بھارت میں مسلم حکمرانوں کا طرز حکمرانی اور ان کی ناکامیوں کے اسباب

بھارت کی تاریخ میں مسلم حکمرانوں کا ایک اہم اور سنہری دور رہا ہے، جس نے نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی، ثقافتی اور مذہبی سطح پر بھی گہرے نقوش چھوڑے۔ اس دور کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہمیں مؤرخین اور مفکرین کی آراء کا مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ یہ جان سکیں کہ ان حکمرانوں کا طرز حکمرانی کیا تھا اور ان کی ناکامیوں کے اسباب کیا تھے۔

مسلم حکمرانوں نے بھارت میں ایک مضبوط اور منظم حکومت قائم کی۔ انہوں نے فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ انتظامی امور میں بھی مہارت حاصل کی۔ مؤرخ ضیاء الدین برنی اپنی کتاب تاریخ فیروز شاہی میں لکھتے ہیں کہ دہلی سلطنت کے حکمران، خاص طور پر سلطان علاؤ الدین خلجی، نے ٹیکس کے نظام اور انتظامی اصلاحات پر بہت زور دیا۔ برنی کے مطابق، خلجی کے دور میں معاشی پالیسیوں نے کسانوں اور چھوٹے طبقے کے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، جبکہ فوج کی تنظیم اور نظم و ضبط کو بھی بہت بہتر بنایا گیا۔

اسی طرح، ابوالفضل، جو مغل بادشاہ اکبر کے درباری مؤرخ تھے، اپنی مشہور کتاب آئینِ اکبری میں اکبر کی سلطنت کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ اکبر کے طرز حکمرانی میں مذہبی رواداری، معاشی اصلاحات، اور انتظامی مضبوطی کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اکبر نے اپنے دور میں دینِ الٰہی جیسے خیالات کو فروغ دیا تاکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ لایا جا سکے۔ اس سے ان کی سلطنت میں امن اور استحکام پیدا ہوا، اور لوگوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی بڑھی۔

مسلم حکمرانوں کی کامیابیوں میں سب سے اہم ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور مختلف طبقات کو یکجا کرنے کی کوششیں تھیں۔ ڈاکٹر اقبال حسین، جو کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ کے ماہر ہیں، اپنی کتاب The Rise and Decline of Muslim Rule in India میں لکھتے ہیں کہ دہلی سلطنت کے حکمرانوں نے مختلف معاشرتی گروہوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کامیاب کوششیں کیں۔ یہ حکمران مذہبی اختلافات کے باوجود مختلف طبقوں کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب الفاروق میں حضرت عمر کے طرز حکمرانی کا حوالہ دیتے ہوئے دہلی سلطنت کے حکمرانوں کو بھی اس اصول پر عمل کرنے کی صلاح دیتے ہیں کہ انہیں انصاف اور احتساب کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے تھا۔ تاہم، کچھ حکمرانوں نے ان اصولوں کو نظرانداز کیا، جس سے ان کی سلطنت میں مسائل پیدا ہوئے۔

اگرچہ مسلم حکمرانوں نے بھارت میں کئی کامیابیاں حاصل کیں، لیکن ان کی حکومتوں کا زوال بھی ہوا۔ مؤرخین کے مطابق ان ناکامیوں کے کئی اہم اسباب تھے:
مؤرخ طبی طباطبائی اپنی کتاب مروج الذهب میں ذکر کرتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے دور میں امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا، جس سے عوام میں بے چینی اور بدامنی پھیلی۔ یہ نابرابری بعد کے ادوار میں مزید شدت اختیار کر گئی اور حکمران طبقہ عوام کی ضروریات کو نظرانداز کرنے لگا۔

ڈاکٹر جادوناتھ سرکار اپنی کتاب History of Aurangzeb میں لکھتے ہیں کہ اورنگزیب جیسے حکمرانوں نے غیر مؤثر انتظامیہ کی وجہ سے اپنی سلطنت کو کمزور کر لیا۔ اورنگزیب کی مذہبی پالیسیوں نے ہندو اکثریت کو ناراض کیا اور سلطنت کے اندر بغاوتوں کو ہوا دی۔ سرکار کے مطابق، اورنگزیب کا دور اسلامی اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی کوششوں میں عدم توازن کا شکار رہا، جس سے حکومت کی بنیادیں ہل گئیں۔

ملانا عبدالقادر بدایونی اپنی کتاب منتخب التواریخ میں مغل بادشاہوں کے دور میں اندرونی بغاوتوں اور سیاسی سازشوں کا ذکر کرتے ہیں۔ حکمرانوں کے درمیان اختیارات کی جنگ اور آپس کے اختلافات نے سلطنت کو اندر سے کمزور کر دیا۔

آخر کار، مسلم حکمرانوں کی سلطنت برطانوی سامراج کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔ ولیم ڈیلرمپل، جو کہ برطانوی مؤرخ ہیں، اپنی کتاب The Last Mughal میں لکھتے ہیں کہ مغل سلطنت کے آخری دور میں برطانوی سامراج نے سیاسی اور معاشی طور پر مغل حکمرانوں کو کمزور کر دیا، جس کے نتیجے میں 1857 کی جنگ آزادی کے بعد مغل سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

مسلم حکمرانوں نے بھارت کی تاریخ میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ان کا طرز حکمرانی کبھی کامیاب تو کبھی ناکام رہا، لیکن ان کی سلطنتیں مضبوط انتظامی صلاحیتوں، معاشی پالیسیوں، اور سماجی ہم آہنگی پر مبنی تھیں۔ تاہم، اندرونی انتشار، غیر مؤثر انتظامیہ، اور برطانوی سامراج جیسے عوامل نے ان کی ناکامیوں میں اہم کردار ادا کیا۔ مؤرخین اور مفکرین کی آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کے عروج و زوال کی داستان پیچیدہ ہے اور اس کے کئی عوامل ہیں جو آج بھی مطالعے اور تحقیق کے قابل ہیں۔
Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 46 Articles with 7664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.