ایسی ھستیاں بڑی مشکل سے پیدا
ہوا کرتی ہیں کہ جن کے کارناموں پر تاریخ اور قوم ناز کرے کتنی خوش قسمت
ہیں وہ خواتین جو ایسے سپوتوں کی ماں بننے کا اعزاز حاصل کرتی ہیں۔ اور
زمیں کا وہ حصہ کتنا مبارک ہے جو ایسے افراد کے مولد ومسکن بننے کا شرف
حاصل کرتا ہے۔ آغاشورش کاشمیری بھی ایسے افراد کی صف میں شامل ہیں۔ وہ جرات
واستقامت کا پیکر، عزم وحوصلے کا کوہ گراں، میدان صحافت کا شہسوار اور
کارزار سیاست کا مرد میدان، وہ شاعر انقلاب، صاحب طرز ادیب اور تحریک آزادی
تحریک تحفظ ختم نبوت کا عظیم مجاہد وہ سچے عاشق رسول جو اپنے جوش خطابت سے
خرمن باطل میں آگ لگایا کرتے تھے جسکی صداقت گوئی اور جرات واستقامت کے
سامنے وقت کے فرعون بھی جھکنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
جس نے اپنی پوری زندگی اور تمام توانائیاں آزادی کی جدوجہد تحفظ ختم نبوت
میں صرف کی۔ یا ملک وقوم کے دشمن اور ظالم حکمرانوں کو للکارنے میں۔اسی حق
گوئی کی پاداش میں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ان کو مارا گیا پیٹا گیا مال
ودولت کا لالچ دیا گیا لیکن آغا شورش کاشمیری نے کبھی اصولوں پر سودے بازی
نہیں کی۔ آغاشورش کاشمیری جیسے فوجیوں کی جرات واستقامت تھی کہ آج ہم غلامی
سے آزاد ہیں۔
آغا شورش کاشمیری نے جس بات کو حق سمجھا برسر میدان کہا پھر اس پر ڈٹ گئے۔
وہ ہر ظالم سے ٹکرانا ہر اسلام دشمن اور ملک دشمن کا گریبان پکڑنا جانتے
تھے لیکن بکنا نہیں جانتے تھے اس نے آزادی اور تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنا
سب کچھ قربان کر دیا۔
ہمیشہ برسر میدان سینہ تان کر نکلے
نکھرتا ہی رہا تیغوں کے سائے میں شباب ان کا
آغا شورش کاشمیری ۴۱ اگست ۷۴۹۱ئ کو بروز منگل امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کے
والد کا نام نظام الدین تھا۔ انکے دادا بہتر روزگار کی تلاش میں لاہور آئے
تھے پھر پورا خاندان یہیں رہائش پذیر ہو گیا ۔ شورش نوعمری میں ہی والدہ
محترمہ کے سایہ عاطفت سے محروم ہو چکے تھے والدہ کی وفات کے بعد دادی نے ان
کی پرورش کی۔ شورش کاشمیری کا نام عبدالکریم اور تخلص الفت تھا۔ انکی
ہنگامہ خیز اور جذباتی طبعیت کی مناسبت سے دوست احباب نے شورش کا تخلص دیا۔
اور نام کے شروع میں آغاز کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مرحوم آغا حشر کی
وفات کے بعد کسی دوست نے شورش کے لیے نعرہ کی صورت میں استعمال کیا تھا۔ اب
عبدالکریم الفت آغا شورش کاشمیری سے مشہور ہو گئے۔
شورش کو بچپن سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور بڑا محنتی طالب علم تھا۔ احسان
دانش ان کو ٹیوشن پڑھانے آتے تھے ان کودیکھا دیکھی شاعری کا ذوق بھی پیدا
ہوا اور مطالعے کا ذوق اور زیادہ ہو گیا۔ ۲۳۹۱ئ میں دیوسماج ھائی اسکول
لاہور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا شوق اور استعداد کے باوجود گھر کے معاشی
بحران کی وجہ سے باضابطہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ عرصہ دراز تک
روزگار کی تلاش میں سرگردان رہے لیکن فرصت کے اوقات مطالعہ اور اہل علم
