منصورِ حقیقت سرِدار

منصورِ حقیقت سرِدار (پروفیسر مظہر) سرگوشیاں
ربِ لازوال کی ہر نعمت سے مالامال یہ ارضِ پاک جہاں ایک طرف برف پوش چوٹیاں جن کے دامن میں پربتوں کی شہزادیاں تو دوسری طرف شبنم کے موتیوں سے لدی مخملیں گھاس کی اُٹھان اور موتی بکھیرتے کھلیان۔ ایک طرف لق ودَق صحرا تو دوسری طرف شبنمی لہجوں میں مُرغانِ چمن کی صدا۔ صحنِ چمن کی معطر فضاؤں میں نغمہ سرا مست طیور۔ پانچ دریاؤں کی سونا اُگتی دھرتی جس میں تہ درتہ چھُپے خزانے اور سب سے بڑھ کر سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کی حامل یہ ارضِ پاک۔ رَبِ لَم یزل کا تحفہ جس کی ہم نے قدر نہ کی اور اب یہ عالم کہ مایوسیوں اور محرومیوں کی صدائے جَرس یہ پیغام دیتی ہوئی
کہو خزاں سے رہے مطمئن نہ گھبرائے
کہ میرے باغ میں اندیشہئ بہار نہیں

مایوسی کفر ہے مگر پھر بھی اندیشہ زوال روح کی گہرائیوں تک اُٹرتا ہوا۔ جہاں حسدورقابت کے جھلستے باسی دھرتی ماں کو دشتِ ظلمت کے گھور اندھیروں میں گُم کرنے کے دَرپے ہوں وہاں حیات جرم اور زندگی وبال بن جاتی ہے۔ جہاں زہر اور قند میں تفریق ختم ہوجائے اور تاویلِ مسائل کابہانہ بناکر قوم کا استحصال کرنے والے خلقِ خُدا کی گھات میں ہوں وہاں سفینہ موجِ حوادث سے کیوں کر بچے۔ جہاں مردانِ خرد مند مفقود یاخاموش اور منصورِ حقیقت سرِدار وہاں مایوسیوں کی سیاہ رات نویدِصبح کیسے دے۔ جہاں عدل کے اونچے ایوان اور سیاستدان متحارب، اپنا اپنا میمنہ ومیسرہ درست کرتے نظر آئیں اور صحافت کھنکتے سکوں کی جھنکار میں تُل جائے وہاں کوئی زنجیرِعدل کہاں سے لائے۔

