’ایک ملک ایک انتخاب‘ : نیا جال لائے پرانے کھلاڑی

ملک فی الحال بیروزگاری کے ایسی سنگین صورتحال سے گزر رہا ہے کہ نوجوان جنگ زدہ اسرائیل اور روس ویوکرین کی سرحد پر جاکر جان جوکھم میں ڈال رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم کی سالگرہ کو ’بیروزگاردن ‘ کے طور منانے کی نوبت آگئی ہے۔ خواتین کے عدم تحفظ کی یہ عالم ہے کہ نئی مودی سرکار پہلے 100دنوں میں 105 شکایتیں پولیس ریکارڈ میں آئیں جو نہیں آسکیں ان کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ فوجیوں کے اعزہ و اقارب تک محفوظ نہیں ہیں ۔ ڈبل انجن سرکار میں ان کی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کو سزا دینے کے بجائے پولیس بھی شریک ِ کار ہوجاتی ہے۔ امریکہ کی ایک عدالت نے ملک کے قومی حفاظتی مشیر اجیت ڈوبھال کے نام سمن بھیج کر مودی جی کی لال آنکھوں میں مرچی ڈال دی ہے ۔ سیاست کا معیار اس قدر گر گیا ہے حزب اختلاف کے رہنما کوحکمراں پارٹی کے سرکردہ لوگ دہشت گرد کہہ کر گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں اور وزیر داخلہ اس کی بالواسطہ توثیق کرتے ہیں نیزایک رکن اسمبلی زبان کاٹنے والے کے لیے ۱۱؍ لاکھ کے انعام کا اعلان کردیتا ہے۔

مذکورہ بالا ناکامیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر وقف بل لایا مگر اس کو جے پی سی کے حوالے کرنا پڑا۔ براڈکاسٹنگ بل کا مسودہ واپس لینے کی نوبت آگئی۔ وراثت کی جائیداد پر لوٹ کا ٹیکس لگانے کی کوشش ناکام ہوگئی اور اسے بجٹ سے ہٹانا پڑا۔ لیٹرل انٹری یعنی چور دروازے کی ملازمتوں کا اشتہار واپس لینے کے بعد ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے لیے بادلِ ناخواستہ راضی ہونا پڑا۔ ایسے میں یکساں سِول کوڈ لانے کی تو ہمت نہیں ہے کیونکہ اس سے نتیش کمار اور چندرا بابو کی بیساکھیاں چرمرا جائیں گی ۔ اس لیے اپنے اندھے بھگتوں کی ناز برداری کے لیے ’ون نیشن ون الیکشن ‘ کا شوشا چھوڑ دیا گیا تاکہ انہیں محسوس ہو ان کی سرکار کچھ تو کررہی ہے ۔ویسے ون نیشن ون الیکشن کی حماقت کو نافذ کرنے کے لیے بھی آئین میں ترمیم لازمی ہے اور اس کے دوتہائی ارکان پارلیمان کی حمایت درکار ہے۔ ایک زمانے میں ایوانِ زیریں کے اندر بی جے پی کے اپنے 303؍ارکان تھے۔ ان میں متحدہ قومی محاذ کو لوگوں کو ملا دیا جائے تو یہ تعداد 365 ہوجاتی تھی ۔ اس کے باوجود جو کمی رہ جائے اس کو پورا کرنے کے لیے کے سی آر اور نوین پٹنائک جیسے لوگوں کی باہر سے حمایت مل جاتی تھی ۔