ودانش کے مجلسوں میں نشت وبرحاست کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا دادا مولانا
ظفر علی خان کا بڑا اوراح تھا گھر میں زمیندار اخبار پابندی سے آتا تھا اور
شورش پابندی سے پڑھتا تھا ۰۴۹۱ئ کی طویل زمانہ اسادت میں جیل میں قرآن کریم
کا ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا۔ فارسی اردو سیاسیات اور عمرانیات میں بھی
دسترس حاصل کر لی۔ یوں تو آغا صاحب میٹرک سے اوپر کسی سند یا ڈگری کے حامل
نہیں تھے لیکن ذاتی محنت وریاضت اور مطالعے سے وہ مقام حاصل کر لیاتھا کہ
بڑے بڑے ڈگریوں والے ان کے آگے جو ئہ کم آب نظر آتے۔
آغا شورش کاشمیری جس دور سے گزررہے تھے وہ دور ہندوستان میں انگریزی
جبرواستبدار کےعروج کا اور تحریک آزادی کے ہنگاموں کازمانہ تھا۔ مجاہدین
آزادی پر ڈھائے جانے والے انگریزی مظالم نے ان کے دل ودماغ میں انگریز سے
نفرت اور آزادی کا شعور پیدا کیا۔ ۸۳۹۱ئ میں لاہور میں انگریز کے خلاف ہونے
والے ایک جلسے میں پولیس نے حاضرین پر لاٹھی چارج کیا۔ اسمی کچھ ڈنڈے حریت
پسند رہنما لالہ لاچیت رائے کے سینے پر کچھ ایسے لگے کہ لالہلاجیت رائے
زخمی ہو گئے۔ پھر اسی رات کو لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔
لالہ لاجیت نے ولولہ انگیز خطاب کیا تقریر کے آخری الفاظ یہ تھے۔ ”نوجوانو
میرے بڑھاپے کی لاج رکھنا تمہارا فرض ہے جو لاٹھیاں میرے سینے پر لگی ہیں
وہ برطانوی اقتدار کے تابوت میں آحری کیل ثابت ہو“ (بولے گل زالہ دل) چند
دنوں کے بعد زخموں کی تاب نہ کر لالہ جی انتقال کر گئے۔ یہ واقعہ اور
انجہانی کی تقریر کے آخری الفاظ نے شورش کے دل ودماغ پر گہرا اثر کیا۔ ایک
دوسرا واقعہ جس نے ننھے شورش کے دل میں آزادی کی تڑپ اور جوش پیدا کیا۔ ان
کے والد نے ایک میلے میں کیمپ لگایا تھا۔ بشراب واقتدار کے نشے میں بدقسمت
چند گورے میلے میں آکر مسلمان لڑکیوں کو چیھڑا اس پر چند غیرت مند نوجوانوں
نے ان پٹائی کی۔ پھر پولیس نے ان نوجوانوں اور شورش کے والد کی ایسی بے
دردی سے پٹائی کی کہ جسم پر نشان پڑ گئے۔ اس واقعے نے شورش کے دماغ میں
مزید شورش پیدا کر دیا۔
شورش نے اس وقت پختہ عزم کر لیا کہ میں بڑے ہو کر انگریز کے خلاف اس وقت تک
لڑوں گا جب تک برصغیر سے اس کا بوریا بستر گول نہ ہوتا۔ ۵۳۹۱ئ میں انتخابات
قریب تھے کہ انگریز نے ایک سازش کے تحت مسجد گنج کو شہید کر دیا۔ اور اسلام
نے انگریز کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ احر کے تمام قائدین گرفتار ہو گئے
اب قیادت کے لیے کوئی رہن،ا میدان میں موجود نہیں تھا۔
اس موقعہ پر ساتھیوں کے شور سے نوجوان خطیب وشاعر آغاشورش کاشمیری ڈکٹیٹر
کے طور پر سامنے آئے۔ ان کے ولولہ انگیز تقریر نے حاضرین جلسہ کو بہت متاثر
کیا اور نعرہ تکبیر کی گونج برطانوی اقتدار کے درودیوار ہلا دیا۔ کسی بھی
جلسے میں یہ شورش کی پہلی تقریر تھی۔ اس تقریر کی بناءپر گرفتار ہو کر
تقربا ڈھائی سال قید میں رہے۔ شورش کاشمیری کی جرات وہمت اور جوانمردی کو
دیکھتے ہوئے ۹۳۹۱ئ میں رہا کیے۔ ان دنوں جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ انگریز
