پاکستان قدرتی نظاروں سے مالا مال ہے۔ سرسبز کھیتوں سے
لیکر بلند و بالا پہاڑوں تک ، ساحل سمندر سے لیکر سیف الملوک، رتی گلی جیسی
جھیلوں تک، ریگستانوں سے لیکر دیوسائی کے بلند و بالا میدانوں تک کونسی جگہ
ہے جو قابل دید نا ہو۔ مختلف زبانوں، رہن سہن اور انواع و اقسام کے کھانوں
سے بھر پور سرزمین کا نام پاکستان ہے ۔ جہاں لاتعداد اقسام کی نایاب جنگلی
حیات موجود ہے، جہاں چاروں موسم اپنا رنگ جماتے ہیں، جہاں ہر قسم کا پھل
بآسانی اگایا جاسکتا ہے، جہاں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے، وہیں یہ
پاکستان ایسے ہزاروں مقامات سے بھرا پڑا ہے جس کی خوبصورت دنیا کی توجہ
حاصل کرنے کی منتظر ہے ۔
ہر سال لاکھوں لوگ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں سیر و سیاحت
کیلئے اور دنیا کے چکاچوند سے اکتا کر قدرتی ماحول میں سانس لینے کیلئے ۔
مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ دنیا والوں کے پاس خوبصورتی پچیس
فیصد ہے اور وہ ستر فیصد محنت کرکے اس کو سوفیصد دکھاتے ہیں اور ہم اپنے
پچھتر فیصد خوبصورتی کو محض پچیس فیصد توجہ نہ دے کر ضائع کرتے جا رہے ہیں۔
نئے نئے ادارے بنانا، مشینری دینا، نوکریاں دینا کوئی کام نہیں، ویسے بھی
یہ سب سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے علاوہ کچھ نہیں ، اگر قوم فیصلہ کر لے کہ ہم
نے اپنے قدرتی ورثوں کی حفاظت کرنی ہے تو محض چند سالوں میں دنیا کے ٹاپ آف
لسٹ ٹورسٹ پوائنٹس میں پاکستان کا نام نظرآئے۔
بے ہنگم تعمیرات کو روکیں
سیاحتی مقامات کی تباہی میں بھرپور کردار بے ہنگم تعمیرات کا ہے۔ آزاد
کشمیر کے علاقہ اڑنگ کیل کی مثال لے لیں جہاں لوگ بلند ترین کھلا میدان ،
کھیت اور کھیتوں میں خون کی رگوں کی طرح بہتی ندیاں ، جنگل اور پہاڑوں کا
نظارہ کرنے سینکڑوں میل کا سفر طے کرکے پہنچتے ہیں۔ حالیہ کچھ سالوں میں اس
خوبصورت جگہ کو بے ترتیب ہوٹلز، ڈھابوں اور بے ہنگم تعمیرات نے تباہ کر دیا
ہے ۔ ہوٹلز، ریسٹ ہاؤس بننے چاہیے لیکن ان کی کوئی ترتیب ہو تاکہ جگہ کی
اصل خوبصورتی جس کو دیکھنے کیلئے لوگ آتے ہیں وہ برقرار رہے ۔
کوڑے دانوں کی تنصیب
سیاحتی مقامات پر نمایاں جگہ کوڑے دان نصب ہونے چاہیے اور ان کی باقاعدہ
صفائی کی ڈیوٹی ہو۔ سیاح حضرات کوڑے دان میں کچرا ڈالتے ہیں لیکن بروقت اس
کی صفائی نہ ہونے کی بدولت وہ کچرے سے بھرے رہتے ہیں جس سے ماحول میں تعفن
پھیلتا ہے۔ کچھ لوگ بھی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہیں اور ادھر ادھر کچرا
پھینکتے رہتے ہیں جو ویسے ہی غیر اخلاقی عمل ہے ۔ گزشتہ سال جرمن سے ایک
سیاح بزرگ میاں بیوی موٹرسائیکل پر پاکستان آئے کھیوڑہ سالٹ مائن پر مقامی