2024 انتخاب کے دوران اقتدار کی ہوس میں بی جے پی نے کے سی آر اور نوین پٹنایک کو نہایت کمزور کرکے اپنا دشمن بنا لیا ۔ بی جے پی خود 224 پر آگئی ۔ این ڈی اے کا تقریباً صفایا ہوگیا اور سرکار چندرا بابو نائیڈو و نتیش کمار کی بیساکھیوں پر آگئی ۔ اس صورتحال میں یہ کوئی نہیں جانتا کہ آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت کہاں سے آئے گی ؟ ون نیشن ون الیکشن کے تناظر میں اس حکومت کی حالت یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے گجرات اور ہماچل پردیش کے الیکشن ساتھ میں ہوتے تھے لیکن مودی سرکار نے ان کاا نعقاد ساتھ میں لمبا وقفہ ڈال دیا اس کے باوجود ہماچل ہار گئے۔ اسی طرح ہریانہ اور مہاراشٹر کا الیکشن ایک ساتھ ہوتا تھا یہ لوگ اس بار وہ بھی نہیں کراسکے حالانکہ جھارکھنڈ اور دہلی کا الیکشن بھی ساتھ میں کروا دینا چاہیے تھا کیونکہ کیجریوال اس کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن اس کی ہمت نہیں ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہاتھی جیسے عزائم کا اعلان کرنے والوں کا حوصلہ چیونٹیوں جیسا ہے لیکن انسان کو بھگوان سمجھنے والے بھولے بھالے بھگتوں کو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں گی ۔

انگریزی میں کہا جاتا ہے feel good یعنی اچھا لگنا۔ اس کا مطلب اچھا ہونا نہیں ہوتا مثلاً کوئی درد سے تڑپ رہا ہو تو اسے pain killer دے دیا جائے یعنی جس مرض کے سبب پریشانی ہے اس کو نظر انداز کرکے علامت کو کچل دیا جائے۔ اس سے عارضی طور پر تومریض کو ’اچھا لگتا‘ ہے مگر بعد میں جب دوائی کا اثر ختم ہوجائے تو پھر سے درد مٹانے والی دوائی کی نئی خوراک دینی پڑتی ہے۔ مریض کا اگر پرانی دوائی (مثلاً رام مندر )کے اوپر سے اعتماد اٹھ جائے تو کسی اور نام سے وہی دوا دے کر اسے بہلا پھسلایا جاتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لوگ بہت دور کی تو نہیں سوچتے مگر کچھ دور کی ضرور سوچتے ہیں۔ ہریانہ اور جموں کشمیر کے اندر انہیں اپنی شکست دکھائی دے رہی ہے اور قوی امکان ہے کہ وہ ہلکا سا جھٹکا بہت زور سے لگے گا اس لیے جس وقت وہاں کے نتائج آئیں گے سارا میڈیا ’ ون نیشن ون الیکشن‘ کی بحث میں ملوث ہوگا ۔ قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جائےگی کہ حزب اختلاف کی تم تر مخالفت کے باوجود مودی سرکار نے اسے زیر کرکےملک کے عوام پر بہت بڑا احسان کردیا۔ اس لیے کم ازکم مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بی جے پی کو کامیاب کردیا جائے۔ اس فیل گڈ کے بغیر ان دونوں ریاستوں کے بعد دہلی و بہار میں الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے۔

ون نیشن ون الیکشن میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر درمیان میں کوئی حکومت ایوان کے ارکان کا اعتماد کھو دے تو کیا ہوگا؟ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایسی صورت میں باقی مدت کے لیے انتخاب ہوگا ۔ ویسے تو اس قانون کے نفاذ کی خاطر 2029کا سال طے کیا گیا ہے یعنی اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا مگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اگر یہ قانون آئندہ سرمائی اجلاس میں منظور ہوکر نافذ ہوجائے اور اس کے بعد چندرا بابو نائیڈو یا نتیش کمار اپنی حمایت واپس لے کر سرکار گرادیں تو پھر انتخابات کرانے پڑیں گے۔ اس کے بعد جو حکومت بنے گی اس کی مدت کار میں سے یہ وقفہ کم کردیا جائے گا ۔ ایوان اسمبلی میں بھی یہی ہوگا کہ اگر ممتا بنرجی کی حکومت کو مرکزی حکومت برخواست کرکے وہاں صدر راج نافذ کردے تو وہاں پھر سے انتخاب کرانے ہوں گے اور 2029میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد کرنا پڑے گا ۔ اس طرح خرچ کم نہیں ہوگا بلکہ دوگنا ہوجائے گا ۔ اس لیے خرچ بچانے والی دلیل تو بالکل مضحکہ خیز ہے۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ سب سے زیادہ ارکان اسمبلی و پارلیمان کی خریدو فروخت اور سرکاروں کو بنانے بگاڑنے کی سازشیں کرنے کا سہرا امیت شاہ کے سر پر سجا ہوا ہے ۔

