سکندر اعظم: ایک عظیم فاتح اور اس کی فتوحات کا دائرہ

سکندر اعظم، جسے انگریزی میں "Alexander the Great" کہا جاتا ہے، تاریخ کے عظیم ترین فاتحین میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی ولادت 356 قبل مسیح میں مقدونیہ (Macedonia) کے شہر پیلا میں ہوئی۔ سکندر کا اصل نام "الیگزینڈر III" تھا اور وہ مقدونیہ کے بادشاہ فلپ دوم کا بیٹا تھا۔ اپنی مختصر زندگی میں، سکندر نے وہ کارنامے انجام دیے جن کی بدولت اس کا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گیا۔ مؤرخین کے مطابق، سکندر نے 20 سال کی عمر میں بادشاہت سنبھالی اور اگلے دس سال میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کی، جو اس وقت کے مشرقی یورپ، ایشیا اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر مشتمل تھی۔

سکندر کی ابتدائی تعلیم و تربیت اس کے والد فلپ دوم کے زیر نگرانی ہوئی، جبکہ اس کا استاد مشہور یونانی فلسفی ارسطو تھا۔ مؤرخ پیٹر گرین کے مطابق، ارسطو کی تربیت نے سکندر کے ذہن میں حکمت عملی، سیاست اور فلسفہ کے اصولوں کو گہرائی سے پیوست کیا، جس نے اس کے مستقبل کے فیصلوں پر گہرا اثر ڈالا۔20 سال کی عمر میں سکندر کے والد فلپ دوم کو قتل کر دیا گیا، جس کے بعد سکندر نے مقدونیہ کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ اس نے جلد ہی یونان کے مختلف شہر ریاستوں کو متحد کیا اور اپنی فوج کو منظم کیا تاکہ وہ اپنے بڑے عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے۔

سکندر اعظم کی سب سے بڑی فتح فارس کی عظیم الشان سلطنت کے خلاف تھی۔ 334 قبل مسیح میں سکندر نے اپنی مہم کا آغاز ایشیائے کوچک (موجودہ ترکی) سے کیا اور پہلے ہی حملے میں فارس کی طاقتور فوج کو شکست دے دی۔ مؤرخ ایریان اپنی کتاب The Anabasis of Alexander میں لکھتے ہیں کہ سکندر نے لڑائی میں بے مثال جنگی حکمت عملی استعمال کی اور اپنی فوج کی مضبوطی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس نے دریائے گرانیکوس کے معرکے میں اپنی پہلی بڑی کامیابی حاصل کی۔

بعد میں، 331 قبل مسیح میں گوگمیلا کے میدان میں ہونے والی جنگ میں سکندر نے فارسی بادشاہ دارا III کی فوج کو فیصلہ کن شکست دی۔ مؤرخین کے مطابق، یہ جنگ سکندر کی سب سے بڑی اور اہم فتح تھی، جس کے بعد فارسی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور سکندر نے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔

سکندر اعظم نے اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے مصر کا بھی رخ کیا۔ مصر اس وقت فارسیوں کے زیر تسلط تھا، لیکن سکندر نے وہاں داخل ہوتے ہی فارسی حکومت کو ختم کر دیا اور مصر کے عوام نے اسے "آزاد کنندہ" کے طور پر خوش آمدید کہا۔ 332 قبل مسیح میں، سکندر کو مصر کا حکمران تسلیم کیا گیا، اور اسے فرعون کا لقب دیا گیا۔ مؤرخ ایان ورتھنگٹن کے مطابق، مصر میں سکندر نے اسکندریہ (Alexandria) نامی ایک نیا شہر بھی قائم کیا، جو بعد میں علم و دانش کا مرکز بنا۔

سکندر اعظم کی فتوحات کی حدود یہاں تک نہیں رکیں۔ اس نے اپنی فوج کے ساتھ مشرق کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور 326 قبل مسیح میں ہندوستان کے شمال مغربی حصے تک پہنچ گیا۔ ہندوستان میں اس کا سب سے بڑا معرکہ راجا پورس کے ساتھ ہوا، جو پنجاب کے علاقے کا حکمران تھا۔ مؤرخ آریان اور کورنیلیس نیپوس کے مطابق، سکندر نے جھلم (Hydaspes) کے قریب راجا پورس کو شکست دی، اگرچہ یہ جنگ سکندر کے لیے کافی مشکل ثابت ہوئی۔

