ذرائع ابلاغ کی درگت: کیوں اور کیسے ؟

وزیر اعظم نریندر مودی کی بابت بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ ’میڈیا‘ کے شیر ہیں اور اگر وہ ان کی تعریف و توصیف چھوڑ دے تو وہ بھیگی بلی بن جائیں گے ۔ حکومتِ وقت میڈیا کو کیسے اپنے قابو میں کرتی ہے اس کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آیا جب سی بی آئی نے این ڈی ٹی وی کے سابق پروموٹرز پرنوئے رائے اور رادھیکا رائے کے خلاف مبینہ دھوکہ دہی کے معاملے میں کلوزر رپورٹ داخل کردی کیونکہ اسے سال 2009 کے اندر قرض کے تصفیہ میں آئی سی آئی سی آئی بینک کو ہوئے 48 کروڑ روپے کے نقصان میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔ ان دونوں کے خلاف سات سال قبل مقدمہ درج کیا گیا تھا۔2017 میں کوانٹم سیکیورٹیز لمیٹڈ کے سنجے دت نامی شخص کی شکایت پر ایف آئی آر سے اس کیس کی شروعات ہوئی ۔ اس میں الزام لگایا گیا تھا کہ رائے جوڑے سے منسلک آر آر پی آر ہولڈنگس پرائیویٹ لمیٹڈ نے پبلک اوپن آفر کے ذریعے این ڈی ٹی وی میں 20 فیصد شیئر حاصل کرنے کے لیے انڈیا بلز پرائیویٹ لمیٹڈ سے 500 کروڑ روپے کا قرض لیا تھا۔

مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق، آر آر پی آر ہولڈنگز نے انڈیا بلز سے قرض کی ادائیگی کے لیے آئی سی آئی سی آئی بینک سے 19 فیصد سالانہ کی شرح سود پر 375 کروڑ روپے کا قرض لیا (جس میں سے 350 کروڑ روپے ادا کیے گئے) یعنی وزیر اعظم کے چہیتے نیرو مودی یا میہول چوکسی کی مانند وہ بنک کی دولت لوٹ کر ملک سے فرار نہیں ہوئے۔ ان کاقصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے اس قرض کے لیے اپنی گروی رکھی جانے والی شیئر ہولڈنگ کی اطلاع سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا(سیبی)اور اسٹاک ایکسچینج یا وزارت اطلاعات و نشریات کو نہیں دی تھی۔ بس اس کو بہانہ بنا کر سی بی آئی حرکت میں آگئی اورچینل کو بدنا م و ہراساں کرنے کا مہم چھیڑ دی گئی۔ این ڈی ٹی وی کے خلاف اس سے ایک سال قبل حکومت نے پٹھان کوٹ دہشت گردانہ حملے کے کوریج کے سلسلے میں پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی کیلئے نشریات کو سزا کے طور پر ایک دن کیلئے بند کرنے کی ہدایت دے چکا تھا یعنی ہرا سانی کے عملی مظاہر سامنے آنے لگا۔

وزارت اطلاعات و نشریات نےالزام لگایا تھا کہ این ڈی ٹی وی نے دہشت گرد انہ حملے نشریات میں قومی سلامتی کے لئے خطرناک حساس معلومات کو اجاگر کرنے کا جرم کیا ہے۔اس کی تردید کا حوالہ دےکر ایڈیٹرس گلڈ نے کہاتھا کہ یہ سارا مواد دیگر چینلس نے بھی نشر کیا تھا لیکن وہ تو منظورِ نظر تھے اس لیے صرف این ڈی ٹی وی پرظالمانہ کارروائی کی گئی ۔ قانونی چارہ جوئی کے بجائے چینل کے نشریہ کو بند کرنے کی بھی ایڈیٹرس گلڈ نے مذمت کی تھیمگر سرکار اور گودی میڈیا حریفائی میں بہتان طرازی کرتا رہا کہ این ڈی ٹی وی پر ممبئی دہشت گرد حملے(2008 ) کی غیر ذمہ دارانہ کوریج سے پاکستانی دہشت گردوں کا مدد ملی تھی۔ یہ سب حکومت کی انتقامی کارروائی تھی۔ اس کا مقصد میڈیا میں مودی سرکار کے خلاف اٹھنے والی بیباک آواز کو دبانا تھا ۔ سال 2022 میں، اڈانی گروپ کےذریعہ این ڈی ٹی وی کے کنٹرولنگ شیئر خرید لینے کے بعد وہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا اور اب سات سال بعد سی بی آئی کی ’کلوزر رپورٹ‘ نے اسے دفن کردیا ۔ اس طرح این ڈی ٹی وی کا وہ دعویٰ تو درست ثابت ہوگیا کہ جس میں کہا گیا تھا ’’اس نے دیانتداری کے اعلیٰ ترین معیارات پر عمل کرتے ہوئے کبھی بھی ICICI یا دوسرے بینکوں سے لیے گئے کسی قرض پر ڈیفالٹ نہیں کیا‘‘ مگر اس سازش کی مدد سے اڈانی کے ذریعہ مودی سرکار میڈیا کا گلا گھونٹنے میں کامیاب ہوگئی ۔