ایک ملک ایک انتخاب کے حوالے سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے حفاظتی دستوں پر دباو پڑتا ہے یعنی انہیں مختلف مقامات پرایک سے زیادہ بار تعینات کرنا پڑتا ہے ، ویسے بلدیاتی انتخاب میں مرکزی فورس کو زحمت نہیں دی جاتی جہاں تک مقامی پولیس کا سوال ہے وہ تو اپنے علاقہ میں ہی رہتی ہے ۔ اس بابت یہ پہلو قابلِ توجہ ہے کہ اس کام کے لیے نئی بھرتی نہیں کرنی پڑتی بلکہ جو لوگ اپنے بیرک میں آرام فرما رہے ہوتے ہیں ان کو باہر نکال کر ملک کے مختلف علاقوں میں بھیجا جاتا ہے ۔ یعنی اپنی چھاونی میں بیٹھے بیٹھے اکتا جانے والوں کو سرکاری خرچ پر سیر سپاٹے کا موقع مل جاتا ہے۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ضابطۂ اخلاق نافذ ہوجاتا ہے اور حکومتوں کی منصوبہ بندی کے فیصلوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے ترقیاتی کاموں کی رفتار رک جاتی ہے ۔ کوڈ آف کنڈکٹ کے حوالے سے یہ ایک فریبی دعویٰ ہے۔ ضابطہ اخلاق پہلے سےجاری و ساری ترقیاتی کاموں میں کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔ اسمبلی انتخاب کے وقت اس کا اطلاق پورے ملک نہیں ہوتا۔

فی الحال ہریانہ اور جموں کشمیر میں ضابطۂ اخلاق نافذ ہے اور مرکزی حکومت نہ صرف کروڈوں کے پروجیکٹس بلکہ آئینی ترمیم کا اعلان بھی کررہی ہے۔ضابطۂ اخلاق متاثرہ صوبے میں نئے منصوبے کے اعلان پر روک لگاتا ہے۔ ایسے میں کیاچار سال گیارہ مہینے تک حکومت کرنے والوں کو آخری مہینے میں اس کے اعلان کی ضرورت عوام کو دھوکہ دینے کے لیے نہیں پیش آتی۔ ریاستی سرکاروں کو لاڈمی بہن یا لاڈلے بھائی پر انتخابات کے وقت ہی کیوں پیار آتا ہے؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مذکورہ پروجیکٹ ایک مہینے پورا تو نہیں ہوسکتا اس لیے اگر ایک ماہ بعد اس کا اعلان ہوجائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ویسے کئی سرکاری منصوبوں پر تو سرے سے عملدر آمد ہی نہیں ہوتا۔ ون نیشن ون الیکشن کے حق میں یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ کم مدت کار کے سبب لوگ حکومت نہیں گرانے سے گریز کریں گے اور حکومتوں کو استحکام نصیب ہوگا۔

ایسی احمقانہ خوش فہمی کا شکار لوگ سیاسی رہنماوں کی نفسیات سے پوری طرح بے خبر ہیں۔ حکومت کسی کو محض اقتدار سے بے دخل کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنی سرکار بنانے کے لیے گرائی جاتی ہے۔ مہاراشٹر میں دیویندر فڈنویس اور اجیت پوار نے بغیر اکثریت کی حمایت اپنی اپنی حلف برداری صرف باون گھنٹوں کے لیے کروالی۔ پانچ سال تک حکومت کرنے کے باوجود دیویندر فڈنویس کی ہوسِ اقتدار نہیں مٹی اور اجیت پوار نے ان چند گھنٹوں کے اندر بدعنوانیوں کے معاملات میں کلین چٹ حاصل کرلی ۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس قانون کے بن جانے کے بعد سیاستداں وفاداری فروخت کرنے سے گریز کریں گے اور اپنی جماعت ونظریہ سے غداری نہیں کریں گے ایک دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ون نیشن ون الیکشن کا شوشہ دراصل حکمراں جماعت کی ایک سیاسی ضرورت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ایسے میں انور مقصور کے یہ دو مصرع یاد آتے ہیں؎
ہنس رہا ہوگا شکار ی جال پھیلاتے ہوئے
بات بگڑی ہے ہمیشہ بات منواتے ہوئے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2118 Articles with 1379695 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.