کبھی کبھی کچھ خبریں خواہ وہ آپ سے متعلق بھی نہ ہوں
‘پریشان کن ہوتی ہیں جیسا کہ بابا صدیقی کے قتل کی خبر۔ این سی پی (اجیت
دھڑے) کے رہنما اور مہاراشٹر حکومت کے سابق وزیر بابا صدیقی کو گزشتہ ہفتہ
کی رات ممبئی کے باندرہ ایسٹ میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسی
خبر تھی جس پر بھارت سمیت دیگر مسلمان ممالک بھی چونک پڑے کیونکہ بابا
صدیقی ہندوستانی مسلمانوں کیلئے بہت بڑی ڈھال تھے ۔
ہم میں سے بہت سے لوگ بابا صدیقی کو نام سے نہیں جانتے ہوں گے لیکن سلمان
خان اور شاہ رخ خان کے درمیان اختلافات رفع کرانے والے ہمدرد کے حوالے سے
ضرور جانتے ہیں ۔ جی ہاں یہ وہی بابا صدیقی ہیں جو سیاسی حلقوں کیساتھ ساتھ
شوبزنس کی دنیا میں بھی یکساں مقبولیت کے مالک ہیں۔
پہلے کچھ باتیں بابا صدیقی کے حوالے سے ۔بابا صدیقی کے والد کا نام
عبدالرحیم صدیقی ‘ والدہ کا نام رضیہ صدیقی ‘اہلیہ کا نام شہزین صدیقی بچوں
کے نام ڈاکٹر عرشیہ صدیقی اور ذیشان صدیقی ہیں۔وہ بہار کے رہنے والے تھے۔
ان کا آبائی گاؤں گوپال گنج ضلع کے مانجھا گڑھ بلاک کے شیخ ٹولی میں ہے۔
13 ستمبر 1958 کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں پیدا ہونے والے بابا صدیقی
کا پورا نام ضیا الدین صدیقی تھا لیکن وہ فلم نگری ممبئی میں بابا صدیقی کے
نام سے مشہور ہوئے۔ممبئی ‘باندرہ میں اپنے والد کے ساتھ وہ گھڑی بنانے کا
کام کرتے تھے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر آگے چل کر 1977 میں ممبئی یوتھ
کانگریس کے جنرل سکریٹری بنے‘ پھر فلمی اداکار اور کانگریس لیڈر سنیل دت کے
رابطے میں آئے۔ اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور لگاتار تین
بار ممبئی کے باندرہ ایسٹ سے ایم ایل اے بنے۔ اس دوران انہیں وزیر مملکت
بھی بنایا گیا۔
بابا صدیقی کا سیاسی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی سفر
کا آغاز کانگریس پارٹی کے ساتھ کیا تھا اور رواں سال چھوڑ کر ہمیشہ کانگریس
کےساتھ ہی وابستہ رہے۔ اسی سال فروری میں انہوں نے کانگریس چھوڑ کر نیشنلسٹ
کانگریس پارٹی (این سی پی) میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے سیاسی کرئیر کے
دوران وہ مہاراشٹر حکومت اور ممبئی یوتھ کانگریس میں کئی بااثر عہدوں پر
فائز رہے ہیں۔صدیقی نے 1977 میں نوجوانی میں ہی کانگریس پارٹی میں شمولیت
اختیار کی حالانکہ اس سے قبل وہ اپنے والد کے ساتھ گھڑی سازی کے کام سے بھی
وابستہ رہے۔ 1980 میں وہ باندرہ تعلقہ یوتھ کانگریس کے جنرل سیکریٹری بنے
اور 1982 میں باندرہ تعلقہ یوتھ کانگریس کے صدر بن گئے‘ 1988 میں ممبئی
یوتھ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے جبکہ 1992 میں ممبئی میونسپل کارپوریشن میں
میونسپل کونسلر منتخب ہوئے۔بابا صدیقی لگاتار تین بار ایم ایل اے منتخب
ہوئے۔ پہلی بار 1999 میں ایم ایل اے بنے‘ بعد ازاں 2004 میں دوبارہ منتخب
