جموں کشمیر اور ہریانہ کا انتخاب ٹوئینی ٹوئینٹی کا کھیل
تھا جو برابری پر ختم ہواکیونکہ ایک مقام پر بی جے پی ہاری اور دوسری جگہ
جیت گئی مگر جھارکھنڈ و مہاراشٹر الیکشن ٹیسٹ میچ ہے۔ مہاراشٹر کو کئی معنیٰ
میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ اول تو یہ بی جے پی کی مادرِ تنظیم آر ایس
ایس کی جنم بھومی ہے اور اس کا صدر دفتربھی یہیں ہے۔ ہندوتوا کے جنک ’معافی
ویر‘ساورکر یہاں پیدا ہوئے اور ہندو مہا سبھا قائم کی نیز ہندو سماج میں
ذات پات کے خلاف اٹھنے والی انقلابی شاہو، پھلے اور امبیڈکر کی تحریکات بھی
اسی ریاست سے اٹھیں۔ اس لیے یہ اقتدار کے ساتھ اقدار کی بھی جنگ ہے۔ ملک کی
معاشی راجدھانی ممبئی پر مودی کے ڈوپلیکیٹ اڈانی قبضہ کرنےکا سپنا دیکھ رہے
ہیں ۔ ان کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر مہاراشٹر میں بی جے پی
کی سرکار لازمی ہے ۔ اڈانی کے اتاولے پن کا یہ عالم ہے کہ جوڑ توڑ کرکے
سرکار بناتے وقت وہ بہ نفسِ نفیس بلاضرورت حاضر ہوجاتے ہیں اور مہایوتی میں
شامل نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کمال ڈھٹائی کے ساتھ یہ انکشاف بھی فرماتے
ہیں ۔ عصرِ حاضرکے الیکشن میں چونکہ نوٹ کی اہمیت ووٹ سے زیادہ ہوچکی ہے اس
لیے سیاسی جماعتیں ممبئی کی مایا نگری میں غیر معمولی دلچسپی لیتی ہیں۔
مہاراشٹر کے اندر سب سے زیادہ 148 حلقۂ انتخاب پر بی جے پی قسمت آزمائی
کررہی ہے۔ماہرین کے مطابق صرف 80 سے 90 سیٹوں پروہ بہتر حالت میں ہے2019
میں اسے 105 نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔ دو نوں مخالف جماعتوں کو توڑ کر
ڈبل انجن سرکار بنانے کے باوجود اگر یہ نتائج آجائیں تو بی جے پی کے لیے
شرمناک بات ہے۔ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی شیوسینا کے اب بھی 30-35 مقامات
پر کامیاب ہونے کا امکان ہے جبکہ اجیت پوار کی قیادت والی این سی پی کے
بارے میں 15-20 نشستوں کا امکان جتایا جارہا ہے۔ اس طرح یہ تعداد125 سے145
تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کا فیصلہ نتائج کے بعد ہی ہوگا کہ یہ محض حسن اتفاق ہے
یا کھینچ تان کے لائی ہوئی تعداد کیونکہ اکثریت کے لیے بھی 145 ؍ ارکان
اسمبلی درکار ہیں۔ مہا وکاس اگھاڑی میں سب سے زیادہ 103نشستوں پر انتخاب
لڑنے والی کانگریس 52-65 سیٹ جیت سکتی ہے۔شرد پوار کی این سی پی کے 50-55
نشستیں جیتنے کا امکان ہے اور ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا کے 30-35 نشستوں پر
سمٹ جانے کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ اس تعداد کو جوڑیں تو وہ بھی 132 से
155 تک پہنچ جاتی ہے یعنی اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے ۔مہاراشٹر کے
اندر چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کا بھی 20-25 مقامات پر دبدبہ نظر
آرہا ہے۔ وہ اگر کامیاب ہوجائیں تو کنگ میکر بن سکتے ہیں۔
انتخابی نتائج سے قبل اندازے ہوتے ہیں لیکن عصرِ حاضر میں وہ بھی سائنٹفک
طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ابھی حال میں لوک پول کا میگا سروے سامنے آیا۔
ایک ماہ تک ہر حلقۂ انتخاب میں جاکر زمینی سطح سے حقائق معلوم کرنے کی
خاطر86,400 لوگوں سے رابطہ کیا گیا جو اچھا سیمپل سائز ہے۔ اس کے مطابق
کانگریس کی مہا وکاس اگھاڑی کو 151-162 سیٹیں ملنے کی امید ہےنیز بی جے پی
کی مہایوتی کو 115-128 سیٹیں ملتی نظر آرہی ہیں۔ ان اعدادو شمار سے خوش
ہوکر بے فکرہوجانا نقصان دہ ہوسکتا ہے کیونکہ کرکٹ میں جب کانٹے کی ٹکر ہو
تو آخری گیند تک کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لوک پول سے قبل آئی اے این ایس نے
میٹریز کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا تھا ۔ اس کے مطابق مہاراشٹر میں مہا
یوتی کو 145 سے 165 سیٹیں ملنے کی خوشخبری سنائی گئی تھی جبکہ ایم وی اے
اتحاد کو 106 سے 126 سیٹیں ملنے کا اندازہ لگایا گیا تھا ۔ دیگر لوگوں کے
لیےصفر سےپانچ سیٹیں رکھی گئی تھیں ۔ ان دونوں جائزوں کو بیک نظر دیکھا
جائے تو مقابلہ برابر کا لگتا ہے۔
سی ووٹر نے اعدادوشمار کے پھیرے میں پڑنے کے بجائے عوامی رجحان معلوم کرنے
کی کوشش کی۔ اس میں رائے دہندگان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بی جے پی شندے
حکومت سے ناراض ہونے کے سبب اسےبدلنا چاہتے ہیں؟ تو 51.3% لوگوں نے تائید
کی اور کہا وہ نہ غصے میں ہیں بلکہ تبدیلی بھی چاہتے ہیں ۔ یہ تو بہت زیادہ
مضطرب لوگوں کی بات تھی مگر 3.7% ایسے ووٹرس بھی تھے جو ناراضی کے باوجود
حکومت کو بدلنا نہیں چاہتے۔ اس طرح صرف 41 فیصد عوام موجودہ حکومت سے خوش
ہے اور اسے دوبارہ اقتدار میں بھی لانا چاہتی ہے۔ ان لوگوں کے علاوہ 4 فیصد
لوگ کچھ کہنے کی حالت نہیں تھے یعنی وہ کسی بھی سمت جاسکتے ہیں یا انتخابی
عمل سے دور بھی رہ سکتےہیں۔ 51 فیصد سے زیادہ لوگوں میں حکومت سے ناراضی
اورتبدیلی کی خواہش خوش آئند ہے۔
مہاراشٹر کافی وسیع و عریض صوبہ ہے یعنی ممبئی سے گڈچرولی تک کا فاصلہ ایک
ہزار کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ تہذیبی و لسانی سطح پر عوام کےمزاج اور لب لہجے
میں نمایاں فرق ہے ۔الیکشن کے حوالے سے ان کی دلچسپیاں بھی مختلف ہیں ۔
مہاراشٹر کو عام طور پر 6 بڑے خطوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔خطۂ اراضی میں
ودربھ سب سےبڑا اور پھر مراٹھواڑہ ہے مگر حلقۂ انتخاب کے حوالے سے مغربی
مہاراشٹر پہلے نمبر پر ہے۔ شمالی مہاراشٹر میں سب سے کم 35 نشستیں ہیں اس
سے بھی چھوٹا کوکن ہے۔ ممبئی کا کا علاقہ کم ترین اور دھن دولت بے حساب ہے۔
ودربھ میں اس بار بی جے پی و کانگریس کے درمیان 62میں 36 مقامات پر سیدھا
مقابلہ ہے۔ ماضی میں یہ کانگریس کا گڑھ تھالیکن2019 کے اسمبلی الیکشن میں
بی جے نے وہاں 29 نشستوں پر کامیابی درج کروا کر اپنا غلبہ ثابت کیا
تھالیکن اب ہوا کا رخ بدل گیاہے۔ 2024 کے پارلیمانی انتخاب میں کانگریس نے
30؍ اسمبلی حلقوں میں اپنی برتری درج کرائی جبکہ بی جے پی صرف 15 سیٹوں پر
آگے رہ سکی ۔ آر ایس ایس کے مرکزی دفتر اور فڈنویس سمیت مرکزی وزیرنیتن
