ناگپور یونیورسٹی ،
ناگپور(بھارت)کا خراج تحسین
قارئین کو یاد ہوگا کہ 11ستمبر، 2007ئ کوحضرت مولانا عبدالکریم پاریکھؒ کا
سفر آخرت شروع ہواتھا اور وہ اپنے رب حقیقی سے جاملے تھے۔قارئین کرام اس
حقیقت سے بھی و۱قف ہوں گے کہ حکومتِ ہند نے مولانائے مرحوم کو پدم بھوشن کے
سرکاری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ مقامِ مسرت اور خوش آئند امر یہ کہ2008ئ سے
ماہِ ستمبر میں راشٹر سنت تکڑوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی مرحوم مولانا کی
یاد میں پابندی کے ساتھ ایک جلسے کا انعقاد کرتی آرہی ہے۔ الحمدللہ اِمسال
بھی یہ اجلاس منعقد ہوا جس میں، یونیورسٹی کی جانب سے راجیہ سبھا کے ڈپٹی
چیئر مین ڈاکٹر کے رحمٰن خان کو کلیدی خطاب کے لیے مدعو کیا گیا۔یونیورسٹی
کی اِس پروقار دعوت کو خان صاحب نے صدق دل سے اِس لیے بھی قبول کیا کہ وہ
غیر مسلموں میں قرآنی پیغامات پہنچانے کے ،مولانا پاریکھ صاحب کے مشن میں
ہمیشہ شریک رہا کرتے تھے۔چنانچہ موصوف نے اپنے خصوصی لیکچر میں مولانا عبد
الکریم پاریکھ صاحب سے اپنی رفاقت کی یادیں تازہ کیں اور اُن کی علمی خدمات
کوبھر پور خراجِ تحسین پیش فرمایااور کہا کہ اِس تقریب میں شرکت پر میں
اپنے رب جلیل کادل کی عمیق ترین گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ اُس نے اِس
عظیم شخصیت کی یاد میں منائی جانے والی اِس یادگارتقریب میں شرکت کا موقع
عنایت فرمایا۔انہوں نے اس موقع پر راشٹرسنت تکڑوجی مہاراج ناگپور یونیورسٹی
کے ارباب حل و عقد کو مبارکباد پیش کی اوراِس حقیقت کی یاد دہانی کرائی کہ
سنت جی، مولانا عبدالکریم پاریکھؒ کو اپنے آشرم میں قرآن شریف اور توحید کے
موضوع پر لیکچر کیلئے اکثر یادفرمایا کرتے تھے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے
ناگپور کے عوام اور خواص نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ اِس کے چشم دید گواہ
ہیں۔
اُنہوں نے نہایت ہی رقت آمیز لہجے میں اُن کی حسنات کو گنایا اورکہا کہ
اگرچہ مولاناؒ کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، معاشی مسائل کے سبب اُن کی
ابتدائی تعلیم متاثر ضروررہی اور تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا،
تاہم علم کے لیے اُن کی ناقابلِ فراموش پیاس نے توفیق اِلٰہی کو اپنے حق
میں کچھ اِس طرح ہموار کر لیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے حصولِ علم کی انہوں نے
کئی منزلیں پار کر لیں۔ اسلامیات کے مطالعہ کا سلسلہ تو تھا ہی، مگر اِس کے
ساتھ ساتھ دیگر ادیان کے مطالعہ کی طرف بھی توجہ دی اور مختلف ادیان کے
تقابلی مطالعے نے مولانا کو ایک ایسی خود اعتمادی سے سرفراز کیا کہ بالآخر
اِس کا مظاہرہ آنے والے دنوں میں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ہواجس پر ہم سب
آج فخر کرتے ہیں۔ گو کہ مولاناؒ اپنی علمی پیاس کو بجھانے کے سارے جتن کرتے