ہوئے۔ انہوں نے رکن اسمبلی کی حیثیت سے 2009 میں مسلسل تیسری جیت حاصل
کی۔2000 سے 2004 تک مہاراشٹر ہاؤسنگ اینڈ ایریا ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ممبئی
بورڈ کے چیئرمین بھی رہے۔ 2004 اور 2008 کے بیچ انہیں مہاراشٹر حکومت میں
خوراک اور سول سپلائیز‘ لیبر‘ ایف ڈی اے اور کنزیومر پروٹیکشن کا وزیر
مملکت بنایا گیا۔
بابا صدیقی کے آر جے ڈی صدر لالو یادو اور ان کے خاندان کے ساتھ قریبی
تعلقات تھے۔ ان کے درمیان اکثر ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ کئی بار ان کے آر
جے ڈی کے کوٹے سے راجیہ سبھا یا بہار قانون ساز کونسل میں جانے کی بات بھی
ہوئی تاہم ایسا کبھی نہیں ہو سکا۔ حال ہی میں 11 جون کو لالو کی 76ویں
سالگرہ پر صدیقی نے انہیں سوشل میڈیا پر مبارکباد بھی دی ۔اتنا ہی نہیں
بلکہ بابا صدیقی کے بہار کے تمام بڑے لیڈروں سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ ان کے
وزیر اعلیٰ نتیش کمار‘ مرکزی وزیر جیتن رام مانجھی‘ کانگریس کے ریاستی صدر
اکھلیش پرساد سنگھ‘ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ طارق انور اور بائیں بازو کی
جماعتوں کے رہنماؤں کےساتھ بھی خوشگوار تعلقات تھے۔
اگرچہ بابا صدیقی ریاستی سطح پر ایک سیاست دان اور کانگریس کے سرگرم رکن کے
طور پر جانے جاتے تھے لیکن قومی سطح پر بالی وڈ سے اپنی قربتوں اور اپنی
افطار پارٹی کیلئے زیادہ مشہور رہے۔ہر سال رمضان کے مہینے میں منعقد ہونے
والی ان کی افطار پارٹی سیاسی رہنماؤں اور بالی وڈ سیلبریٹیز کی شرکت کی
وجہ سے خبروں کی زینت بنتی تھی۔بابا صدیقی اور سنیل دت کے درمیان کافی
قربتیں جو سنجے دت کےساتھ بھی قائم رہی۔ سنجے دت اکثر بالی وڈ پارٹیوں سے
غائب رہتے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ بابا صدیقی کی افطار پارٹی
میں شرکت کرنا بھول جائیں۔اداکار شاہ رخ خان اور سلمان خان کے درمیان پانچ
سال تک ناچاقی رہی لیکن پھر بابا صدیقی کی کوششوں سے دونوں نے اپنے
اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ 2013 کے دوران ایک افطار پارٹی
پر دونوں کے بغلگیر ہونے کا منظر سامنے آیا‘ اس کے بعد یہ دونوں اداکار
مسلسل ایک ساتھ نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی تعریف میں کوئی کسر نہیں
رکھتے ۔
حملہ آوروں نے 66 سالہ بابا صدیقی پر ہفتے کی رات کئی راؤنڈز فائرنگ کئے‘
انہیں تشویشناک حالت میں ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں داخل کرایا گیا‘آناً
فاناً یہ خبر نہ صرف پورے بھارت بلکہ دیگر ممالک میں بھی پھیل گئی کہ ان کے
سینے اور پیٹ میں دو یا تین گولیاں لگی ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے۔ جب
ان پر فائرنگ کی گئی اس وقت وہ اپنے بیٹے ذیشان صدیقی کے دفتر آئے تھے۔ اس
واقعے کے فوراً بعد انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ
شندے نے پریس کانفرنس کرکے بابا صدیقی کی موت کی تصدیق کی اور بتایا کہ اس
