو مسئلہ کشمیر کے حل،مضبوط اکانومی،ایٹمی پروگرام کی
سکیورٹی جیسے سہانے خواب دکھا ئے گئے بصورتِ دیگر پتھر کے دور میں جانے
کیلئے تیار رہنے کی دھمکی دی گئی جس پر بزدِل کمانڈو پرویزمشرف نے پہلے
راستے کا انتخاب کیا اور قوم کو یہ نوید سنائی کہ اس کا یہ اقدام سب سے
پہلے پاکستان کی پالیسی کا آئینہ دار ہے اور اس درست فیصلے کے پاکستان پر
گہرے اور دُوررس اثرات مرتب ہوں گے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ آج دس برس کے بعد
جب کہ ہم 37ہزار جانیں قربان اور 68ارب ڈالر کا کثیر سرمایہ اس کروسیڈ وار
میں جھونک چکے ہیں ہماری معیشت نزاعی ہچکیاں لے رہی ہے ،ایٹمی پروگرام پر
انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں ،مسئلہ کشمیر سردخانے میں جاچکا ہے اور پوراملک
بدامنی کی بھٹی میں جل رہا ہے ایسے میں وہی امریکہ ہم سے ایک بار پھر
وفاداری کا ثبوت حقانی نیٹ ورک کےخلاف کاروائی کے ذریعے مانگ رہا ہے ۔کون
نہیں جانتا کہ امریکہ کی ترجیحات ہمیشہ اُس کے مفادات کے تابع رہتی ہیں جب
تک کوئی شخصیت ،ادارہ یا ملک امریکی مفادات کا محافظ رہتا ہے اس وقت تک وہ
امریکا کی آنکھ کا تارا رہتا ہے ،کنٹرولڈ صیہونی میڈیا اسے ایک ہیرو بنا کر
پیش کرتا ہے وائٹ ہاؤس میں اس کیلئے دعوتوں کا انتظام کیا جاتا ہے بلکہ
انہیں ایوارڈزتک سے بھی نوازا جاتا ہے۔لیکن جب انہی میں سے کوئی امریکی
برزجمہروں کی منشا کے ذرا خلاف ہوتا ہے امریکہ اسی بے چارے محرم کو مجرم
بنانے میں ذرا بھر کیلئے بھی تامل سے کام نہیں لیتا ۔جلال الدین حقانی
حقانی بھی انہی کرداروں میں سے ایک ہے کہ جب افغانستان میں امریکہ اپنی
بالادستی اور بقا کی جنگ لڑرہا تھا اسے اپنے مدمقابل سُرخ ریچھ کو بچھاڑنے
کیلئے ''جہادیوں''کی اشد ضرورت تھی ایسے میں جن مجاہدین نے اپنی جانوں کو
ہتھیلی پر رکھ کر روس کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا جلال الدین حقانی بھی انہی
سرفروشوں میں سے ایک ہیں اور یہ وہی جلال الدین حقانی ہیں جن کیلئے امریکی
صدرریگن نے وائٹ ہاؤس کے دروازے ہروقت کھول رکھے تھے لیکن اب جب کہ وہی
افغانستان خود امریکیوں کیلئے قبرستان کا رُوپ دھار چکا ہے ایسے میں امریکی
آئی کونز اوبامہ کو کچھ اس طرح کے کام کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔
**امریکہ و افغانستان کی جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیل دیا جائے اسی لئے
امریکہ نے پاکستانی آئی ایس آئی پر حقانی نیٹ ورک کی سرپرستی کا سنگین
الزام عائد کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تا کہ پاکستان عالمی دباؤ کے پیش نظر
حقانی نیٹ ورک سے ٹکرا جائے اس سے نقصان طرفین میں جس کا بھی ہو فائدہ براہِ
راست امریکہ کا ہوگا کہ حقانی نیٹ ورک کی کامیابی کی صورت میں پاکستانی فوج
کا امیج خراب ہوگا اور پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کے پروپیگنڈے کو مزید
تقویت ملے گی اور حقانی نیٹ ورک کی ناکامی کی صورت میں اسے ایک طاقتور دشمن
سے نجات مل جائے گی۔
**امریکہ افغانستان کی جنگ میں بے پناہ سرمایہ جھونک چکا ہے جس نے امریکی
معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اس
لئے امریکی ماہرینِ معاشیات اوبامہ کو اس جنگ کے فوری خاتمے کا مشورہ دے
رہے ہیں چنانچہ اوبامہ اس جنگ کے خاتمے کا اعلان کرکے امریکہ کی ایک بڑی
کمیونٹی کے مطالبے کو پورا کرے گا۔
**امریکہ میں الیکشن قریب ہیں اور اوبامہ کی مقبولیت انتہائی کم سطح پر
آچکی ہے جس میں اضافے کیلئے ہمیشہ کی طرح پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا
جا سکتا ہے اور یہی کیا جا رہا ہے ۔
ایسے کڑے وقت میں حکومت کی طرف سے اے پی سی کی کال بے شک ایک احسن اقدام
تھا لیکن قوم کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب اے پی سی کے اعلا
مئے میں امریکہ سے براہِ راست مخاطب ہو کر اسے ایک غیرت مندانہ اور
خودمختار قوم کی عکاسی کرتا طاقتور بیان دینے کی بجائے ایک رسمی سی
statementجاری کردی گئی۔اور یہی وجہ ہے کہ اس بے جان اے پی سی کوایک روز
بعد ہی امریکہ نے ڈرون حملہ کرکے ہوا میں اڑا دیا۔ اخصوصاََ میاں نواز شریف
کی یہ بات تو سراسر ملکی مفاد کے خلاف جاتی ہے کہ'' دال میں کچھ تو کالا ہے
جو ساری دنیا ہم پر انگلیاں اٹھا رہی ہے ''کیا میاں صاحب کو یہ نہیں پتا کہ
عراق پر حملے کیلئے کس طرح نیوکلیئرہتھیاروں کا شوشہ چھوڑا گیا اور کس طرح
القائدہ کو ورلڈٹریڈسنٹر کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے کر افغانستان کی اینٹ
سے اینٹ بجا دی گئی ۔حیرت کی بات ہے کہ میاں نوازشریف جیسے سیاستدان اس
حقیقت سے بے خبر ہیں کہ امریکہ کسی ملک پرحملے کیلئے حقائق نہیں ہمیشہ
پروپیگنڈے کا سہارا لیتا ہے اور عراق و افغانستان پر حملے سے قبل بھی
امریکہ نے اسی قسم کا پروپیگنڈہ کیا تھا جیساکہ وہ اب پاکستان کے خلاف
کررہا ہے ۔دوسری جانب ہمارے صدر صاحب نے معنی خیز خاموشی اختیار کررکھی ہے
اور وزیرِاعظم اس ''امیند''سے قوم کا دِل بہلا رہے ہیں کہ '' امریکہ مان
گیاہے کہ وہ پاکستان کے خلاف زمینی کاروائی نہیں کرےگا''اب ضرورت اس بات کی
ہے کہ ہم امریکی چھتری سے نکل کراورتمام تر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے
ہوئے صرف اور صرف ملکی سلامتی و مفاد کو اولیت دیں کہ یہ ہے تو ہم سب بھی
ہیں ورنہ اگر ہم اب بھی نہ سمجھے تو خدا نخواستہ بہت دیر ہو جائے گی۔ |