ذرائع ابلاغ کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ان پرسرکاری اور نجی دولت لٹاکر بھی ساتھ لینے کی کوشش کی گئی اور اس کی سب سے بڑی مثال زی ٹی وی کا بی جے پی کی حمایت میں سرکاری چینل دور درشن سے بھی آگے بڑھ جانا ہے مگر پہلے قومی انتخابات کے نتائج اورپھر نتائج سے قبل ہریانہ کی سیاسی صورتحال نے اس کے لیے بڑا دھرم سنکٹ کھڑا کردیا ہے ۔زی کےبانی سبھاش چندرا کا گرگٹ کی مانند رنگ بدلنے لگا ہے۔ ویکی پیڈیا کے مطابق وہ ہریانہ کے آدم پورمیں پیدا ہوئے مگر فوربس کا کہنا ہے کہ ان کی پیدائش راجستھان میں ہوئی اور بچپن ہی میں ان کا خاندان ہریانہ منتقل ہوگیا۔ سبھاش چندرا نےاپنی دو عدد جنم بھومی کا سیاست میں خوب فائدہ اٹھایا۔2016 میں وہ بی جے پی کی بدولت آزاد امیدوار کے طور پر ہریانہ سے راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں منتخب ہوئے۔ اس کے ۶؍ سال بعد 2022 میں انہوں نے راجستھان سے پھر ایک بار آزاد امیدوار کی حیثیت سے قسمت آزمائی کی اور بی جے پی کی حمایت کے باوجود شکست فاش سے دوچار ہوگئے۔

سبھاش چندرا کا تعلق بی جے پی کو نوٹ ، ووٹ اور سپورٹ کرنے وا لے اگروال بنیا سماج سے ہے مگر اس بار سبھاش چندرا کا ایمان ڈانوا ڈول ہوگیا۔ اس لیے انہوں نے بیک وقت کئی کشتیوں میں سواری کرنے کی کوشش کی ۔ سبھاش چندرا نے اپنے ہی علاقہ میں ذات بھائی بی جے پی امیدوار کمل گپتا کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور ہوا کےرخ پر بہنے لگے ۔ عام طور لوگ اپنی نجی گفتگو کو عام نہیں کرتے مگر سبھاش چندرا اس روایت کا پاس و لحاظ بھی نہیں رکھا ۔ انہوں نے کمل گپتا کے ساتھ اپنی بات چیت کو ایکس پر لکھ دیا ۔ یہ پوسٹ خاصی دلچسپ ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :ہریانہ میں حصار حلقۂ انتخاب کے بی جے پی امیدوار سے ۳؍دن قبل میری گفتگو ہوئی یعنی انہوں نے اسے عام کرنے کے اثرات پر تین دنوں تک غور کرنے کے بعد بالآخر عوام تک لے جانے کا فیصلہ کرہی دیا۔ فون کی بات چیت یوں ہے کہ کمل نے کہا بھائی صاحب سلام اور مبارکباد ۔ سبھاش نے پوچھا کس بات کی گپتا جی ؟ کمل بولے آپ کے چھوٹے بھائی کو ٹکٹ ملنے کی۔ اس پر سبھاش کا جواب تھا چھوٹا بھائی کیا ۵؍سال بعد فون کرتا ہے؟ کم ازکم تہوار کے موقع پر تو فون کرتا ہی ہے؟

