ہریانہ میں کانگریس تو ہاری مگر مسلمان جیت گئے

ہریانہ اور جموں کشمیر کے مسلمان رائے دہندگان نے جس مہارت سے اپنے ووٹ کا استعمال کیا اس نے نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ ماہرین انتخاب کے ہوش اڑا دئیے ۔ اس کے کھلے عام اعتراف سے گریز کیا گیا مگر یوگی نے اسی تناظر میں نعرہ لگایا تھا کہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جو اب مہاراشٹر کے انتخابی مہم کا بھی حصہ بن گیا ہے۔ 2011کی مردم شماری کے مطابق ہریانہ میں 7.1فیصد مسلمان ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے 2019میں جو سروے کیا تھا اس کے مطابق مسلم ووٹرس صرف 3.4 فیصد ہیں ۔ سی ایس ڈی ایس کا جائزہ کہتا ہے کہ ان میں سے 59 فیصد نے کانگریس کو ووٹ دیااور 34 فیصد نے دیگر پارٹیوں یعنی لوک دل و آزاد امیدواروں پر اعتماد ظاہر کیا۔ اس سروے میں 7.03 فیصد مسلمانوں کے بی جے پی کو ووٹ دینے کا انکشاف کیا گیا ہے جس پر گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔ ہریانہ کے فساد سے متاثر علاقہ نوح میں بی جے پی کا مسلم امیدوار اس کی ساری تکڑم بازی کے باوجودتیسرے نمبر پر رہا۔ کانگریس کے امیدوار آفتاب احمد کو91؍ ہزار 833؍ ووٹ ملے جبکہ انڈین نیشنل لوک دل کے امیدوار طاہرحسین 44؍ ہزار 870؍ ووٹ پاکر دوسرے نمبر پر آئے۔

نوح کے اندر بی جے پی کے امیدوار کو محض 15؍ ہزار ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ عام آدمی پارٹی کی امیدوار رابعہ قدوائی اور ’بھارت جوڑو پارٹی‘ کے امیدوار محمد انور کو بالترتیب 222؍ اور 190؍ ووٹ ملےجو نوٹا کے 369؍ ووٹ سے بھی کم ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہ صرف زعفرانیوں اور اس کی بی اور سی ٹیموں کو کیسے پہچانتے ہیں اور ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ آفتاب احمد 1985ء میں پہلی بار کامیاب ہوئے تھے اس کے بعد یہ ان کی چوتھی کامیابی ہے۔ گزشتہ سال فرقہ وارانہ فساد کے بعد ’فیروز پور جھرکا‘ اسمبلی حلقےسے کانگریس کے امیدوا ر مامن خان کوبی جے پی نے سب سے زیادہ نشانہ بنایا تھا ۔ اس کےجواب میں مسلمانوں نے اس مرتبہ ان سر پر پوری ریاست میں سب سے زیادہ یعنی 98,444 ووٹ کے فرق سے کامیاب ہونے سہرا باندھ دیا۔ دلیررہنما کی اس طرح قدر دانی کی جاتی ہے۔

مامن خان نے نوح فساد کے وقت ایوانِ اسمبلی میں بابو بجرنگی کو چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ یاترا لے کر ان کے علاقے میں آئے گا تو اسے ’چھِل دیں گے‘۔ان کے ڈر سے بابوبجرنگی آنے کی ہمت نہیں کرسکا اور جوفسادی آئے ان کو مسلمانوں نے مار بھگایا۔ مامن خان کو کل ایک لاکھ 30؍ ہزار 497؍ ووٹ ملےجبکہ ان کےقریب ترین حریف بی جے پی کے امیدوار نسیم احمد محض 32؍ ہزار 56؍ ووٹ پر سمٹ گیا۔ نسیم احمد سابق رکن اسمبلی ہے اور مختلف جماعتوں سے قسمت آزمائی کرتا رہا ہے ۔ بی جے پی نے سوچا کہ اس کی ذاتی مقبولیت اور اپنی حمایت سے بیڑہ پار ہوجائے گا مگر ایسا نہیں ہوسکا ۔ فیرزپور میں لوک دل کے امیدوار محمد حبیب کو 15؍ ہزار638؍ اور آزاد امیدوار ممتاز احمد کو 1142؍ ووٹ ملے۔ ان کے علاوہ عام آدمی پارٹی اور جے جے پی جیسی پارٹیوں کے امیدوار تو ہزار کے عدد کو بھی نہیں چھو سکے ۔

