ترقی پسند شاعر و ادیب پروفیسر مسلم شمیم

ترقی پسند شاعر و ادیب پروفیسر مسلم شمیم
٭
ڈاکٹر رئیس صمدانی
پروفیسر ایمریٹس۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور
مسلم شمیم صاحب کا نامِ نامی اسم گرامی ادیبوں اور شاعروں کی برادری میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ان کا شمار ترقی پسند ادیب کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ اردو ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں، ایک توانا شاعر اور مشاق اور آزمودہ کار نثر نگار ہیں۔ انہیں مسلم شمیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مجھے ن کی قربت کچھ عرصہ قبل ہی ادیبوں اور شاعروں کے صفیر شہزاد سلطانی کے توسط سے میسرآئی۔ اگر وہ مسلم شیم کو مجھ سے متعارف نہ کراتے تو میں ایک اچھے، پر خلوص اور محبت کرنے والے انسان کی قربت سے محروم رہ جاتا ہے۔ اچھے اور بھلے لوگوں سے میل ملاقات ہماری سوچ، ہمارے ارادوں، ہمارے عمل اور ہماری روح پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔
سرور بارہ بنکوی کا شعر ؎
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں
مسلم شمیم کے بارے میں معلومات کا جو ذریعہ مجھے میسر آیا وہ ایک کتاب ”مسلم شمیم۔شخصیت و فن“ ہے جو شہزاد سلطانی نے ہی مجھے فراہم کی۔ یہ کتاب دراصل مسلم شمیم کی شخصیت اور فن پرایم اے کی سطح پر ہونے والا تحقیقی مقالہ ہے جو پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کی زیر نگرانی طالبہ شہنیلا نازنین نے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو میں 2007ء میں لکھا تھا جس پر طالبہ کو ایم اے اردو کی سند تفویض ہوئی۔
مسلم شمیم کی زندگی کا پہلا دور پٹنہ، متحدہ ہندوستان
مسلم شمیم صاحب کا تعلق ہندوستان کے صوبے بہار شریف کے شہرپٹنہ سے ہے۔کسی شاعر نے کہا۔ کسی شاعر نے دہلی کے بارے میں کہا ؎
کیا بود و باش پوچھوہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
اس کو فلک نے لوٹ کر ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
شاعر نے اجڑے دیار دلی(دہلی) کو کہا لیکن پٹنہ اجڑا دیار نہیں بلکہ وہاں کے مکیں ہر اعتبار سے علم و ادب سے جڑے ہوئے، تہذیب و تمدن کے اعلیٰ معیار اور قابل رشک اخلاق کے حامل رہے ہیں اور اب بھی ہیں۔جہاں تک پٹنہ کا تعلق ہے وہ صوبہ بہار کا دارالحکومت۔ یہ گنگا کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ علم و ادب کے حوالے سے پٹنہ اپنی ایک الگ پہچان اوور تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔اسے ادب اور ثقافت، شائستگی اور اخلاق کا نمونہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پٹنہ علم و ادب اور تعلیم کا مرکز بھی رہا ہے۔ پٹنہ یونیورسٹی صوبہ بہار کی اولین اور برصغیر کی ساتویں قدیم یونیورسٹی ہے جس کا قیام برطانوی دور حکومت میں 1917ء میں عمل میں آیا۔
مسلم شمیم کا دوسرا دور پاکستان ہجرت اور سکھر و لاڑکانہ میں قیام
مسلم شمیم نے1939ء میں بھارت کی ریاست بہار شریف میں جنم لیا۔ گریجویشن پٹنہ یونیورسٹی سے کیا اور1956ء میں پاکستان ہجرت کی پنجاب کی سرزمیں سے ہوتے ہوئے سندھ کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا، سکھر اور لاڑکانہ ان کی ابتدائی رہائش گاہیں تھیں۔ اور 1972تک سکھر اورپھر لاڑکانہ میں قیام رہا۔یہاں آخر انہوں نے علمی اور ادبی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا، ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی اور ترقی پسند احباب کے ساتھ مل کر فعال کردار ادا کیا۔