ایک ارب سے زائد مسلمانوں میں وہ
ایک ہی تھا........ناموس رسالت ﷺکاسچاپاسبان....غازی علم دین شہیدؒ،غازی
عبدالقیوم شہیدؒ،غازی حق نواز جھنگوی شہیدؒاور غازی طارق شہیدؒجیسے مجاہدین
اسلام وغازیان دین کی تابندہ روایا ت کاامین....غازی عامرعبدالرحمن چیمہ
شہیدؒ....ماں باپ کاپیارا،بہنوں کاراج دلارا،تعلیمی میدان میں اپنی لازوال
ومثالی کامیابیوں کی بنا پر تمام اساتذ ہ کاپیارا،اپنی قوم،قبیلے اور شہر
کاہی نہیں،بلکہ پورے وطن عزیز کافخر....ہر میدان میںسبقت گویااس کی عادت
ثانیہ بن چکی تھی....والدین نے اسے تعلیمی میدان میں کامیابیوں کے مزید
جھنڈے گاڑنے اور پورے عالم میں پاک دھرتی کانام روشن کرنے کے لیے دیارغیر
بھیج دیا، تب پروفیسر نذیر چیمہ سمیت کسی کے بلکہ شاید عامر کے وہم وگمان
میں بھی نہ تھا کہ کس قدر عظیم ترین سعادت اس کی منتظر ہے....اس کاانتخاب
خلاق عالم کی طرف سے کس عظیم ترین کام کے لیے ہورہا ہے....آج مرحلہ ایک
کلاس،ایک بورڈیا ایک ملک میں اول آنے کانہیں، بلکہ ایک ارب سے زائد
مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس تاثر کی، جو ہماری ہی بے عملی وبدعملی
اور حب مال وجاہ کی وجہ سے پیداہوا ہے کہ ، ” مسلمان تو محض راکھ کاڈھیر
ہے“اپنے عمل سے نفی کرنے کاتھا....بدبودارمغرب ویورپ نے گستاخانہ خاکے
بنااورشائع کرکے ایک مرتبہ پھر اپنے خبث باطن کاثبوت فراہم
کردیاتھا،گویامسلم خفتہ کی بیداری کاامتحان لینے کے لیے اس کی جانب ایک
پتھر اچھال دیا تھا،تاکہ بیداری کاامتحان لینے کے بعد اگلاوارکرے....اس
کاخیال تھاکہ کچھ ممالک میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے، کچھ میں بات ہماری چند
مصنوعات کے بائیکاٹ پرمنتہی ہوگی، کہیں محض رسمی الفاظ مذمت پر
اکتفاکیاجائے گا....اس کے بعد سب کچھ ٹھیک ہوکر زندگی اپنی سابقہ ڈگر پر چل
پڑے گی....مگر اسے معلوم نہ تھاکہ اسی کے ملک میں رہنے والا، اسی کی درس
گاہوں میں تعلیم پانے والابظاہر بے ضرردھان پان سالڑکا، جوکتابوں کی دنیا
سے باہر جھانکنے کابھی روادارنہیں، اتنا بڑاکام کرجائے گا!!