ہندوستان وسائل اور افرادی قوت کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی
کوششوں میں مصروف تھا۔ انگریزی فوج میں ہندوستانیوں کو بھرتی کیا جارہا
تھا۔ دوسری طرف علماءحق انگریزی فوج بھرتی کو حرام قرار دے چکے تھے۔ اور اس
بھرتی کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ شورش کاشمیری نے بھی رہائی کے بعد تحریک
چلانے کا اعلان کر دیا۔ مختلف شہروں میں انگریزی فوج میں بھرتی کے خلاف
تقریر کرتے۔ شورش کی گرفتاری کے وارنٹ جلدی ہوگئے لیکن شورش تقریر کرنے کے
بعد پولیس کو جل دیکر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ آخر کار ملتان کے
ایک جلسے میں کسی میر جعفر کی مخبری کی وجہ سے پولیس کے ہاتھوں گرفتار
ہوگئے۔ اس گرفتاری کی کہانی خود آغا صاحب کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ میری
تقریر ہورہی تھی کہ ڈسٹرک مجسٹرسیٹ نے مجمع کو منتشر ہونے کا حکم دیئے بغیر
اراٹوں اور ایوان کو لاٹھی چارج کا اشارہ کیا۔ پھر جو بیتی قلم بیان کرنے
سے قاصر ہے۔ چاروں طرف سے عوام کو مار پڑنے لگی۔ لو گ جوتے پگڑیاں اور
ٹوپپاں چھوڑ کر بھاگ اٹھے میں اسٹیج پر کھڑا رہا اس وقت بھاگنا جو انمردی
کیخلاف تھا۔ اور نہ کوئی فرار کا راستہ ہی نہ تھا۔ میں نے پولیس کو للکارا
کر کہا لوگوں کو نہ مارئیے میں حاضر ہوں مجھے پکڑ یے اور تکہ بوٹی کر
ڈالئیے۔ ثیل مجمع کو چیر تا پھاڑ تا اسٹیج تک پہنچا۔ مجھے بازو سے پکڑ کر
نیچے گرالیا بے شمار بید مارے بے اندازہ ٹھڈے مارے دوچار دفعہ اٹھاکر نیچے
پٹخا۔ ایک تھانیدار کو حکم دیا کہ اسے الٹی ہتھکڑی لگادو۔ پندرہ منٹ تک
بیدوں اور تھپڑوں کی مشق کرتا رہا۔ رخسار پر دھول دوسرے پر دھپا۔ جسم پر
بید گھٹنوں پر ٹھڈے۔ میں دو دفعہ بے ہوش کر گرا۔ مکان کے اندر عورتوں نے
سسکیاں بھرنا شروع کیں۔ غرض چاروں طرف پولیس کا غلغلہ تھا۔ میرا چکن پھٹ
پھٹ کر تار تار ہوگیا۔ قیص کے کئی ٹکڑے ہوگئے۔ ایک چھتہ کانسٹیبل بار بار
انہے وحشیانہ گھونسے جماتا رہا ایک اسٹنٹ کمشنر نے روکا مگر وہ منع نہ ہوا
پیٹتا رہا اور کہتا رہا کہ بڑے آئے مولوی صاحب۔ نہ ڈاڑھی نہ مونچھ قرآن
سناتے ہو کہاں لکھا ہے کہ وقت کے حالم کی نافرمانی کرو اور دے گھونسے پہ
گھونسہ۔
لوگ اپنے اپنے گھروں میں بتیاں گل کئے دم بخور بیٹھے تھے اکیلا میں ہی تھا
جو اس بہمیت کے بھتے چڑھا ہواتھا۔ آخر گھسیٹ کھساٹ کے مجھے حرم دروازے کے
تھانے لے گئے۔(صفہ نمبر ۳۶۱ میں دیوار زنداں)
پھر عدالت میں اس سے پوچھا گیا کہ آپ اقبال جرم کر لیں۔ شورش نے کہا کہ میں
نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔ بلکہ میں نے اپنا فرض پورا کیا ہے۔ انگریز سے
اپنا ملک آزاد کرانا میرا فرض ہے۔ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اپنا حق
مانگتے ہیں سر عام ہم ۔ انگریز نے اپنے مفادات کی خاطر ہماری آزادی سلب کی
ہوئی ہے۔ عدالت نے بیان سننے کے بعد باغ سال با مشقت کی قید سنائی تو شورش
نے کہا مجھے اس سے سخت سزا کی تو قیع تھی۔ وطن کی آزادی کی خاطر ہر قسم کی
سزا سہنے کیلئے تیار ہوں۔ تم سے جو ہوسکتا ہے کرلیں مگر ھم تحریک آزادی سے