معاملے میں دو لوگ گرفتار ہوچکے ہیں جبکہ ایک ملزم مفرور ہے۔ ان کے مطابق
گرفتار کئے جانے والوں میں سے ایک شخص کا تعلق ریاست ہریانہ سے جبکہ دوسرے
کا ریاست اتر پردیش سے ہے۔پولیس ٹیم تیسرے ملزم کی گرفتاری کیلئے کوشاں ہے‘
تینوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
انڈین میڈیا کے مطابق پولیس بابا صدیقی کے قتل کے معاملے کی دو زاویوں سے
جانچ کر رہی ہے‘ ایک بشنوئی گینگ اور دوسرا کچی آبادیوں سے متعلق ہے۔ بابا
صدیقی کی سلمان خان سے قربت کی وجہ سے ان کے قتل میں بشنوئی گینگ کے ملوث
ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔سلمان خان پرجب راجستھان میں شوٹنگ کے
دوران کالے ہرن کو مارنے کا معاملہ عدالت میں جاری تھا تو اس دوران بابا
صدیقی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ کالے ہرن کے معاملے پر بشنوئی برادری سلمان خان
سے نالاں تھی کیونکہ ان کے نزدیک کالا ہرن قابل احترام ہے اور وہ اس کی
پوجا کرتے ہیں۔خیال رہے کہ لارنس بشنوئی گینگ کا نام اس سے قبل ادکار سلمان
خان کو جان سے مارنے کی دھمکیوں اور حملے میں سامنے آتا رہا ہے۔انڈین میڈیا
کے مطابق انہیں 15 دن قبل جان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی جس کے بعد انہیں
’’وائی‘‘ کیٹیگری کی سکیورٹی فراہم کی گئی تھی لیکن ان دھمکیوں کی آزاد
ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی ہے۔ مرکزی ایجنسیاں ممبئی پولیس کے ساتھ رابطے
میں ہیں جبکہ گجرات اور دہلی کے پولیس اہلکار بھی معاملے کی تحقیقات میں
شامل ہیں۔
بابا صدیقی کے نماز جنازہ میں سلمان خان سمیت بے شمار فلمی ستارے موجود تھے
جبکہ ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد جنازے میں موجود تھے ‘ ان کے
سیاسی حریف و حلیفوں نے ان کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا اور ان پر کئے گئے
حملے کی شدید مذمت کی ہے ۔
ان کی موت پر ان کا پورا گاؤں غم کے اندھیرے میں ڈوب گیا کیونکہ اگر وہ
اپنے گائوں اور وہاں بسنے والوں سے شدید محبت کرتے تھے تو گائوں والے بھی
ان پر جان چھڑکتے تھے۔ انہوں نے اپنے گائوں میں والد کے نام پر عبدالرحیم
صدیقی میموریل ٹرسٹ بھی شروع کیا گیا تھا۔ یہ ٹرسٹ مانجھا گڑھ بلاک کے
سرکاری اسکولوں میں 10ویں کلاس کے ٹاپرز کو ایوارڈ دیتا ہے۔وہ چاہتے تھے کہ
اعلیٰ تعلیم کیلئے نمایاں شعبوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس میں ذات
پات اور مذہب آڑے نہیں آئے گا۔ انہیں اپنے گائوں سے وہی لگائو تھا جو ان کے
والد کو تھا‘ وہ سمجھتے تھے کہ بہار تعلیم کی سرزمین ہے اور یہاں کے لوگ
محنت سے ملک اور دنیا میں کامیابی کا جھنڈا لہرایا ہے۔ ان کی اچانک موت سے
کچھ بڑا کرنے کا ان کا خواب ادھورا ہی رہ گیا۔اب ان کے صاحبزادے ذیشان
صدیقی سے توقع ہے کہ وہ باپ دادا کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے ان کے
خوابوں کو شرمندہ تعبیر کریں گے ۔
|