اس فتح کے بعد سکندر کا ارادہ تھا کہ وہ ہندوستان کے مزید علاقوں کو فتح کرے، لیکن اس کی فوج تھک چکی تھی اور مزید سفر سے انکار کر چکی تھی۔ یوں سکندر نے ہندوستان سے واپسی کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد اپنی سلطنت کو منظم کرنے کی طرف توجہ دی۔

سکندر اعظم کی زندگی مختصر مگر انتہائی کامیاب رہی۔ 323 قبل مسیح میں، محض 32 سال کی عمر میں، سکندر کی غیر متوقع موت بابل (موجودہ عراق) میں ہوئی۔ اس کی موت کے بعد، اس کی وسیع و عریض سلطنت ٹوٹ گئی اور اس کے جرنیلوں کے درمیان تقسیم ہو گئی۔ اس کی وفات کے بعد کے واقعات کو مؤرخ ڈیودر سیکیلس اور پلوتارک نے تفصیل سے بیان کیا ہے، جن کے مطابق سکندر کے بغیر اس کی سلطنت کو ایک طاقتور قیادت میسر نہ آ سکی، اور جلد ہی مختلف حصوں میں بکھر گئی۔

سکندر اعظم کی فتوحات نے نہ صرف جغرافیائی حدود کو تبدیل کیا، بلکہ اس کے اثرات ثقافتی، علمی اور سیاسی سطح پر بھی محسوس کیے گئے۔ سکندر نے مغرب اور مشرق کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی فتوحات کے نتیجے میں یونانی ثقافت اور علم کو مشرق کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے کا موقع ملا، جسے "یونانی اثر" (Hellenism) کہا جاتا ہے۔

مؤرخین کے مطابق، سکندر کی مہمات کے بعد یونانی فلسفہ، سائنس، فنون لطیفہ اور زبان نے ان علاقوں میں قدم جمائے، جن میں مصر، فارس، اور ہندوستان شامل تھے۔ اس کے علاوہ، سکندر نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں کئی یونانی شہروں کی بنیاد رکھی، جیسے اسکندریہ، جو بعد میں علم و دانش کے مراکز بنے۔

مؤرخ ایڈورڈ ایرونگ نے سکندر کو "یونانی تہذیب کا عالمی سفیر" قرار دیا، کیونکہ اس کی فتوحات نے مختلف ثقافتوں کے مابین روابط کو فروغ دیا۔ اس نے مشرقی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان پل کا کام کیا، جس کے نتیجے میں سائنس، فلسفہ، اور فنون لطیفہ کی ترقی ہوئی۔

سکندر اعظم کی شخصیت بھی اتنی ہی متنوع تھی جتنی اس کی فتوحات۔ وہ ایک عظیم جنگجو، سیاستدان، اور حکمران تھا، لیکن ساتھ ہی اس کے اندر فلسفے اور علم کی محبت بھی تھی۔ مؤرخ پلوتارک اپنی کتاب Parallel Lives میں سکندر کو ایک ایسا حکمران قرار دیتا ہے جو علم و دانش کا دلدادہ تھا اور جس نے اپنی فوجی مہمات کے دوران مختلف ممالک کے دانشوروں اور علماء سے ملاقاتیں کیں۔

سکندر اعظم کے دور کا سب سے بڑا ورثہ اس کی فتوحات سے پیدا ہونے والی تہذیبی ترقی ہے۔ اس نے مغرب اور مشرق کے درمیان ثقافتی اور علمی روابط کو مضبوط کیا اور ایک نئی تہذیبی دور کا آغاز کیا۔
 

Altaf Ahmad Satti
About the Author: Altaf Ahmad Satti Read More Articles by Altaf Ahmad Satti: 56 Articles with 13621 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.