برصغیر کے ممالک جدید طرزِ حکمرانی سے قاصِر کیوں!
ہندوستانی برصغیر کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے، جہاں مختلف تہذیبیں،
بادشاہتیں، اور نوآبادیاتی طاقتیں آتی اور جاتی رہیں۔ ان ممالک میں بھارت،
پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا شامل ہیں، جو آج بھی کئی سماجی،
سیاسی اور معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیوں یہ ممالک جدید طرزِ حکمرانی کو مکمل طور پر اختیار نہیں کر سکے
جبکہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک، خاص طور پر مغربی ممالک، اس سمت میں کامیابی
سے آگے بڑھے ہیں؟
برصغیر کے ممالک کی نوآبادیاتی تاریخ نے ان کی سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر
گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ برطانوی راج کے تحت رہنے کے بعد، ان ممالک کو
نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی سے آزاد ہونے میں وقت لگا۔ نوآبادیاتی نظام نے ایک
ایسا بیوروکریٹک ڈھانچہ قائم کیا جو عوام کے مفادات کے بجائے نوآبادیاتی
طاقتوں کے مفادات کو ترجیح دیتا تھا۔ آزادی کے بعد بھی یہ ڈھانچہ مکمل طور
پر تبدیل نہ ہو سکا، اور آج بھی کئی ممالک میں بیوروکریسی اور حکومتی ادارے
زیادہ موثر اور جوابدہ نہیں بن سکے ہیں۔
سیاست میں خاندانی تسلط (Dynastic Politics) برصغیر پاک و ہند کے بیشتر
ممالک میں ایک عام اور پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں
سیاسی طاقت مخصوص خاندانوں تک محدود رہتی ہے، اور یہ خاندان نسل در نسل
سیاسی عہدوں پر قابض رہتے ہیں۔ خاندانی سیاست کا یہ نظام نہ صرف سیاسی اور
جمہوری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، بلکہ اسے اقربا پروری، بدعنوانی اور
عوامی مفادات کی نظراندازی جیسے مسائل بھی پیدا کرتا ہے۔
برصغیر میں خاندانی سیاست کی جڑیں قدیم سیاسی اور جاگیردارانہ نظاموں میں
پیوستہ ہیں۔ مغل دور حکومت سے لے کر برطانوی راج تک، حکمرانی کا نظام مخصوص
خاندانوں اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں رہا۔ برطانوی دور میں بھی کئی نواب
خاندانوں کو حکومتی اور سیاسی مراعات دی گئیں، جنہوں نے آزادی کے بعد سیاست
میں قدم رکھا۔ آزادی کے بعد بھی یہ رجحان برقرار رہا، اور بڑے سیاسی
خاندانوں نے سیاست میں اپنا غلبہ برقرار رکھا۔
خاندانی سیاست چند خصوصیات پر مشتمل ہوتی ہے جو اسے جمہوری اصولوں کے برعکس
کرتی ہیں:
خاندانی سیاست میں عموماً سیاسی عہدوں کو باپ سے بیٹے، یا ماں سے بیٹی تک
منتقل کیا جاتا ہے۔ اس سے نئے اور غیر سیاسی پس منظر والے لوگوں کے لیے
سیاست میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔
خاندانی سیاست کے تحت، سیاسی خاندان اپنی وراثت کی طرح سیاست کو بھی اپنی
جاگیر سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے سیاست عوام کی خدمت کا ذریعہ نہیں، بلکہ
اقتدار کا وراثتی حق بن جاتا ہے۔
خاندانی سیاست میں اقربا پروری ایک عام رجحان ہے۔ خاندان کے افراد اور
حامیوں کو اہم عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے، چاہے ان میں قابلیت ہو یا نہ ہو۔
اس سے بدعنوانی اور نااہلی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
خاندانی سیاست میں سیاسی جماعتیں عوامی تنظیموں کے بجائے خاندانوں کی ذاتی
ملکیت بن جاتی ہیں۔ جماعت کی قیادت خاندان کے فرد تک محدود رہتی ہے اور
