حضرت عمر فاروقؓ کا دور خلافت تاریخ اسلام کا ایک درخشاں
باب ہے، جس میں نہ صرف اسلامی مملکت کو بے مثال انتظامی، عدالتی اور
مالیاتی بنیادیں فراہم کی گئیں بلکہ کئی اہم فتوحات بھی حاصل کی گئیں۔ حضرت
عمرؓ کا دور سنہ 634 سے 644 تک جاری رہا اور اس دوران اسلامی فتوحات اور
ریاستی نظم و نسق میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔
حضرت عمر بن خطابؓ کا شمار اسلام کے ابتدائی اور بڑے جلیل القدر صحابہ میں
ہوتا ہے۔ آپؓ کو رسول اللہﷺ نے "الفاروق" کا لقب عطا کیا، یعنی وہ شخص جو
حق اور باطل میں فرق کرنے والا ہو۔ حضرت عمرؓ کی سختی اور عدالت پسندی کے
باعث مسلمانوں میں انصاف کا بول بالا ہوا۔ آپؓ نے اپنے دورِ خلافت میں
اسلامی ریاست کو مزید مضبوط و منظم کرنے کے لئے کئی اصلاحات کیں۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں اسلامی ریاست کی سرحدیں وسیع ہوئیں اور بڑے بڑے
علاقے فتح ہوئے۔ ان فتوحات کا ذکر مختلف تاریخی کتب میں تفصیل سے موجود ہے،
جن میں "البدایہ والنہایہ" از ابن کثیر اور "تاریخ طبری" از امام طبری جیسی
معتبر کتابیں شامل ہیں۔
فارس (ایران) کی فتح: حضرت عمرؓ کے دور میں سب سے بڑی اور اہم فتوحات میں
فارس کی فتح شامل ہے۔ جنگ قادسیہ (636ء) میں مسلمانوں نے ایرانی سلطنت کے
خلاف عظیم کامیابی حاصل کی، جس کی بدولت ساسانی سلطنت کا خاتمہ ہوا اور
ایران اسلامی ریاست کا حصہ بن گیا۔ یہ جنگ اسلامی تاریخ کی فیصلہ کن جنگوں
میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔
روم (بازنطینی سلطنت) کے علاقے: حضرت عمرؓ کے دور میں بازنطینی سلطنت کے
مشرقی علاقوں پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ 636ء میں جنگ یرموک میں
مسلمان فوج نے بازنطینیوں کو شکست دی اور شام کا علاقہ مسلمانوں کے زیر
نگین آ گیا۔ بعد ازاں بیت المقدس (یروشلم) 638ء میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا،
جسے بغیر خونریزی کے فتح کیا گیا۔ یہ حضرت عمرؓ کی قیادت کا عظیم کارنامہ
تھا، جس میں انہوں نے امن اور عدل کا مظاہرہ کیا۔
مصر کی فتح: مصر کی فتح حضرت عمرؓ کے دور میں 640ء میں ہوئی۔ حضرت عمرو بن
العاصؓ نے اسلامی فوج کی قیادت کرتے ہوئے مصر کو فتح کیا۔ اس فتح کے بعد
مصر اسلامی ریاست کا حصہ بنا اور اس کی اقتصادی و سیاسی حیثیت مسلمانوں کے
لئے بے حد اہم ہو گئی۔
شمالی افریقہ اور دیگر علاقے: حضرت عمرؓ کے دور میں اسلامی فوج نے شمالی
افریقہ کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کیا۔ اس کے علاوہ مشرقی علاقوں میں بھی
اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ عراق، شام، فلسطین، مصر اور ایران جیسے
بڑے بڑے علاقے اسلامی خلافت میں شامل ہو چکے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے نہ صرف فتوحات پر توجہ دی بلکہ اسلامی ریاست کے داخلی
نظام کو مضبوط بنانے کے لیے بھی اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے صوبوں کو
انتظامی طور پر منظم کیا، قاضیوں (ججوں) کی تقرری کی اور بیت المال (سرکاری
خزانہ) کا نظام قائم کیا۔ اس کے علاوہ آپؓ نے شہریوں کی فلاح و بہبود کے
لیے بھی متعدد اقدامات کیے۔
تقسیمِ صوبہ جات: حضرت عمرؓ نے ریاست کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر
صوبے کے لیے ایک گورنر مقرر کیا۔ ان گورنروں کی ذمہ داری صرف فتوحات تک
محدود نہیں تھی بلکہ وہ صوبے کے انتظامی امور اور عدالتی مسائل کو بھی حل
کرنے کے پابند تھے۔
عدالتی نظام: حضرت عمرؓ کے دور میں عدلیہ کو خاص اہمیت دی گئی۔ آپؓ نے
قاضیوں کو آزادانہ فیصلے کرنے کا اختیار دیا اور ان پر کسی قسم کا دباؤ
نہیں ڈالا۔
مالیاتی نظام: حضرت عمرؓ نے بیت المال کا نظام وضع کیا اور ریاستی خزانے کو
منظم انداز میں چلانے کے لیے قواعد وضوابط مقرر کیے۔ زکوٰة اور جزیہ کے
نظام کو بھی مؤثر بنایا گیا۔
حضرت عمر فاروقؓ نے دس سالہ دور خلافت میں اسلامی ریاست کو مضبوط و مستحکم
کیا، لیکن 644ء میں آپؓ کو ایک غیر مسلم غلام فیروز (ابو لؤلؤہ) نے نماز کے
دوران شہید کر دیا۔ حضرت عمرؓ کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک المناک واقعہ
ہے، جس نے مسلمانوں کو شدید صدمہ پہنچایا۔
حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت اسلامی تاریخ کا سنہری دور ہے، جس میں
اسلامی ریاست نہ صرف وسیع ہوئی بلکہ ایک مضبوط اور منظم حکومت قائم ہوئی۔
ان کی عدل و انصاف اور فتوحات نے اسلامی ریاست کو ایک نئی بلندی پر پہنچا
دیا۔ حضرت عمرؓ کی فتوحات میں ایران، شام، فلسطین، مصر اور عراق شامل ہیں،
جنہیں اسلامی دنیا کے عظیم الشان علاقے سمجھا جاتا ہے۔ ان کی انتظامی
اصلاحات نے اسلامی معاشرے کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کی، جس کے اثرات آج بھی
محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
|