پولیس کی طرف سے ان سے جو رویہ روا رکھا گیا وہ تو نہایت قابل مذمت ہے لیکن
ان لوگوں نے پانی پیا اور خالی بوتلیں ہاتھ میں اٹھائے پھرتے رہے کہ کوئی
کوڑے دان مل جائے حالانکہ جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر موجود تھے لیکن انہوں نے
وہاں خالی بوتلوں کو نہیں پھینکا بلکہ کوڑا دان نہ ہونے کی بدولت واپس اپنے
بیگ میں رکھ لیا۔ ہم کو بھی دوسروں سے سبق سیکھنا چاہیے۔
تاریخی عمارتوں، درختوں پر لکھائی کرنے کی حوصلہ شکنی کریں۔
تاریخی ورثوں کی تباہی میں ہماری خواہ مخواہ کی خطاطی کی خواہش نے خاصا
کردار ادا کیا ہے ۔ لاہور کا شاہی قلعہ ہو یا جھیل سیف الملوک کا راستہ،
اپنے نام، نمبرز لکھ لکھ کے دیواروں اور ماحول کو پراگندہ کرنا مناسب عمل
نہیں ۔ کچھ کو تو لکھنے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ لیٹرین کے دروازوں کو
بھی معاف نہیں کرتے۔ اگر خدا نے آپ کو قلم کے استعمال کی توفیق دی ہے تو
شلوار میں ناڑا ڈالنے اور لیٹرین کے دروازوں پر طبع آزمائی کی بجائے مناسب
جگہ پر عمدہ تحریر کریں تاکہ آپ کی نفاست اور خاندانی وجاہت کا پرچار ہو۔
فضول بحث و مباحثہ
سیاحتی مقامات پر ڈیوٹی پر متعین افراد سے فضول بحث و مباحثہ نہ کریں۔ اگر
آپ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ سے زیادتی کر رہا ہے ، زیادہ پیسے وصول کر رہا ہے
یا اپنی ڈیوٹی سے غفلت برت رہا ہے تو اس کی ویڈیو، فوٹو ثبوت کے ساتھ
متعلقہ ادارہ کو رپورٹ کر دیں۔ کراچی، کوئٹہ،لاہور فیصل آباد کی مارکیٹوں
کے ریٹ لوگ تاؤبٹ کی مارکیٹ میں مانگ رہے ہوتے تو جناب جس جگہ آپ کو پہنچنے
میں تین دن لگ گئے ہیں وہاں روز مرہ استعمال کی اشیاء ہفتوں میں پہنچتی ہیں
اس لیے کچھ تحمل اور برداشت کا بھی مظاہرہ ہونا چاہیے۔
سیاحتی مقامات کے قریب فیکٹری لگانے کی اجازت نہ دی جائے۔
بعض تاریخی مقامات کے قریب سیمنٹ و دیگر فیکٹریاں قائم کی جارہی ہیں جن سے
اس تاریخی ورثہ کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کی بڑی مثال چوا سیدن شاہ کے
قریب کٹاس راج اور ستگڑھا کے مندر ہیں۔ جسے دنیا میں ہندوؤں کے دوسرے متبرک
مقام ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
سڑکوں کی حالت زار
سیاحتی مقامات کے بارے ایک عمومی قول ہے کہ جتنا مشکل راستہ طے کر کرے
جائیں گے اتنی ہی زیادہ خوبصورت جگہ دیکھنے کو ملے گی۔ تو اس کی خوبصورتی
میں اس بات کا زیادہ عمل دخل نظر آتا کہ مشکل راستہ کی وجہ سے کم لوگ آتے
ہیں اسی لیے جگہ کم گندی اور درخت اور پودوں کو کم نقصان پہنچا ہے۔ دوسرا
رخ جیپ مافیا کا بھی ہے جو جان بوجھ کے اپنی روزی روٹی کے چکر میں روڈ بننے