پارٹی کا ہر فیصلہ اسی خاندان کے مفاد میں ہوتا ہے۔
بھارت میں خاندانی سیاست کی سب سے واضح مثال نہرو-گاندھی خاندان ہے۔ جواہر
لال نہرو، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، اور سونیا گاندھی تک یہ خاندان کئی
دہائیوں سے کانگریس پارٹی کی قیادت کرتا رہا ہے۔ اگرچہ بھارت دنیا کی سب سے
بڑی جمہوریت ہے، لیکن کانگریس پارٹی کی سیاست میں خاندانی تسلط کا عمل ایک
بڑا چیلنج ہے۔تاہم، یہ رجحان صرف کانگریس تک محدود نہیں ہے۔ بھارت کی مختلف
علاقائی جماعتوں میں بھی خاندانی سیاست غالب ہے۔ تامل ناڈو کی ڈی ایم کے
(DMK)، سماج وادی پارٹی (SP) اتر پردیش میں، اور شیو سینا (Shiv Sena)
مہاراشٹر میں خاندانی سیاست کی زندہ مثالیں ہیں۔
پاکستان میں بھی خاندانی سیاست ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی
(پی پی پی) میں بھٹو خاندان کی اجارہ داری ایک لمبے عرصے سے قائم ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو سے شروع ہونے والی یہ سیاست بے نظیر بھٹو اور بعد ازاں
بلاول بھٹو تک منتقل ہوئی۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شریف خاندان
کا غلبہ رہا ہے، جہاں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنی سیاسی طاقت کو
خاندان تک محدود رکھا ہے۔اس کے علاوہ دیگر چھوٹے سیاسی جماعتوں میں بھی
خاندانی سیاست کا رجحان موجود ہے، جیسے جمعیت علمائے اسلام (ف) میں مولانا
فضل الرحمن کا خاندان اور دیگر جماعتوں میں مخصوص سیاسی خاندانوں کا غلبہ۔
بنگلہ دیش میں بھی خاندانی سیاست ایک نمایاں عنصر ہے۔ عوامی لیگ کی قیادت
شیخ مجیب الرحمان کے بعد ان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کے ہاتھوں میں ہے، اور
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) میں بھی خالدة ضیاء کی قیادت کو ان کے
خاندان میں ہی دیکھا گیا ہے۔ اس رجحان نے بنگلہ دیش کی سیاست میں سیاسی
جماعتوں کو مضبوط لیکن عوامی حقوق کو کمزور کیا ہے۔
خاندانی سیاست جمہوریت کے اصولوں کو نقصان پہنچاتی ہے، کیونکہ اس میں میرٹ
اور عوامی رائے کا فقدان ہوتا ہے۔ خاندانی سیاست میں حکمرانی عوام کی منتخب
کردہ قیادت کے بجائے مخصوص خاندانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
چونکہ خاندانی سیاست میں قابلیت کے بجائے وراثتی حق کو فوقیت دی جاتی ہے،
اس لیے اکثر ناتجربہ کار اور نااہل افراد کو اہم عہدے مل جاتے ہیں، جس سے
بدعنوانی اور نااہلی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
خاندانی سیاست کی وجہ سے سیاسی جماعتیں ایک خاندان کی ملکیت بن جاتی ہیں
اور یہ جماعتیں اپنے قائدین کی خوشنودی کے لیے کام کرتی ہیں، عوامی مفادات
کے بجائے۔
جب سیاسی جماعتیں خاندانوں کے کنٹرول میں ہوتی ہیں تو عوام کے حقوق کو
نظرانداز کیا جاتا ہے، کیونکہ سیاسی نظام میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان
ہوتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے خاندانی سیاست کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟. خاندانی سیاست کے
خاتمے کے لیے جمہوری اصلاحات ضروری ہیں، جن میں سیاسی جماعتوں میں اندرونی
انتخابات اور قیادت کے چناؤ کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنانا شامل ہے۔
عوامی تعلیم اور سیاسی شعور کی بیداری خاندانی سیاست کے خاتمے میں مددگار
ثابت ہو سکتی ہے۔ جب عوام اپنے حقوق اور ووٹ کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے، تو
