مغرب کی حکومتوں کو اپنے عوام کے ترلے منتے نہیں کرتی بجلی بچایئے اپنے لئے قوم کیلئے

مغربی ممالک میں ایل ای ڈی بلب ایجاد ہوئے جو کہ عام بلب کے مقابلے میں بہت کم بجلی استعمال کرتے تھے، وہاں کی حکومتوں کو اپنے عوام کے ترلے منت نہیں کرنا پڑی کہ بجلی بچایئے، اپنے لئے، قوم کیلئے ۔ ۔ ۔ وہاں کی عوام کو اندازہ تھا کہ بجلی کنڈا یا لائن مین کو رشوت دے کر مفت میں حاصل نہیں کی جاتی بلکہ اس کیلئے اپنی کمائی سے بل دینا پڑتے ہیں ۔ ۔ ۔ چنانچہ جونہی ایل ای ڈیل بلب مارکیٹوں میں دستیاب ہوئے، آناً فاناً وہاں کے لوگوں نے اپنے گھروں کے روائتی بلب اتار کر ان کی جگہ ایل ای ڈی بلب لگا دیئے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ہر گھر میں بلب کا خرچہ کئی گنا کم ہوگیا ۔ ۔ ۔ جو بجلی بچی، اسے اپنی زندگی میں مزید آسانی کیلئے استعمال کیا جانے لگا ۔ ۔ اور مزید الیکٹرک ایجادات وجود میں آنا شروع ہوگئیں۔

ہم بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ واپڈا والے ہر سال کروڑوں کےا شتہار چھاپتے ہیں جن میں عوام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ بجلی کا استعمال کم سے کم کریں لیکن مجال ہے کہ عوام نے کبھی اس پر کان دھرا ہو ۔ ۔ پھر یوں ہوا کہ بجلی ہماری ضرورت سے کم پڑگئی اور پھر ہم لوڈشیڈنگ کے مستقل عذاب کا شکار ہوگئے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ زمین سے نکلنے والے تیل کا سب سے زیادہ استعمال ٹرانسپورٹیشن سیکٹر میں ہوتا ہے۔ دنیا میں موجود دو ارب سے زائد گاڑیاں اور انجن پٹرول یا ڈیزل سے چلتے ہیں۔ مغرب میں کئی سال قبل متبادل توانائی پر کام شروع ہوا۔پھر چند سال قبل پہلی مکمل الیکٹرک کار لانچ کردی گئی جس کی قیمت غالباً 70 ہزار ڈالر سے بھی زائد تھی۔ یہ گاڑی مکمل طور پر بیٹری سے چلتی تھی اور نہ تو پٹرول استعمال کرتی تھی اور نہ ہی ماحولیات پر منفی اثرات مرتب کرتی تھی۔

اس پر مزید تحقیق جاری رکھی گئی اور آج میں یہ خبر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہونڈا کمپنی کی ایک نئی الیکٹرک کار صرف 20 ہزار ڈالرز میں دستیاب ہے۔آثار لگ رہے ہیں کہ آئیندہ چند برسوں میں تمام گاڑیاں بجلی سے چلنا شروع ہوجائیں گے اور یہ وہ وقت ہوگا جب سعودی عرب والے اپنے تیل کے کنستر لے کر جگہ جگہ پھرا کریں گے اور کوئی خریدار نہ ہوگا۔

قدرت کا اصول ہے کہ جب آپ کسی چیز کی قدر نہیں کرتے تو پھر وہ آپ سے چھین لی جاتی ہے۔ عربوں نے تیل کی دولت کو عیاشی کیلئے استعمال کیا، عنقریب یہ ان سے چھین لی جائے گی۔

آجکل کراچی میں مکھیوں اور گندگی کا بہت شور ہے۔ پاکستان کے ہر شہر میں کارپوریشن کے صفائی کے ملازم موجود ہیں جنہیں سالانہ اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں ملتے ہیں لیکن گندگی پھر بھی ختم نہیں ہوتی۔ دوسری طرف مغربی ممالک میں خاکروب کی نوکری تقریباً ناپید ہوچکی ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ اگر سرکاری ملازمین سے صفائی کروائی تو حکومت مزید پراپرٹی ٹیکس لگا کر یہ رقم وصول کرے گی ، چنانچہ وہاں کے عوام صفائی کا خود ہی خیال رکھتے ہیں۔ مجال ہے کوئی شخص چپس کھا کر لفافہ سڑک پر پھینک دے، یا جگہ جگہ پان کی پیک پھینکتا پھرے۔

یہ رویہ آپ کو عمران خان، نوازشریف یا زرداری نہیں سکھا سکتے، یہ رویئے ہمیں خود اپنانے ہوں گے۔ صفائی چاہیئے تو صفائی رکھیں۔ پاکستان جیسا غریب ملک یہ افورڈ نہیں کرسکتا کہ دن میں تین مرتبہ خاکروب بھیج کر آپ کا کوڑا اٹھایا جائے۔

ایک طرف تو دعوے یہ کہ ہم سب عاشق رسول ﷺ ہیں، دوسری طرف صفائی نصف ایمان والی حدیث کو ہم نے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ عجیب منافقت ہے ۔ ۔ ۔ اور اوپر سے یہ زعم کہ ساری امت کو قیادت ہم فراہم کریں گے۔

امت نہ ہوئی، ؟؟؟؟؟ ہوگئی جسے کوئی بھی ڈنڈے سے اپنی طرف لگا سکتا ہے!!!ا
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191830 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.