رہے اور بہ فضل ِ تعالےٰ حصولِ علم کا حق ادا کردیا، لیکن چونکہ آپ تجارتی
طبقے سے تعلق رکھتے تھے ، چنانچہ علم کی جستجو کے ساتھ اپنے کاروبار سے بھی
وفا کی اور ایک مثالی تاجرکا رول نبھایا۔چنانچہ دنیا جانتی ہے کہ اِس میدان
میں بھی ان پر رب تعالٰی کا فضلِ خاص رہا کہ انکی فرم کا نام لکڑی،
جنگلات،پلائی ووڈ کے حوالے سے ملکی اور بین لاقوامی سطح پر لیا جانے
لگا۔الغرض ایک طرف ایک ایسے ممتاز عالم دین کی حیثیت سے آپ کے نام کا شہرہ
ہوا، جو دیگر اقوام اور مذہب کے لوگوں کے درمیان عوامی اور مقامی زبانوں
میں کلام ربانی کے پیغامات تاعمر پہنچاتے رہے تو دوسری طرف وہ ایک کامیاب
تاجربن کر دُنیا کو بتا دیا کہ ایک ذمہ دارانہ زندگی اور اِس کا کامیاب نظم
کیا ہوتا ہے۔حیرت انگیز بات ہے کہ دیگر مذاہب کے عوام و خواص میں بھی ان کے
لئے یکساں طور پر بے پناہ احترام کے جذبات پائے جاتے تھے ، اِس اعتبار سے
وہ اپنی مثال آپ تھے۔آپ مختلف فرقوں اور ذاتوں کے درمیان انسان دوستی اور
بھائی چارہ کا جذبہ پیدا کرنے کی کامیاب ترین کوشش فرمائی۔آپ کی ذات گرامی
حقیقی اور مثالی سیکولر اقدار کی آئینہ دار تھی۔ مولاناؒ کو مطالعہ کا بے
پناہ شوق رہا۔ بائبل،گیتا،رامائن، ویدوں اور گورو گرنتھ صاحب کا بھی انہوں
نے بالاستعاب مطالعہ کیا، جس کے لئے سنسکرت سیکھنے کی ضرورت درپیش ہوئی تو
یہ زبان بھی انہوں نے سیکھی ۔ اسکے علاوہ انہوں نے سوامی وویکانند ،
رابندرناتھ ٹیگور، سوامی دیانند سرسوتی، گرونانک، مہاتماگاندھی جیسے عظیم
رہنماؤں کی تحریروں کا بھی خوب مطالعہ کیا۔اِسی کے ساتھ علمائے دین کی
تحریروں اور تحریکوں کو بھی گہرائی سے دیکھا، پرکھا ، خصوصاً مولانا آزاد ؒ
اور اپنے کئی ہم عصر علماءکی کتابوں اور تحریکوں کو اپنے مطالعہ کا جز
بنایا۔یہ اُن کا وصفِ خاص تھا کہ ہر تعمیری تحریک کو مولاناؒ کا تعاون حاصل
رہا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ معروف دینی درسگاہ ندوة العلماءاور شہرہ آفاق
شخصیت مولانا ابو الحسن علی میاںؒ ؒصاحب سے ان کی آخر عمر تک قربت رہی۔
محترم رحمٰن خان صاحب نے مزید عرض کیا کہ مولانا پاریکھ ؒمرحوم کو حکومت
ہند نے 2001 ئ میں ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں پدم بھوشن کے
اعزاز سے نوازا، جو اپنے آپ میں ایک اہم تاریخی واقعہ ہے۔علاوہ ازیں، اپنی
خداداد صلاحیتوں کی بنا پر مولانا ؒکو نہ صرف قومی سطح پر قابل ذکر اداروں
سے وابستہ ہونے کا شرف حاصل ہوا، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی وہ اپنی
خدمات ِ جلیلہ کے ساتھ سرگرمِ عمل رہے، یعنی جیسا کہ سب جانتے ہیں آپ رابطہ
عالم اسلامی کے رکن نامزد ہوئے۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ امریکی فیڈریشن
کی جانب سے بھی انہیں فخر ہندوستان کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دعوت
و تبلیغ کے حوالے سے الیکٹر انک اور پرنٹ میڈیا نے عالمی سطح پر مولانا کو
متعارف کرانے میں بڑااہم کردار ادا کیا۔سیاسی اعتبار سے بھی مولانا کو
