ارشادِ ربانی ہے:’’ (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے
تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور
بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) ‘‘۔ اس آیت میں قوت سے مراد تیر اندازی
بھی ہے ۔ ماضی میں گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے اورتیر اندازی نہ صرف
جنگی ہتھیار بلکہ اہم فن تھا۔ عصرِحاضر میں تیر اندازی اور گھوڑوں کی جگہ
میزائل،ٹینک، بم، جنگی جہاز اور آبدوزوں نے لے لی ہے اس لیے ان کی تیاری
ضروری ہوگئی ہے۔قرآن کریم میں ان کے لازمی ہونے کی وجہ یہ بتائی گئی ہےکہ
:’’اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان
کے سوا دوسروں کو بھی جن (کی چھپی دشمنی) کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں
جانتا ہے‘‘۔کھلے دشمن تواپنی رقابت ظاہرکردیتے ہیں مثلاً اسرائیل اور
امریکہ مگر برطانیہ اور جرمنی جیسے منافقین بھی خوب دشمنی نبھاتے ہیں۔ ان
کی بابت قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ ’’ اِن کے دلوں میں
اللہ سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے، اس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ
نہیں رکھتے ‘‘۔
مسلم ممالک کو حربی تیاری کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ اس سے کھلے اور چھپے
دونوں قسم کے دشمن ہیبت زدہ اور قابو میں ر ہیں ۔ اس جنگی تیاری کے لیے بہت
زیادہ سرمایہ درکار ہوتا ہے اس لیے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتے ہوئے
آیت کا اختتام یوں ہوتا ہے کہ:’’ اور تم جو کچھ (بھی) اللہ کی راہ میں خرچ
کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم سے ناانصافی نہ کی
جائے گی‘‘۔ عصرِ حاضر کے کئی دانشور اسلحہ پر صرف ہونے والے سرمایہ کو فضول
خرچی کے زمرے ڈال کر صرف عوامی فلاح وبہبود اور قومی ترقی پر زور دیتے ہیں۔
غزہ پر مظالم کا پہاڑ گواہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف تحفظ کا پختہ انتظام نہ
ہو یااسے شدید ردعمل کا اندیشہ نہ ہو تو اسے تمام تر ترقی کو خاک میں ملانے
سے یا تباہی و بربادی کا ننگا ناچ کرنے سے روکنا ممکن نہیں ہے ۔ ایرانی
حملے کے جواب میں اسرائیل کے تذبذب کا یہی راز ہے۔
ایک عالمی جوہری معاہدے کے تحت ایران کے جوہری تنصیبات پر نگرانی کا سلسلہ
شروع ہوا تو اس نے اپنی ساری توجہ میزائل اور ڈرون کی جانب مبذول کردی ۔
آج یہ حالت ہے کہ یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے روس کو ایران ڈرونس اور
بیلسٹک میزائل فراہم کررہا ہے اور اس کے عوض اسے روس سے جوہری تکنیک مل رہی
ہے ۔یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اس کے پاس پانچ لاکھ ایسے میزائلس ہیں جو
اسرائیل میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ایران نے گزشتہ ایک سال میں
تین بار اسرائیل پر حملہ کیا ہے۔ تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور
پھر بیروت کے اندر حسن نصراللہ کی شہادتوں سے قبل دمشق میں ایرانی سفارت
خانے پر حملہ کے بعد بھی ایران نے اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا ۔ اسرائیل نے
پہلے تو سارے میزائیل مار گرانے کا کھوکھلا دعویٰ کیا مگرپھر ویرانے میں
گرنے کے بعد فوجی نتصیبات کے نشانہ بننے کا اعتراف کرکے نقصان سے انکار
