امسال مئی میں جب بیوٹمز کے ایکسپو سینٹر میں پاکستان
لٹریری فیسٹیول کوئٹہ (PLF) کے زیر اہتمام عظیم الشان اجتماع میں شرکت کرنے
کے لیے پہنچا تو بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جناب سرفراز بگٹی کا خطاب جاری تھا،
سو نامور شعراء کے کلام سے محظوظ ہونے کے لیے دل پر بھاری پتھر رکھ کر وزیر
اعلیٰ صاحب کا خطاب سننے کا کڑوا گھونٹ بھی پی لیا۔ وزیر اعلیٰ کے زرین
خیالات کا لب لباب یہ تھا کہ بلوچستان کے سادہ لوح عوام خیالی مگر مقبول
بیانیے کے پیچھے کمر بستہ ہونے کے بجائے حقیقی مگر غیر مقبول بیانیے کو
سمجھنے کی کوشش کریں۔ مزید فرمایا کہ مانتا ہوں میرا بیانیہ پاپولر نہیں ہے
لیکن بلوچستان کے حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں بھی کوئی صداقت
نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ مسنگ پرسنز نہیں ہے، یہاں پر
امن و امان ہے، بلوچستان کے تمام تر وسائل بلوچستانیوں پر خرچ ہوتے ہیں،
بلوچستان کے لوگوں میں احساس محرومی یا احساس بیگانگی وجود ہی نہیں رکھتا
اور عوام خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ آخر
میں نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ اس بیانیے کو شکست دینے کے آپ
نے آگے آنا ہو گا، اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے مذموم عزائم
کو ناکام بنانا ہے۔ یعنی اپنے پیشں روؤں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وزیر
اعلیٰ نے جوش خطابت کی آڑ میں وہ تمام کتابی باتیں اور رٹے رٹائے جملے
دہرائے جن کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی نہیں تھا۔
بلوچستانی عوام اب اس نوعیت کے تکراری جملے سن سن کر تھک گئے ہیں جو
بالخصوص وہ دہشت گردی، سانحات اور حادثات کے موقع پر بولتے آئے ہیں۔ جیسا
کہ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں ؛ قرار واقعی سزا دی جائے گی؛ شہیدوں کا
لہو رائیگاں نہیں جائے گا؛ شہید کی موت قوم کی حیات ہے ؛ کسی قسم کی قربانی
سے دریغ نہیں کریں گے ؛ اور دشمنوں کے اوچھے ہتھکنڈے ہمارے حوصلے پست نہیں
کر سکتے۔ اب قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے، جذباتی خطابات کرنے اور
خالی خولی نعروں کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
عذر گناہ بدتر از گناہ است کے مصداق، پہلے خلوصِ نیت سے یہ تسلیم کرنا پڑے
گا کہ بلوچستان مسائل کا گڑھ ہے، بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی ایک
ناگزیر حقیقت ہے، بلوچستان میں حقیقی سیاسی جماعتیں اور سیاست دانوں کو
دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے اور بلوچستان کا مکمل انتظام و انصرام غیر
منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ تعلیمی زبوں حالی اور شعبہ صحت کی بربادی
اب صوبے کی پہچان بن گئی ہے۔ گزشتہ چند مہینے امن و امان کے حوالے سے اہل
بلوچستان کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوئے۔ پنجابی مزدوروں کو بس سے اتار کر
قتل کرنا، کوئلے سے لدی ہوئی گاڑیوں کو جلا کر خاکستر کرنا، بلوچ علیحدگی
پسند تنظیموں کا ایک بار پھر متحرک ہو کر قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش
کرنا، دہشت گردی کے واقعات میں اچانک اِضافہ دیکھنے کو ملنا، ہرنائی میں
نہتے کانکنوں پر براہ راست فائرنگ کر کے درجن بھر مزدوروں کو موت کی گھاٹ