اس نے عشق رسالت وحب نبوت سے سرشار ہوکر ”حیات وموت کے فاصلے “مٹاڈالنے
کافیصلہ کرلیا.... ان صحابہ کرام ؓ کی تاریخ دہرانے کافیصلہ جنہوں نے
گستاخان رسول ﷺ کوجہنم واصل کرکے بارگاہ نبوت ورسالت علیٰ صاحبہاالصلوٰة
والسلام سے دادتحسین وآفرین اورجنت الفردوس کاپروانہ حاصل کیا....ہاں ہاں
،وہ ہر قسم کے اندیشہ بیش وکم اور تصور نفع وضرر سے یکسر آزاد ہوگیا، کیوں
کہ اس نے راہ ہی ایسی منتخب کی ، جس میں سوچ وبچارکرناعقلمندوں کاکام
نہیں،اس نے وہ راہ منتخب کی جو”جنت کامختصرترین راستہ“ہے۔
اس نے وہ گستاخ ہاتھ ہی ساکت وجامد کردیے، جنہوں نے یہ بدترین گستاخی کی
اور اس کی ترویج واشاعت میں بھی پیش پیش تھا۔اسے بخوبی معلوم تھا کہ اس عمل
کاانجام شہادت ہے....وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ”میڈیاوار“کے اس دور میں اس کے
اس اقدام کی اچھی تعبیروتصویر پیش نہیں کی جائے گی....انسانیت سوز
تشدد،منفی کردارکشی، جھوٹ وافتراکی بھرمار، طعن وتشنیع کے طومار....اس نے
اس سب کے باوجود وہ عظیم کارنامہ انجام دے کر عالم کفر پر ثابت کردیاکہ ہوش
کے ناخن لو، ہم اپنے آقا مدنی،تاجداردوعالم، سید کائنات ، امام الرسل،
دانائے سبل، ختم الرسل ﷺ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں
کرسکتے۔اس نے گستاخ پر حملہ کردیا اوراس کواس دریدہ دہنی کا مزہ چکھانے کے
بعد خود بھی لیلائے شہادت وسعادت کوگلے لگالیا۔
اگر غلام ذہنیت کے حکمرانوں نے جنت کے اس شہزادے کا استقبال نہ کیا، اس کو
پاکستان کے کسی اعزازواکرام کا مستحق نہ سمجھا، اس کی تدفین شایان شان
طریقے سے نہ کی ،اس کے عزیزواقارب، دوست احباب اور اہل علاقہ کو اس کے
دیدار سے محروم رکھا، اس شہر کی گلیاں، چوک چوراہے اور در و دیوار جو اس کی
راہیں تک رہے تھے، ان کو محروم زیارت رکھا تو اپنے ہی نامہ اعمال کی سیاہی
میں مزید اضافہ کیا ورنہ وہ جس مقام رفیع اور مرتبہ بلند پر فائزہوگیاہے،
اس کے سامنے یہ سب فانی رسمیں ہیچ ہیں.... بالکل بے وزن ،بے حیثیت اوریکسر
بے قدروقیمت....وہ تو سرکار کالی کملی کے پاس دادتحسین وآفرین لینے پہنچ
چکا ہے....صحابہ ؓ وشہدائے ناموس رسالت ؒ کاہم نشیں،حوروں کادولہا،
مسلمانان عالم کامان، وطن عزیز کی شان، خلدبریں کامعززمہمان
عامرچیمہؒ....تیری لحدپہ خداکی رحمت ، تیری لحدکوسلام پہنچے!!
آج جب کہ سیاہ باطن انگریزوں کے ذہنی غلاموں اورروحانی فرزندوں کی طرف سے
مجاہدختم نبوت غازی ممتازحسین قادری کودومرتبہ سزائے موت کی سزاسنائے جانے
اوراس پرحکمرانوں کی روایتی بے حسی کودیکھ کرآج غازی عامر چیمہ ؒ بہت شدت
سے یاد آرہا ہے....بظاہر ہر طرف تاریکی کابسیرا دیکھ کر ناامیدی سی آگھیرنے
کی کوشش کرتی ہے....مگر پھر یہ حقیقت سامنے آتی ہے تو ایک ڈھارس سی بندھ
جاتی ہے کہ اس امت کی ماؤںنے ہر دور میں ایسے فرزند پیداکیے ہیں،جو چراغ شب
کے مصداق ہوتے ہیں، پھر معرکہ حق وباطل کو تو خروج وقتل دجال تک جاری ہی
رہنا ہے....سواے اہل مغرب اوران کے روحانی غلامو!نوشتہ دیوار پڑھ
لو۔یادرکھو کہ سورج، چاند پر تھوکااپنے ہی منہ پر آگرتا ہے، سورج کو بجھانے
والے خود ہی بجھ کر رہ جایاکرتے ہیں۔بقول کسے:
خاک ہوجاتے ہیں سورج کو بجھانے والے |