سبھاش چندرا کے بے رخی دیکھ کر کمل بولے آپ کا آشیرواد چاہیے۔ سبھاش نے جواب دیا اس بار تو میرا آشیرواد نہیں ملے گا کیونکہ حصار کے عوام آپ سے بہت ناراض ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس نجی بات چیت کی تشہیر کرکے سبھاش چندرا نے کیا پیغام دیا ؟ پہلا تو یہ کہ حصار کے لوگ بی جے پی سے ناراض ہیں ۔ دوسرا یہ کہ کمل چھاپ کمل گپتا کا جھولی پسار کر ان کے سامنے کھڑا ہونا موخرالذکر کی اہمیت کا مظہر ہے۔ تیسرا پیغام یہ ہے کہ وہ راجستھان میں اپنی شکست کا انتقام لے رہے ہیں۔ چوتھا اور آخری سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ عوام کا رجحان دیکھ کر سبھاش چندرا کے اپنا رخ بدل لیا ہے ۔ سبھاش چندرا کا اندازہ درست تھا وہاں پر بی جے پی کے کمل گپتا تیسرے نمبر پر آئے ۔ سبھاش چندرا نے اڑتی چڑیا کے پر گنتے ہوئےانتخابی تنائج کا اونٹ جس کروٹ بیٹھے وہیں وہ خود بھی بیٹھنے کا رویہ اختیار کیا ۔

زی ٹی وی جیسے وفادار کا یہ حال ہے تو دوسرے لوگوں کے من میں کیا چل رہا ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حصار کے اندر سبھاش چندرا کا جھکاو ملک کی امیرترین خاتون اور آزاد امیدوار ساوتری جندل کی جانب تھا جنھیں کامیابی ملی ۔ اس حلقۂ انتخاب میں مقامی رکن پارلیمان نوین جندل کے سامنے بھی بڑا دھرم سنکٹ ہے کیونکہ وہاں پر ایک طرف ان کی سگی ماں ساوتری جندل اور دوسری جانب بی جے پی کے کمل گپتا ہیں ۔ اب مشکل یہ ہے کہ سگی ماں کا ساتھ دیں یا سیاسی مائی باپ بی جے پی کے کمل گپتا کو کامیاب کریں ۔ بی جے پی نے سوچا ہوگا کہ بیٹے کو ایوان پارلیمان میں بھیج دیا ہے اس لیے ماں ازخود مان جائے گی لیکن ساوتری نہیں مانیں اور اپنی دولت کے زور پر کمل کے خلاف میدان میں کودپڑیں ۔ اب ظاہر ہے جہاں شکر وہیں چیونٹی کی مصداق سبھاش چندرا نے کمل گپتا کوڈنک مار کر ساوتری جندل کا ہاتھ تھام لیا ۔

سبھاش چندرا فی الحال کسی ایک گھونسلے میں اپنے سارے انڈے رکھنے کے بجائے کئی گھوڑوں پر داوں لگا رہے ہیں۔ وہ بروالا کے اندر بی جے پی امیدوار کی مہم چلاتے ہوئے نظر آئے مگر اپنی جائے پیدائش آدم پور میں کانگریسی امیدوار کی حمایت کرتے دکھائی دیئے تھے۔ سبھاش چندرا جیسے لوگوں کی ابن الوقتی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک کا سرمایہ دار طبقہ اور ان کی ملکیت میں چلنے والےنشریاتی ادارے کس قدر موقع پرست ہیں۔زی ٹی وی کے مالک کے شش و پنج سے آر ایس ایس کے ذریعہ میڈیا کے برین واش کا دعویٰ بھی کھوکھلاثابت ہوتا ہے۔ یہ لوگ اقتدار کے توسط سے دولت کی ہوس اور ای ڈی کے ذریعہ جیل جانے کے خوف سے سرکار کی جوتیوں میں لوٹنے پر فخر جتاتے ہیں ۔ زی ٹیلیویژن جیسے چینلوں کے زعفرانی رنگ کے نیچے ابن الوقتی کی گٹر گنگا بہہ رہی ہے۔ اس لیے ان سے جھوٹ اور فریب کے سوا کسی اور شئے کی توقع بے سود ہے۔ یہ لوگ جیسا دیس ویسا بھیس کے مطابق ’چلو تم اُدھرکو ہوا ہو جدھر کی‘ کے قائل ہیں ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2120 Articles with 1391303 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.