پنہانا اسمبلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار محمد الیاس نے 31؍ ہزار 916؍ ووٹ کے فرق دوبارہ جیت درج کرائی ہے۔ انہیں 85؍ ہزار300؍ جبکہ ان کے حریف آزاد امیدوار رئیس خان کو 53؍ ہزار384؍ ووٹ ملے۔ بی جے پی نے ان کے سامنے محمد اعجاز خان نامی مسلم امیدوارکو میدان میں اُتارا تھا لیکن اس بیچارےکومحض 5؍ ہزار ووٹ ملے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی امیدوار ہزار ووٹ تک نہیں پہنچ سکا۔ محمد الیاس کی یہ پانچویں اور پنہانا اسمبلی حلقے سے تیسری کامیابی ہے۔ وہ پہلی بار نوح سے اور دوسری بار فیروز پور جھرکا سے کامیاب ہوئے تھے۔ہاتھن اسمبلی حلقے میں بی جے پی نے مسلمان امیدوار کے بجائے منوج کمار کومیدان میں اتار امگر وہ 47؍ ہزار 511؍ ووٹ حاصل کرسکا جبکہ کانگریس کے امیدوار محمد اسرائیل نے 79؍ ہزار 907؍ ووٹ پاکر 32؍ ہزار 396؍ ووٹوں کے فرق سے کامیابی درج کرائی ۔ بی ایس پی کی اتحادی انڈین نیشنل لوک دل کے مسلم امیدوار طیب حسین عرف نذیر احمد کو 37؍ ہزار843؍ ووٹ ملے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں محمداسرائیل دوسری پوزیشن پر تھے1991ء کے بعد پہلی بار اس حلقے میں کانگریس کامیاب ہوئی ہے۔

جگدھاری اسمبلی حلقے سے عام آدمی پارٹی کے سبب کانگریس کے امیدوار اکرم خان کو 7 ہزار سے کم ووٹوں سے کامیابی ملی ۔انہیں مجموعی طور پر67؍ ہزار 403؍ ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف بی جے پی امیدوارکنور پال نے 60؍ ہزار 535؍ ووٹ حاصل کرلیے۔ 2009ء میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے اکرم خان ہریانہ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر اور وزیرمملکت برائے داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ہریانہ کے انتخاب میں مسلمانوں کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کے سارے کانگریسی امیدوار کامیاب ہوگئے اور اسٹرائیک ریٹ 100 فیصد رہا۔ اس بارکانگریس نے 5؍ امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھاجو آبادی کے تناسب میں تھا۔مسلمانوں کے سیاسی حاشیے پر چلے جانے کا ماتم کرنے والوں کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں جب بی جے پی نے اکثریت گنوا دی تھی تو ہریانہ ا سمبلی میں جملہ تین یعنی مامن خان کے علاوہ ، آفتاب احمد اور محمد الیاس ارکان تھے، لیکن اس بار محمد اسرائیل اور اکرم خان کا اضافہ ہوا ہے۔اس طرح مسلم نمائندگی میں چالیس فیصد بڑھ گئی ہے۔