وہ خاندانی سیاست کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔
آزاد اور ذمہ دار میڈیا خاندانی سیاست کے خلاف ایک مضبوط آواز بن سکتا ہے،
جو بدعنوانی اور اقربا پروری کو بے نقاب کرے اور عوام کو سیاسی نظام کے
مسائل سے آگاہ کرے۔
خاندانی سیاست سے نمٹنے کے لیے ایک آزاد اور مضبوط عدالتی نظام کی ضرورت
ہے، جو سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو قانون کے دائرے میں لائے اور
بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرے۔
خاندانی سیاست برصغیر کے ممالک میں جمہوری اصولوں اور عوامی ترقی کی راہ
میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے سیاسی اصلاحات، عوامی شعور اور
مضبوط اداروں کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ممالک خاندانی سیاست کے نظام سے باہر
نکلنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف جمہوریت مضبوط ہو گی بلکہ عوامی
مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔
ایک اور بڑی رکاوٹ معاشرتی اور اقتصادی تفاوت ہے۔ برصغیر کے ممالک میں امیر
اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے عوام کی بڑی تعداد
بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ تعلیم کی کمی، صحت کی ناکافی سہولیات، اور بے
روزگاری نے لوگوں کو جدید معاشرتی نظام میں شمولیت سے دور رکھا ہے۔ جب
عوامی ترقی کا معیار کمزور ہو، تو جدید طرزِ حکمرانی کا قیام مشکل ہو جاتا
ہے۔
برصغیر کے بیشتر ممالک میں سیاسی استحکام کا فقدان رہا ہے۔ پاکستان میں
فوجی حکومتیں، بھارت میں علاقائی تشدد اور پاکستان و بھارت کے درمیان
کشیدگی نے بھی ان ممالک کو جدید ترقی یافتہ طرزِ حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ
ڈالی ہے۔ سیاسی استحکام کے بغیر حکومتی نظام کو مضبوط اور مؤثر بنانا ایک
مشکل چیلنج ہے۔
اگرچہ برصغیر کے ممالک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن ان کے پاس جدید
حکمرانی کے لیے کئی مواقع بھی موجود ہیں۔ مثلاً، بھارت ایک بڑی اقتصادی قوت
بننے کی راہ پر گامزن ہے، اور ٹیکنالوجی میں بھی وہ نمایاں ترقی کر رہا ہے۔
پاکستان بھی چین کے ساتھ سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے اقتصادی ترقی کی
جانب گامزن ہے۔ لیکن ان مواقع کو حقیقی تبدیلی میں بدلنے کے لیے مضبوط
سیاسی عزم، شفافیت اور احتساب کی ضرورت ہے۔
تعلیم اور عوامی بیداری ہی وہ اہم عناصر ہیں جو برصغیر کے ممالک کو جدید
طرزِ حکمرانی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ جب عوام اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے
آگاہ ہوں گے، تبھی وہ اپنے حکمرانوں سے جوابدہی کا مطالبہ کر سکیں گے۔ جدید
تعلیم اور میڈیا کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کرنا آج کے دور میں ضروری
ہے۔
برصغیر کے ممالک میں جدید طرزِ حکمرانی کو اپنانا ایک مشکل لیکن ممکنہ
راستہ ہے۔ نوآبادیاتی وراثت، خاندانی سیاست، معاشرتی تفاوت، اور سیاسی عدم
استحکام جیسی رکاوٹیں ان ممالک کو پیچھے رکھے ہوئے ہیں، لیکن تعلیم،
اقتصادی ترقی اور عوامی بیداری کے ذریعے ان چیلنجز کو عبور کیا جا سکتا ہے۔
اگر ان ممالک کے حکمران اور عوام مل کر کام کریں اور اپنے نظام کو جدید
خطوط پر استوار کریں تو یہ ممالک بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں
شامل ہو سکتے ہیں۔
|