کردیا۔ یہ دراصل کذب گوئی کی بنیاد پرپردہ پوشی نہیں تو اور کیا ہے؟
پچھلے دنوں ایران کے سمنان میں زلزلہ آیاتو جوہری تجربے سےمتعلق قیاس
آرائیاں ہونے لگیں کیونکہ موجودہ دور میں جدید آلات کے ذریعہ قدرتی زلزلے
کی پیشنگوئی سہل ہوگئی ہے لیکن اس کا کسی کو پتہ نہیں چلا ۔شکوک اس لیے بھی
پیدا ہوئے کیونکہ اس زلزلے کے مرکزہ کی گہرائی بہت کم تھی وغیرہ ۔یہی وجہ
ہے کہ ایرانی و امریکی حکام کی تردید کے باوجود دنیا بھر کے انصاف پسندوں
نے ایران کے جوہری طاقت سے آراستہ ہونے کی خوشی منائی ۔ آیت اللہ خامنہ
ای نے2003 میں عمومی تباہی کے سبب ایٹمی بم کو حرام قرار دیا تھا ۔ یہی
فتویٰ د راصل جوہری دھماکے کے اعتراف میں رکاوٹ بنا ہواہے۔ اسرائیل کی
جارحیت میں اضافے نے ایران کے جوہری ہتھیار کا طاقتور جواز پیدا کردیا ہے
اس لیے بعید نہیں کہ سابقہ فتویٰ سے رجوع کرکے بہت جلد ایران کے نیوکلیر
ممالک کی فہرست میں شمولیت کا اعلان کردیا جائے ۔
سچائی تو یہ ہے کہ اس طرح کی جنگی تیاری کے بغیر امریکہ و اسرائیل جیسے
جابر و سفاک دشمنوں کو امن معاہدے کے لیے راضی کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے اگلی
ہی آیت میں صورتحال کے بدل جانے پر اہل ایمان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ
:’’ اور اگر وہ صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور
اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیشک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔ یعنی اہل
ایمان کی یہ تیاری جنگ کے لیے نہیں بلکہ امن کی ناگزیر ضرورت ہے نیز
مسلمانوں کوصلح صفائی کے لیے راضی ہوجانا چاہیے ۔ اس حکم کی پیروی کرنے کے
لیے ذاتِ باری تعالیٰ پر استعانت پر غیر متزلزل اعتماد لازمی ہے ورنہ شیطان
یہ وسوسہ ڈال کر رکاوٹ بنتا ہے کہ دشمن کےصلح کی پیشکش کے محض فریب ہےاس کی
نیت میں کھوٹ ہے وغیرہ۔ رب ذوالجلال کی خوشنودی کے لیے معاہدہ کرنے والوں
کوبھروسہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے فریب دہی سے محفوظ رکھے گا ۔
اس دنیا میں طاقت کا توازن ہی دائمی امن و سلامتی کی ضمانت ہے۔غزوۂ احزاب
کے بعد ہی کفارانِ مکہ صلح ِ حدیبیہ کے لیے راضی ہوئے مگر پھر اسے پامال
کرکے فتح مکہ کا راستہ صاف کیا ۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان بھی
2015 میں ایک جوہری معاہدہ ہوا تھا ۔اس میں ایرانی جوہری تیاری کو محدود
کرنے کے عوض مغربی ممالک نے معاشی پابندیاں ختم کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی ۔ یورپی اتحادی
جرمنی، برطانیہ اور فرانس بھی رسمی دستخط کے باوجود وعدوں سے مکرگئے۔ اس
طرح ایران کے لیے جوہری بم بنانے کا راہ ہموار ہوگئی ۔ اس طرح دشمنان اسلام
کے خود اپنے جال پھنس جانے پر اسی سورہ کی یہ آیت صادق آتی ہے:’’ اور جب
کافر لوگ آپ کے خلاف خفیہ سازشیں کر رہے تھے کہ وہ آپ کو قید کر دیں یا آپ
کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو (وطن سے) نکال دیں، اور (اِدھر) وہ سازشی منصوبے
بنا رہے تھے اور (اُدھر) اللہ (ان کے مکر کے ردّ کے لئے اپنی) تدبیر فرما
رہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر مخفی تدبیر فرمانے والا ہے‘‘۔اللہ تعالی
دشمنان اسلام کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملائے۔
|