لرزاں وترساں سوچوں کامحور یہی کہ کہیں یہ دَورِ ابتلاء دینِ مبیں سے دوری کی وجہ سے تو نہیں کیونکہ ہم نے تواپنے رَب سے زمین کاٹکڑا اِس عہد کے ساتھ حاصل کیا تھاکہ ہم اسے اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ یہ وعدہ 77سال گزرنے کے باوجود آج بھی تشنہئ تکمیل۔ قائدِاعظمؒ کی سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر جولائی 1948ء کو کی گئی تقریر آج بھی اپنے اصل الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے جس کے مطابق ایک ایسی مملکت کی تشکیل کاعزم جس میں آزادی کی حدود قُرآن کے متعین کردہ اصولوں کے مطابق اور قُرآن کے منافی کسی بھی قانون کی ممانعت لیکن ہم نے کبھی بھی اِن اصولوں کی پیروی نہیں کی۔ شائد اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سانحہئ مشرقی پاکستان کی صورت میں جھٹکا دیاکہ شاید سنبھل جائیں لیکن عبث۔ اِس سانحے کے بعد بھارتی وزیرِاعظم اندراگاندھی نے کہا ”ہم نے دوقومی نظریے کوخلیجِ بنگال میں ڈبو دیا“۔ اندراگاندھی کے اس بیان پر لبرلز کی آنکھوں کی چمک دوچند ہوگئی اور اُنہوں نے دوقومی نظریے کے خلاف زہر اُگلنا شروع کردیا۔ یہ مگر اُن کی کج فہمی اور کوتاہ نظری تھی کیونکہ قُرآنِ مجید میں قوم کی جگہ وسیع تر معنی ومفاہیم رکھنے والے الفاظ ”حزب اور اُمت بیان کیے گئے ہیں“۔ وجہ یہ کہ قوم تو رنگ، نسل اور جغرافیائی حدود کی بنیاد پر بھی تشکیل پاسکتی ہے جبکہ بقول اقبالؒ ”خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی“۔ حضرتِ اقبالؒ نے لفظ ”قوم“ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ”قُرآنِ کریم میں مسلمانوں کے لیے ”اُمت“ کے سوا کوئی لفظ نہیں آیا۔ ”قوم“ رجال کی جماعت کانام ہے۔ یہ جماعت بہ اعتبار قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاق ہرجگہ اور ہررنگ میں پیدا ہوسکتی ہے لیکن ملت سب جماعتوں کو تراش کر ایک نیااور مشترک گروہ بنائے گی۔ گویاملت یا اُمت جاذب ہے اقوام کی خود اِس میں جذب نہیں ہوتی“۔ قُرآنِ مجیدنے حزب اللہ اور حزب الشیطان کی واضح تقسیم فرمادی ہے۔ فرمایا ”شیطان اُن پر غالب آگیا اور اُس نے اُنہیں خُدا سے غافل کردیا۔ وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں اور یاد رکھو شیطان کی پارٹی آخرکار نامراد رہنے والی ہے“ (المجادلہ آیت 19)۔ دوسری طرف لوگ رنگ ونسل اور لسان ووطن میں خواہ کتنی ہی مختلف کیو ں نہ ہوں اور اُن کے درمیان کتنی عداوتیں ہوں، جب وہ اللہ کے بتائے ہوئے مسلکِ حیات میں متفق ہوگئے تو گویا حزبِ شیطان سے کٹ کر نئی جماعت میں داخل ہوگئے۔ پارٹی کایہ اختلاف بیٹے سے باپ کی وراثت کاحق چھین لیتا ہے اور بیوی کو شوہر سے جُدا کردیتا ہے۔ ارشاد ہوا ”نہ وہ اُن کے لیے حلال نہ یہ اِن کے لیے حلال“ (الممتحنہ آیت 10)۔ اِسی سورۃ مبارکہ کی آیت 4 کے مطابق حضرت ابراہیم نے اپنے والد کوکہا کہ وہ اُس کی مغفرت کی دُعا ضرور کریں گے لیکن سورۃ التوبہ آیت 114میں ارشاد ہوا ”ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دُعا کرنا محض اِس وعدے کی بناپر تھا جو وہ اُس سے کرچکا تھا۔مگر جب اُس پر کھُل گیا کہ اُس کاباپ خدا کا دشمن ہے تووہ اس سے دستبردار ہوگیا۔ سورۃ المجازلہ کی آیت 22میں ارشاد ہوا ”تم ایسا ہرگز نہ پاؤگے کہ کوئی جماعت اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اُس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی بھی رکھے“۔ اِس صراحت کے بعد شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں بچتی کہ حزب اللہ کا حزب الشیطان سے کوئی تعلق کوئی واسطہ اور کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا۔ یہی فرق ہے قومِ مسلم اور دیگر اقوام کے درمیان اور دوقومی نظریہ بھی یہی ہے۔ اندراگاندھی کے بقول یہ نظریہ خلیجِ بنگال میں ڈوبا نہیں کیونکہ بنگلہ دیش اسلامی مملکت ہے اور مسلمان جہاں بھی بستاہے ہمارا بھائی ہے۔یہی نظریہ محترم جاوید احمد غامدی کابھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ”قُرآن کی روسے مسلمان وہ دسیوں ریاستوں اور بیسیوں ممالک میں تقسیم ہونے کے باوجود ایمان کے رشتے سے ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ مسلمانوں سے یہ تقاضہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی قومی ریاستوں اور قومی شناخت سے دست بردار ہوکر لازماََ ایک ہی قوم اور ایک ہی ریاست بن جائیں“۔ حقیقت یہی کہ دوقومی نظریے کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان اپنی اپنی قومی شناخت چھوڑکر ایک ہی ریاست میں اکٹھے ہو جائیں۔ مولانا مودودیؒ کا نکتہئ نظر بھی یہی ہے۔ فرمایا ”اسلامی قومیت کی بنیاد نسل اور وطن کی بجائے اعتقادوعمل پر رکھی گئی ہے“۔ اِس لیے ایک ملک کے مسلمان اور دوسرے ملک کے مسلمان میں جغرافیائی یا نسلی تفریق کی کوئی وجہ نہیں“۔

قرآنِ مجید کی سورۃ العمران آیت 10 اور سورۃ البقرہ کی آیت 143 کے مطابق قوم کے لیے دوسرا لفظ اُمت استعمال کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو بہترین اُمت قرار دیتے ہوئے اُنہیں ”اُمتِ وسط“ اور اقوامِ عالم پر نگران مقرر کیا ہے۔ گویا مسلمان ایک بین الاقوامی جماعت کانام ہے جو ایک خاص اصول کو ماننے، ایک خاص پروگرام پرعمل کرنے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کو تیار ہوں۔ یہ لوگ چونکہ ہرقوم میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں اِس لیے ایک پارٹی بن جانے کے بعد کسی قوم سے اِن کا تعلق نہیں رہا۔ اِسی لیے یہ اُمتِ اوسط یا بیچ کی اُمت ہے جنہیں ایک عالمگیر مشن کے تحت نوعِ انسانی پر نگران مقرر کیا گیا ہے۔ اب اپنے مَن میں جھانک کر خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کیا ہم نے اِس مشن کی تکمیل کے لیے کوشش کی؟۔ اگر جواب نفی میں ہو تو سمجھ لیجئے کہ صرف پاکستان ہی نہیں پورے عالمِ اسلام کی دگرگوں حالت محض اِس لیے ہے کہ ہم صرف نام نہاد مسلمان ہی ہیں۔


 

Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 888 Articles with 625051 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More