ارباب اقتدار میںقدر و منزلت حاصل رہی اور آپ کی ذات پارٹی وابستگیوں سے
قطعِ نظر، سیاست دانوں کے لیے روشنی کا مینار بنی رہی۔سبب یہ تھا کہ وہ
اپنے کردار کے ایسے دھنی تھے کہ تعصب کی کوئی لہر اُن کے قریب بھی پھٹک نہ
سکی۔چنانچہ ان کا امیج ایک مخلص ، ایماندار اور سیکولر انسان کا بنا جو
تادمِ آخر قائم رہا۔
اس موقع پر ممبئی کی مشہور دینی اور علمی شخصیت محترمہ عظمی ناہید صاحبہ نے
بھی اپنی مختصر مگر جامع تقریر میں فرمایا کہ پاریکھ صاحبؒ ان مقتدر علمائے
دین میں سے تھے جن کی تعلیمات، مواعظ اور نصائح آنے والی نسلوں کی رہنمائی
کا منبع بنے گی اور مستقبل کے جب بھی نقشے بنیں گے اُن کی رہنمائیاں مشعلِ
راہ ثابت ہوں گی۔آپ کی زندگی روحانی پاکیزگی سے معمور رہی اور آپ کی ذات
علم و عمل کا جیتا جاگتا نمونہ بنی رہی۔ آپ کا علم، آپ کی تحریریں، آپ کی
تقریریں رشد و ہدایت کا ذریعہ تھیں۔ خواتین کے مسائل پر جب مولاناؒ سے
گفتگو ہوتی تو خواتین پر ہونے والے مظالم کے تذکروں پر آپ کی پلکیں بھیگ
جاتیں۔بہر کیف مولانا عبدالکریم پاریکھ ؒ کی تعلیمات ہمیشہ ترغیب دیتی رہیں
گی کہ ہم اپنی سماجی ، دینی، فکری ، سیاسی زندگی کو عمل اور کردار کے
اعتبار سے محترم اور با وقار بنا نے کی سعی مشکور کرتے رہیں۔ انہوں نے مزید
کہا کہ مولانا پاریکھؒ صاحب نے شہرناگپور کا وقار عالمی سطح پر بلند کیا۔
مولاناکی زندگی اور اُن کے اِنسانیت نواز مشن کے لئے بہترین خراج یہی ہوگا
کہ ہم ان کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں اور سسکتی ، بلکتی انسانیت کو اُس کے
رب کے پیغام سے قریب کریں اوران کے اُن بیش قیمت قدروں کی آبیاری کریں جن
کے وہ اپنی پوری زندگی میں علم برداررہے۔
یونیورسٹی کے باوقار اور قابلِ صد احترام وائس چانسلر محترم ڈاکٹر ولاس
سپکال نے مولانا کی خدمات کے اعتراف میںراشٹر سنت تکڑوجی مہاراج ناگپور
یونیورسٹی میں انکے نام پر چیئر کے قیام کا تذکرہ کرکے ناگپور کے عوام کے
جذبات کی عموماً اور ملک کے باشندوں کے جذبات کی خصوصاً ترجمانی کرکے اپنے
حصے کی عقیدتیں عوام کے حوالے کردیں۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر مہیش
کمارصاحب نے مہمانوں، شرکائے جلسہ اور مدعو مقررین کا شکریہ ادا کیا۔مولانا
عبدالکریم پاریکھ ٹرسٹ اور ہیومینیٹی چیریٹیبل ٹرسٹ کے چیر مین عبدالمجید
پاریکھ صاحب نے ناگپور یونیورسیٹی کے ذمہ داران کا اور بڑی تعداد میں حاضر
سامعین کا شکریہ ادا کیا ۔ شرکائے مجلس میںمولاناؒ کے مداحوں کی اچھی خاصی
تعداد شریک رہی ، خصوصاً دہلی سے ایم اے حق صاحب، عبدالمنان صاحب، مولانا
محمود الحسن صاحب، محمداظہار عالم صاحب، چینئی سے محمد قاسم انصاری صاحب کے
اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔ دیگر صاحبان کے علاوہ بھوپال، بنگلورسے بھی
لوگ شریکِ جلسہ تھے۔ آخر میںمولاناؒ کی مغفرت کی دعا کے ساتھ یہ شاندار
یادگار جلسہ اختتام پذیر ہوا۔ |