گڈکری و صوبائی صدر باون کلے کے ہوتے یہ شرمناک شکست تھی۔
ودربھ سے متصل شمالی مہاراشٹر ریاست کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔ یہ علاقہ بھی
ایک زمانے میں کانگریس گڑھ تھا اور اس بار پھر وہاں پر بی جے پی سے کانگریس
سینہ سپر ہے۔ 2019 کے ریاستی انتخابات میں بی جے نے یہاں پر 35 میں سے 20
نشستوں پر غیر معمولی کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسرے مقام پر شیوسینا تھی جسے
6 اور کانگریس کو 5 نشستیں ملی تھیں ۔ این سی پی نے بھی 4 مقامات پر اپنے
امیدوار کامیاب کیے تھے۔اس علاقہ میں آدیباسی ریزرو حلقے بھی ہیں اور
مالیگاوں و دھولیہ جیسے مسلم اکثریتی علاقہ بھی ہیں جو مہاوکاس اگھاڑی کے
لیے خوشخبری لا سکتے ہیں ۔ ان دونوں کے جنوب میں مراٹھواڑہ ہے جس کا بڑا
حصہ پہلے نظام کی ریاست میں شامل تھا۔ اس علاقہ میں جرانگے پاٹل نے مراٹھوں
کے لیے ریزرویشن کی تحریک چلائی اور اس کے خلاف پسماندہ طبقات کو گول بند
کرکے بی جے پی نے انہیں رجھانے کی کوشش کی۔ پارلیمانی انتخاب میں مراٹھواڑہ
سے بی جے پی کے پنکجا منڈے سمیت سارے امیدواروں کا ہار جانا اس بات کا ثبوت
ہے کہ پسماندہ طبقات اس سے دور ہوچکے ہیں۔
یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے کہ ’بنٹوگے تو کٹو گے‘ کا نعرہ لگانے والوں
کی بدولت مراٹھواڑہ میں مراٹھوں اور پسماندہ طبقات کی رقابت بامِ عروج پر
پہنچ گئی اور ان کے درمیان بات چیت بلکہ کاروباری تعلق تک ٹوٹ گیا ۔ مغربی
مہاراشٹر دراصل شرد پوار کی این سی پی کا گڑھ رہا ہےیہی وجہ ہے کہ اس علاقہ
کی 70 میں سے زیادہ تر حلقوں میں چچا بھتیجااور اس کا بھتیجا آمنے سامنے
ہیں۔ یہاں پر بی جے پی کے تیسرے نمبر پر رہنے کا امکان ہے۔ مدعوں کی بات
کریں تو اجیت پوار کی غداری کے سبب شرد پوار کے تئیں ہمدردی کی لہر ہے۔
مراٹھا ریزرویشن کی خاطر تحریک چلانے والے جرانگے پاٹل کا انتخاب سے کنارہ
کش ہوجانا شرد پوار کو فائدہ پہنچائے گا کیونکہ وہ دیویندر فڈنویس کو خوب
برا بھلا کہتے ہیں اور اجیت پوار کے ساتھ فڈنویس کھڑےنظر آتےہیں۔ ’ایک
رہیں گے تو سیف رہیں گے ‘ کا ڈھونگ رچانے والی بی جے پی نے مہاراشٹر میں
اقتدار کے حصول کی خاطر این سی پی اور شیوسینا دونوں کو توڑا ۔ ممبئی سمیت
تھانے اور کوکن میں اصل مقابلہ شیوسینا بنام ’ٹھاکرے اور شندے‘ کے بیچ ہے۔
ادھو ٹھاکرے ممبئی اور ایکناتھ شندے تھانے سے سیاست کرتے ہیں۔ یہ علاقہ
شیوسینا کا گڑھ رہا ہے مگر پارلیمانی انتخابات کے اندرکوکن کی 39 میں سے
23؍ اسمبلی حلقوں پر مہایوتی نے برتری دکھائی جبکہ مہاوکاس اگھاڑی کو صرف
11 پر اکتفاء کرنا پڑا۔اس کے برعکس ممبئی کی 36 میں 20 پر مہاوکاس اگھاڑی
کا بول بالہ رہا اور مہایوتی کو 16 پر برتری حاصل رہی ۔ مہاراشٹر کے اندر
ذات پات کے علاوہ مہنگائی ، فصلوں کی کم قیمت اور لاڈلی بہن کا بھی اثر نظر
آئے گا ۔ اس لیے کامیابی آسان تو نہیں مگر ناممکن بھی نہیں ہے۔اس بات کی
ضرورت ہے کہ بے فکر ی یا مایوسی بچتے ہوئے متحد ہوکر فسطائی یوتی کو کولہا
پوری جوتی دکھائی جائے۔
|