22ویں صدی کی دنیا: مشہور مصنفین کی پیشگوئیاں

جیسے جیسے دنیا تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے، ہمارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ 22ویں صدی کی دنیا کیسی ہو گی؟ انسانی ترقی، سائنس، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلیاں اور عالمی سیاست کس شکل میں ہوں گی؟ مشہور مصنفین، ماہرین اور سائنسدانوں نے اس حوالے سے مختلف پیشگوئیاں کی ہیں۔ کچھ نے ایک روشن مستقبل کی تصویر پیش کی ہے، جبکہ کچھ نے انسانی بقا کے لیے سنگین خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ 22ویں صدی کی دنیا کی ممکنہ شکل کو سمجھنے کے لیے ہم ان مصنفین اور ماہرین کے خیالات کا جائزہ لیتے ہیں جو آنے والے کل پر بصیرت رکھتے ہیں۔

ہومو ڈیوس" (Homo Deus) کے مصنف یوال نوح ہاراری 22ویں صدی میں انسانیت کے ارتقا کے بارے میں دلچسپ نظریات پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، انسانیت اس وقت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے جہاں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) اور بایوٹیکنالوجی انسانوں کی فطرت کو بدل دیں گی۔ ہاراری کے مطابق، انسان مصنوعی ذہانت اور جینیاتی انجینئرنگ کے ذریعے اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں میں غیرمعمولی اضافہ کرے گا، اور ہو سکتا ہے کہ 22ویں صدی میں انسان اور مشین کا فرق ختم ہو جائے۔ ہاراری کا ماننا ہے کہ 22ویں صدی میں انسانیت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اخلاقی اور فلسفیانہ مسائل ہوں گے، کیونکہ مصنوعی ذہانت اور جدید بایوٹیکنالوجی ہمارے اخلاقی معیارات کو تبدیل کر دے گی۔ انسان اپنے خالق کے کردار میں داخل ہو جائے گا، جس سے انسان اور مشین کا ملاپ ممکن ہو جائے گا۔

ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک بڑا نام الون مسک نے 22ویں صدی میں انسانی بقا کے لیے زمین سے باہر رہائش کو اہم سمجھا ہے۔ ان کے مطابق، انسان کو دوسرے سیاروں، خصوصاً مریخ، پر نوآبادیات قائم کرنی ہوں گی تاکہ زمین پر ماحولیاتی تبدیلیوں یا ایٹمی جنگ جیسی آفات کی صورت میں انسانی نسل کو محفوظ رکھا جا سکے:الون مسک اور دیگر خلائی ماہرین کا ماننا ہے کہ 22ویں صدی میں انسان صرف زمین پر محدود نہیں رہے گا، بلکہ مریخ اور دیگر سیاروں پر بھی آباد ہو چکا ہوگا۔ یہ پیشگوئی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ 22ویں صدی میں ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہو جائے گی کہ انسان کائنات کے دوسرے حصوں میں زندگی تلاش اور قائم کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔

سائنس فکشن کے مشہور مصنف آئزک ایسی موف نے اپنی کہانیوں میں روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت کے ارتقا کو نمایاں طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق، 22ویں صدی میں روبوٹ انسانی زندگی کا لازمی حصہ بن جائیں گے اور تمام جسمانی کام مشینوں کے ذریعے کیے جائیں گے۔ ایسی موف کا خیال ہے کہ روبوٹ انسانوں کے روزمرہ کے کاموں کو آسان بنائیں گے اور زندگی کو بہتر بنائیں گے، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرہ مشینوں پر مکمل انحصار کر لے۔ 22ویں صدی میں انسانی سماج میں روبوٹ اور مصنوعی ذہانت کے کردار پر مبنی دنیا ایسی ہوگی جہاں مشینیں زندگی کے ہر شعبے میں مرکزی حیثیت رکھیں گی۔ تاہم، اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسانی ملازمتوں میں کمی اور سماجی ڈھانچے میں تبدیلیاں آئیں گی۔