دسبردار نہیں ہوں گے۔ تم اس قسم کے ہتھکنڈوں سے ہمیں آزادی کے جدوجہد سے
ھٹا نہیں سکو گے۔
شورش کا شمیری اپنے عزم کیمطابق اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھا جب تک برصغیر
سے انگریز کا بوریا بستر گول نہیں ہوا۔ آزادی کے بعد اسلام کے نام پر حاصل
کیے جانے والے اس ملک کے اقتدار پر ایسے لوگ مسلط ہوگئے۔ جو برطانوی اقتدار
کی دور میں انگریزوں کے جوتے پالش کیا کرتے تھے اور ان کے گھوڑوں کے خر خرے
کرتے تھے۔ جنگ آزادی میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ منزل انہیں ملی جو
شریک سفر نہ تھے۔ لیکن بر سر اقتدار نے کے بعد اس مفاد پر ست ٹولے نے اپنے
آپ کو آزادی کے ھیرو کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی نظریہ پاکستان سے مخرف
ہوگئے۔ غریب عوام کو آزادی کے غرات سے محروم رکھا
آغا شورش کاشمیری نے انگریزی اقتدار کے خاتمے کے بعد ان کے پردہ اقتدار پر
قابض افراد کیخلاف تحریک اور شورش کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان لوگوں نے بھی
شورش کے ساتھ وہی سلوک کئیے جوان کے آقا انگریز عرصے تک کرتا رہا۔
۶۶۹۱ءمیں ایوبی مارشلا کیخلاف ماھنامہ چٹان میں ایک اداریہ لکھا اس وقت کے
مارشلا ایڈ منسٹریئر کو جھنجوڑاکہ آپ کسطرف جارہے ہیں اپنا قبلے درست
کرلیں۔ اس جرم میں گرفتار ہوکر چھ ماہ قید کاٹ رہا ہوگئے۔ ۵مئی ۸۶۹۱ءمیں
جمعیت علماءاسلام لاہور کانفرنس میں ایوبی خلم وبر بر بیت کے خلاف دو گھنٹے
تندو تیز تقریر کے جرم میں گرفتار ہوگئے۔ اس مرد میدان نے ہر دور میں ہر
ظالم اور ہر ڈکٹیٹر کی خلاف حق بولا کبھی بھی منافقانہ مصلحت سے کام نہیں
لی۔ا سی حق گوئی کے پاداش میں عمر کے قیمتی آٹھ سال پس دیوار زنداں گزار
دیئے موت سے چند مہینے پہلے بھی ۲۷۹۱ءمیں ملتان میں ایک جلسے سے خطاب کرنے
کےلئے جانے سے پہلے گرفتار ہو گئے پانچ ماہ کی اسیری کے بعد ۳۵ دن کی بھوک
ہڑتال کے نتیجے میں اپنی فتح مندی اور عزم کا اظہار کرتے ہوئے رہا ہو گئے۔
غیرت کے دشمنوں کے جنازہ نکل گیا
ملت کے مجرموں سے جدا ہو گیا ہوں میں
آغا شورش کاشمیری پکا موحد تھا۔ شرک و بدعت سے سخت نفرت کرتے تھے وہ سچے
عاشق رسول تھے۔ ختم نبوت پر پختہ ایمان رکھتے تھے۔ پوری زندگی قادیانیوں کی
محتسب رہا۔ دجال قدیان اور اسکی ذریت کیخلا چلنے والی تمام تحریکوں کو اپنے
خون سے سینچا ۔ اور سیاسی رہنماؤں کی توجہ اسطرف مبذول کرائی۔۳۷۹۱ کی تحریک
ختم نبوت میں ذوالفقار علی بھٹو سے طویل ملاقات کر کے ان کا ذھن قادیانیوں
کے خلاف ہموار کیا۔ اپنے آتش فشاں تقاریر اور گوہر فشاں قلم سے ختم نبوت کے
لئے جدوجہد کی۔وطن کی آزاری اور مظلوم عوام کی حمایت میں حق کی آواز بلند
کرنے کے پاداش میں جیلوں کی جو صعوبتیں برداشت کئے تھے ان سے انکی صحت سخت
خراب ہو گی۔
کئی سالوں سے ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے جولائی ۳۷۹۱ میں طاری میں شدت
آگئی ۴۲ اکتوبر ۳۷۹۱ کو بروز جمعرات رات ۲۱ بجے خالق حقیقی سے جا
ملے۔مولانا مفتی محمودؒ کی امامت میں نماز جنازہ ادا کی گئی مغرب کی آذان
کے وقت میانی صاحب کے قربستان میں دفن کر دیئے گئے۔
آسمان تیری لحدیر شبنم فشانی کرے |