اروند کیجریوال اپنے آپ کو نریندر مودی کا سب سے بڑا دشمن گردانتے ہیں مگر یہ سچائی ہے کہ ان کی پارٹی نے ہریانہ کے اندر کمل کے کھلنے میں بلا واسطہ مدد کی ہے ۔ کانگریس کےمسلم امیدواروں کو ملنے والے ووٹ سے اس کی کارکردگی کا موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہریانہ میں کانگریس کی ناکامی کا ذمہ دار انڈیا محاذ میں شامل عام ا ٓدمی پارٹی کو نظر انداز کرنا بھی بتایا جاتا ہے۔ عآپ نے ہریانہ میں 89 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتارے لیکن عوام نے ان کو سرے سے خارج کر دیا اور کامیابی تو دور اس کے بیشتر امیدوار ضمانت بھی نہیں بچا سکے۔ دہلی سے متصل علاقہ سےعآپ نے بڑی امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ لوگ یہ توقع کررہے تھے کہ وہاں کیجریوال کا جادو چل جائے گامگر وہ بھی نہیں ہوسکا۔ گڑگاؤں میں عآپ امیدوار ڈاکٹر نشانت آنند کو محض 2177 ووٹ ملے جبکہ اسی ضلع کے بادشاہ پور سے بیر سنگھ بیرو تو صرف 12943 ووٹ حاصل کرپائے۔ سوہنا سے دھرمیندر کھٹانا کو 2680 اور پٹودی میں پردیپ جٹولا کو 1874 ووٹوں پر اکتفاء کرنا پڑا۔ جملہ 1.8 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی عآپ نے کانگریس کے ہاتھ پر کئی مقامات پر جھاڑو پھیرنے کا کام کیا۔

دبوالی میں آئی این ایل ڈی کے ادیتیہ دیوی لال نےکانگریس کے امیت سہباگ کو صرف 610 ووٹ کے فرق سے ہرایا جبکہ عآپ کووہاں 6,600 ووٹ ملے۔ اسی طرح اساندھی میں کانگریس کو بی جے پی نے2,306 ووٹ سے ہرایا جبکہ عآپ امیدوارنے4,290 ووٹ حاصل کیے۔اچانہ کلاں میں تو بی جے پی کو صرف 32 ووٹ کے فرق سے کامیابی ملی جبکہ عآپ کے پون فوجی نے 2,500 ووٹ پر ہاتھ صاف کرلیا۔ رانیہ میں آئی این ایل ڈی کے ارجن چوٹالا نے صرف 4,191 ووٹ کے فرق سے کامیابی درج کرائی جبکہ عآپ 4,700 ووٹ لے اڑی۔ یہ ایسے حلقہ ٔ انتخاب ہیں جہاں عام آدمی پارٹی کو ساتھ لینے کا سیدھا فائدہ ہوسکتا تھا ۔ دادری میں کانگریس صرف 1,957 سےہاری جبکہ عآپ نے 1,300 ووٹ لے لیے ۔ ریواڈی میں کانگریس کو 28,800 سے شکست ہوئی جبکہ عآپ کو وہاں 18,500 ووٹ مل گئے۔

بھیوانی میں کانگریس نے سی پی ایم کو موقع دیا تھا ۔ وہاں تو کم از کم عآپ کو اپنا امیدوار نہیں اتارنا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ بھیوانی سے عآپ کےاندو شرما نے 17,573 ووٹ چھٹکا لیے اور بی جے پی امیدوار کو 32,714 کے فرق سے کامیابی مل گئی۔ عام آدمی پارٹی کے آدرش پال سنگھ کو سب سے زیادہ ووٹ جگدھاری میں ملے مگر وہ بھی کل 43,813ہیں۔ عام آدمی پارٹی کو ہریانہ کے لوگوں نے اس کی اوقات دکھا دی مگر بی جے پی نےجن دومسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا انہیں بھی آئینہ دکھا دیا گیا۔ اس لیےاگر وہ مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ پھر ایک بار سمجھ گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے جھانسے میں لینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ بی جے پی مسلمانوں ٹکٹ نہیں دیتی کیونکہ وہ مسلم دشمن ہے؟ نیز وہ اس کی خود ساختہ مجبوری بھی ہے۔ اس ملک میں مسلمان ہی ایسی باشعور امت ہے جو من حیث القوم اس کے سحر میں گرفتار نہیں ہوگی ۔ اس لیے بی جے پی کو چاہیے کہ وہ کم ازکم مسلمانوں کے ساتھ منافقت کا کھیل نہ کھیلے ۔ اس کو اگر مسلم دشمنی کی بنیاد پر سیاست کرنی ہے اسی راہ پر گامزن رہے ۔ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دے کر ان کی اور اپنی رسوائی کا سامان نہ کرے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2122 Articles with 1410409 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.