"1984" کے مصنف جارج اورویل نے مستقبل کی دنیا کے بارے میں تشویشناک پیشگوئی کی تھی، جہاں حکومتیں نگرانی کے نظام کے ذریعے ہر شہری کی زندگی پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ اگرچہ ان کی کتاب 20ویں صدی کے لیے لکھی گئی تھی، لیکن اس کی پیشگوئیاں 22ویں صدی کے لیے بھی اہم ہو سکتی ہیں۔ اورویل کے مطابق، دنیا میں جمہوریت کی بجائے مطلق العنان حکومتیں ہوسکتی ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر چیز کو کنٹرول کریں گی۔اورویل کی پیشگوئیوں کے مطابق 22ویں صدی میں حکومتیں ممکنہ طور پر عوامی آزادیوں کو محدود کر کے ایک "سرویلنس اسٹیٹ" (Surveillance State) قائم کر سکتی ہیں، جہاں ہر شخص کی ہر حرکت پر نظر رکھی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آزادی اور جمہوریت کے اصولوں کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے بارے میں متحرک کارکن گریٹا تھنبرگ اور دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ 22ویں صدی میں انسانیت کو سب سے بڑا چیلنج ماحولیات کی تباہی اور قدرتی وسائل کی کمی کا ہوگا۔ اگر موجودہ صورتحال میں تبدیلی نہ کی گئی تو 22ویں صدی میں زمین شدید ماحولیاتی تباہی کا شکار ہو سکتی ہے۔22دی میں دنیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے بچانے کے لیے ہمیں ابھی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے کاربن اخراج اور قدرتی وسائل کے استحصال کو نہ روکا تو ہماری اگلی نسلیں ایک برباد شدہ دنیا کا سامنا کریں گی، جہاں گلوبل وارمنگ، سمندروں کی سطح میں اضافہ، اور جنگلات کی کمی جیسے مسائل بڑھ جائیں گے۔
بل گیٹس اور دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ 22ویں صدی میں صحت کے شعبے میں زبردست ترقی ہو گی۔ جینیاتی انجینئرنگ، جدید ویکسینز، اور بایوٹیکنالوجی کی مدد سے انسان بیماریوں پر قابو پا سکے گا اور زندگی کی اوسط مدت میں اضافہ ہو گا۔ تاہم، صحت کے شعبے میں اس ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور سماجی مسائل بھی سامنے آئیں گے، جیسے کہ کون سی ٹیکنالوجی کس کے لیے دستیاب ہوگی۔

22ویں صدی میں انسانی صحت کا معیار بلند ہو گا، لیکن ساتھ ہی معاشرتی تقسیم بھی بڑھ سکتی ہے۔ انفرادی صحت میں بہتری کے باوجود، دنیا کے مختلف علاقوں میں وسائل کی کمی اور صحت کی خدمات کی غیر مساوی تقسیم چیلنج بنے رہیں گے۔

22ویں صدی کے بارے میں مختلف ماہرین اور مصنفین کی پیشگوئیاں ایک وسیع اور متنوع تصویر پیش کرتی ہیں۔ کچھ کے خیال میں 22ویں صدی میں ٹیکنالوجی اور انسانیت کے درمیان اتحاد ممکن ہوگا، جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ انسانیت کو سخت چیلنجوں کا سامنا ہوگا، جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور سیاسی آزادیوں کا خاتمہ۔

یہ پیشگوئیاں ہمیں مستقبل کی تیاری کا موقع دیتی ہیں، تاکہ ہم آج کے فیصلوں کے ذریعے ایک بہتر اور متوازن دنیا کا تصور کر سکیں۔ 22ویں صدی کی دنیا کیسی ہوگی، اس کا انحصار ہمارے موجودہ اعمال اور ان چیلنجوں کا سامنا کرنے کی ہماری صلاحیت پر ہوگا۔
 
Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 46 Articles with 7605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.