ہی نہیں دیتے جس کا نقصان خود وہ لوگ اٹھاتے ہیں ۔ اگر کچھ ٹریک پر صرف جیپ
کو اجازت ہو۔ مناسب کرایہ ہو اور ہر خاص و عام کیلئے وہی ہو۔ پرائیویٹ کار
کی مناسب پارکنگ موجود ہو تو اس معاملے پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے ۔
ہر روڈ پر اپنی گاڑی مت لے جائیں
اکثر لوگ اپنی چھ سو یا آٹھ سو سی سی گاڑی لیکر جھیل سیف الملوک ، دیو سائی
یا وادی نیلم جا پہنچتے ہیں۔ آپ تو ٹارزن بن گئے لیکن گاڑی کے ساتھ جو کچھ
ہوجاتا ہے وہ آپ کو آنے والے پانچ چھ مہینوں میں پتا نہیں لگتا بلکہ لگ پتا
جاتا ہے ۔ اس لیے جہاں تک روڈ ٹھیک ہو اس کو لیکر جائیں اس سے آگے جیپ حاصل
کریں کیونکہ مقامی لوگوں کا کاروبار بھی آپ سیاحوں کی آمد کا ہی مرہون منت
ہے ۔
بلاضرورت درختوں ، جڑی بوٹیوں اور پھولوں کو مت کاٹیں
اپنی چند منٹ کی خوشی کی خاطر لوگ درختوں کا، ماحول کا ستیاناس کر دیتے ہیں
جیسے گزشتہ کچھ ماہ قبل ایک بھائی صاحب کی ویڈیو منظر عام پر آئی کہ تازہ
چیری کھانی تھی اور موصوف پوری ٹہنی ہی توڑ کے ہمراہ لے آئے سابقہ بادشاہوں
کی طرح کہ میرا محل خوبصورت بنایا ہے اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ ایک بات ذہن نشین
رہے کہ اگر یہ خوبصورتی نا ہوتی تو آپ یہاں کیوں آتے؟
لباس میں بے احتیاطی ہر گز نا کریں
سیاحتی مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ غیر مہذب لباس پہننا زیادہ پسند کرتے
ہیں گویا مادر پدر آزاد ہونا چاہتے۔ اگر اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو
مقامی لباس ، کلچر کو دیکھتے ہوئے لباس پہنیں آپ خود کو منفرد محسوس کریں
گے اور یہ جاننے کا بھی موقع ملے گا کہ مقامی لوگ اس طرح کا لباس کیوں
پہنتے ہیں۔ شرم حیاء ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہے جو شمالی علاقہ جات میں آج
بھی پایا جاتا ہے لیکن جب آپ خود دوسروں کو دعوت نظارہ دیں گے تو اس میں
کسی اور کا کوئی قصور نہیں۔
سیاحتی مقامات کا تحفظ ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ سیاحتی مقامات پر بنے بینچ،
کوڑے دان، عارضی شیلٹر، احتیاطی بورڈ، سڑکوں پر لگے سائن بورڈ سب کچھ ہماری
توجہ کا متقاضی ہے۔ کسی کو خراب نہ کریں، کسی کو اکھاڑیں نہ۔ توڑنے سے
پرہیز کریں، اگر گھر والی کرسی پر ہم صرف بیٹھتے ہیں تو سیاحتی مقامات کی
کرسیاں بھی بیٹھنے کیلئے ہی ہوتی ہیں اودھم مچانے کیلئے نہیں ہوتیں۔ جگہ
جگہ گندگی پھیلا کر اپنے خاندانی نشانات مت چھوڑیں ، خوش اخلاقی سے پیش
آئیں ، تاکہ وہ لوگ بھی آپ کے ترقی یافتہ شہروں اور مہذب شہریوں سے ملنے کی
خاطر دور دراز کا سفر طے کر میدانی علاقوں کا رخ کر سکیں۔
|