اتارنا، کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر خون ریز خودکش دھماکا ہونا اور حال ہی میں
نو سال کے معصوم بچے محمد مصور کا لاپتہ ہونا۔ یہ تمام واقعات بلوچستان میں
بیڈ گورننس اور حکومت کی ناکامی کا اعتراف ہے۔
کئی دنوں سے اغواء شدہ بچے کے عزیز و اقارب بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا
دیے ہوئے ہیں، لیکن اب تک ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔
احتجاج کی وجہ سے کوئٹہ کے باسیوں، بیماروں، تاجروں اور طلبہ کو شدید
مشکلات کا سامنا ہے۔ اعلیٰ عہدیداران سمجھتے ہیں کہ کچھ ہوا ہے ہی نہیں اور
سب کچھ اچھا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ دہشت گردی ایک ایس ایچ او کی مار
ہے۔ ان کی نظر میں مسنگ پرسنز، دھماکے، بدامنی، بدعنوانی، میرٹ کی پامالی،
گیس بحران اور لوڈ شیڈنگ یہ سب سازشی عناصر کے چھوڑے ہوئے ڈھکوسلے ہیں۔
حکمرانوں کی نظر میں اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کو سوشل میڈیا کے
نقصانات اور فحش ویب سائٹ کے گناہوں سے بچانا ہے۔ اسی لیے پی ٹی اے کے
طہارت پسند ریٹائرڈ چیئرمین نے اسلامی نظریاتی کونسل میں بے کار بیٹھے چند
زر خرید علماء سے وی پی این کے استعمال کو صرف غریب عوام کے لیے غیر شرعی
قرار دلوایا ہے۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ممکنہ خطرات اور مشکلات
کا مقابلہ شترمرغ کی طرح منہ کو ریت میں چھپانے سے نہیں، بلکہ طویل المدتی
منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی خطے کے لوگوں میں کوئی بھی
بیانیہ سازش سے نہیں، بلکہ وہاں کے زمینی حالات سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے
مقبول ہو جاتا ہے۔
بلوچستان کے حالات کا بچے بچے کو علم ہے کہ یہاں کے لوگوں میں احساس محرومی
ہے، سہولیات کا فقدان ہے، تعلیمی زبوں حالی ہے، میرٹ کی پامالی ہے، بے
روزگاری اور مایوسی ہے، جمہوریت رو بہ زوال ہے، سرداری نظام کو تاحال دوام
حاصل ہے، صوبائی خودمختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے، ایوان میں حقیقی نمائندگی
نہ ہونے کے برابر ہے، کورٹ کچہری میں انصاف برائے فروخت ہے، ایرانی تیل
سمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے، ایوان مقتدرہ کی خواہشات اور منصوبوں کی
تکمیل کے لیے ربڑ سٹیمپ کا کردار ادا کرتا رہا ہے، دفاتر میں صرف نوٹوں کے
چمتکار سے فائل آگے بڑھ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال ویران ہیں اور نجی ہسپتالوں
میں قصائیوں کا راج ہے۔ صفائی کا نظام درہم برہم ہے اور جگہ جگہ بند گٹروں
کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ گیس اور بجلی کے بھاری بھر کم بلوں نے
عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ شہر بھر میں ٹینکر مافیا کا راج ہے۔ مہنگائی
آسمان کو چھو رہی ہے۔ لوڈ شیڈنگ زوروں پر ہے۔ دھماکے پر دھماکے ہو رہے ہیں
اور روزانہ قیمتی جانیں لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بڑے بڑے
ایوانوں میں بیٹھے چھوٹے لوگ اب تک یہ سمجھتے آرہے ہیں کہ سب اچھا ہے،
بلوچستانی افواہوں پر کان نہ دھریں، مقبول سازشی بیانیے کو تقویت نہ دیں،
سیاست دانوں اور مقتدرہ پر تنقید نہ کریں اور ہر حال میں حب الوطنی کا
مظاہرہ کریں، کیونکہ قسمت میں لکھی ہوئی ہونیوں کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔
|