مشرقِ وسطیٰ میں بربریت کی انتہا

مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال انسانی المیے کی ایک داستان ہے جہاں جنگ و جدل، بے گھر ہونے اور حقوق کی پامالی نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے. فلسطین، شام، لبنان اور یمن جیسے ممالک میں انسانی درد و کرب کی شدت روز بروز بڑھ رہی ہے. یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں بے گناہ لوگ صرف اپنی سر زمین اور حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ظلم و بربریت کی داستانیں ہر روز وہاں کے معصوم بچوں، ماؤں اور بزرگوں کے لہو سے لکھی جا رہی ہیں. سوال یہ ہے کہ "کیا ان خطوں میں رہنے والوں کو جینے کا، پُر امن زندگی گزارنے، خوابوں کو پورا کرنے حق کا نہیں ہے؟"

علامہ اقبال کا شعر ہے کہ،
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے”

یہ شعر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا ضروری ہے. ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہی اصل میں خودی کا مظہر ہے۔ مشرقِ وسطیٰ پر ہونے والی زیادتیوں کی گونج ہر کونے میں سنائی دیتی ہے. سوشل میڈیا پر خبریں دیکھ دل ہول جاتا ہےاور ہمارے مسلم بھائی بہن اس ظلم کی انتہا کو برداشت کررہے اپنے پیاروں کو اپنی نگاہوں کے سامنے ہی شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں. یہ سب صبر کی ایسی منزلوں پر فائز ہیں جہاں ہم سوچ بھی نہیں سکتے. کسی بھی قوم پر ہونے والے ظلم کے خلاف خاموش رہنا نہ صرف بے حسی ہے بلکہ انسانی روایات کے بھی منافی ہے.

ارضِ مقدس فلسطین جس نے ہمیشہ انسانی حقوق کی آوازیں سنیں، اب جنگ و جدل کی گونج سے بھری ہوئی ہے. فلسطینی عوام کی آہیں آج بھی آسمانوں کو چیرتی ہیں. "محبت کی راہوں پر چلنے والے، شمعیں جلانے والے، بھوکے بچوں کی روٹی کی خاطر لڑنے والے، کیا ان کا خواب کبھی پورا ہوگا، کیا یہ بے گناہ لوگ یوں ہی اسرائیلی ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہیں گے؟"

لبنان میں بھی امن کی کوئی کرن نظر نہیں آتی. ہر طرف دھوئیں کے بادل، بمباری کی آوازیں، اور بے گھر لوگ نظر آتے ہیں۔ لبنان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ انہوں نے انسانیت کا دامن کبھی نہ چھوڑا. شام میں تو گویا آتش فشانی کا منظر ہے. بچے، بوڑھے، خواتین، سب اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ "زندگی کا ہر لمحہ ایک نئی جنگ کا سامنا کررہا ہے." یمن کی کہانی بھی دل کو چیر دینے والی ہے۔ یہاں انسانی المیہ ایک نئی شکل اختیار کر چکا ہے۔ "دکھ کی اس رات میں امید کی کرن کب تک چمکے گی؟"

کس طرح اُترے گا آنگن میں قمر خوشیوں کا،
غم کا سورج کبھی دیوار سے ڈھلتا ہی نہیں

آخر کب تک؟ کب تک ہم سب یونہی بےحس تماشائی بنے رہیں گے؟ یہ خاموشی کیا ہماری کمزوری ہے یا ہم نے اپنے دلوں پر بوجھ ڈال لیا ہے؟ کیا ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ایک انسان کی موت پوری انسانیت کی موت کے برابر ہے؟

ان خطوں جاری جدوجہد صرف ان کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کا ہے. ہمیں ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بھی بروزِ قیامت سرخرو ہوسکیں. اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ان لوگوں کیلئے؟
1. تمام اسرائیلی پروڈکٹ کا بائیکاٹ کریں تاکہ اپنا موقف پیش کرسکیں.
2. سوشل میڈیا پر انہیں سپورٹ کریں. Trend چلائیں تاکہ عالمی رائے کو متاثر کیا جا سکے.
3. دعائیں کریں. اللّٰہ پاک انہیں صبر دیں انکے لئے آسانی کرے انہیں فتح نصیب کرے.
4. اپنے ارگرد لوگوں کو آگاہ کریں.
5. متاثرین کی فنڈز جمع کرکے یا ڈونیشن کے ذریعے امداد کریں.

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
~ساحر لدھیانوی
 
Syeda Neha
About the Author: Syeda Neha Read More Articles by Syeda Neha: 2 Articles with 562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.