ہجرت اور اندرون سندھ قیام کے بعد مسلم شمیم کا پاکستان میں حصول علم کا سورج طلوع ہوا اور جامعہ کراچی سے سیاسیات اور اردو ادبیات میں ماسٹر کرنے کے بعد قانون کی تعلیم کی جانب رخ کیا اور ایل ایل بی کر کے عملی طور پر قانون کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ اس سے قبل وہ لاڑکانہ کے ایک کالج میں استاد کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔ کالے کوٹ کی ذمہ داریوں کے ساتھ شاعری اور نثر نگاری کا عمل جاری رہا اور کئی شعری مجموعے اور نثری مجموعات منظر عام پرآئے۔
مسلم شمیم کا تیسرا دور کراچی میں قیام
مسلم شمیم کی زندگی کا تیسرا دور کراچی میں قیام کو کہا جاسکتا ہے۔ سکھر اور لاڑکانہ میں کچھ عرصہ قیام کے بعدانہوں نے کراچی کا رخ کیا، یہاں مقصد تعلیم کا حصول تھا اور ایسا ہی ہوا۔ کراچی میں قیام کے دوران انہوں نے پروفیسر سید فخر الحسن کا بھی ذکر کیا، حسن اتفاق کہ سید فخر الحسن میرے بھی استاد رہے۔ نفیس اور قابل استاد تھے۔ مسلم شمیم کا قیام کراچی میں 1972ء سے شروع ہوتا ہے تاحال کراچی کا ان کا مسکن ہے۔
معاشی مصروفیات کے علاوہ مسلم شمیم نے اپنے آپ کو قلم و قرطاس سے جوڑے رکھا، ان کی شاعری مختلف ادبی رسائل کی زینت بنتی رہی، نثری مضامین شائع ہوتے رہے۔ ابتدا میں جریدہ ’طلوع انکار‘ کے اداریے بھی لکھے، یہ بات ہے 1973 ء کی۔علم و ادب سے وابستگی کی بات آگے بڑھی تو تصانیف و تالیفات کی جانب راغب ہوئے اور ایک کے بعد دوسری شاعری اور نثری مجموعات منظر عام پر آتے گئے۔ مسلم شمیم کے طرز تحریر کے حوالے سے محققہ شہنیلا نازنین نے درست لکھا کہ ”مسلم شمیم اپنی تحریریں لکھتے ہوئے نہ کسی کی تعریف میں مبالغہ آمیز پیرائیہ بیان کرتے ہیں اور نہ بلا وجہ کسی کی مذمت کرتے ہیں بلکہ جو کچھ دیکھتے ہیں، جو کچھ محسوس کرتے ہیں اسے علم و دانش، حیات و کائنات اور آفاقی تجزیوں کی روشنی میں ترقی پسندانہ فہم کے ساتھ بیان کرتے جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا ذہنی و فکری رشتہ ترقی پسندنظریات سے بہت پختہ اور سچا ہے اور وہ اس پر کئی برسوں سے قائم بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ ترقی پسند مصنفین سے بھی شروع سے اب تک وابستہ ہیں‘‘۔ مسلم شمیم کی نثر اور نظم کے کئی مجموعے آچکے ہیں۔ مسلم شمیم کا ایک شعر ؎
سب اہل بزم مرے حُسن شعر تک پہنچے
مگر نہ کوئی دلِ سوگوار تک پہنچے
ترقی پسند شفیق احمد شفیق نے اپنی کتاب ”ایک سو اکیس ترقی پسند قلم کار (فکر و فن، تحقیق، تجزیے کے تناظر میں) جو انجمن ترقی اردو پاکستان نے رواں برس ہی شائع کی، مسلم شمیم پر اپنے لکھے گئے مضمون بعنوان ”مسلم شمیم نقد و نظر کے آیئنے میں“ ان کی تنقید نگاری کے حوالے سے لکھا ”مسلم شمیم تنقید نگاری میں توازن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ افلاطون اور بقراط بننے کی کوشش نہیں کرتا اس کا اسلوب سادہ رواں اور عالمانہ ہے، وہ حتی الوسیع تنقید کو تنقیص نہیں بننے دیتے۔ نہ ان کی تنقید قصیدہ خوانی سے عبارت ہے، وہ بے بنیاد خیال آرائی سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔شاعری ہو یا تنقید یا ”طلوع افکار“ کا اداریہ ہر جگہ سنجیدگی کی فضاء کو اولیت دیتے رہے ہیں“۔
مسلم شمیم کی شاعری کے بارے میں شفیق احمد شفیق کی رائے ہے کہ ”مسلم شمیم کی شاعری میں تازگی ئ فکر و فن ہے۔ حیات و کا ئنات کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں، شوقِ فراواں کی لہریں صورت ِصبا گرم خرام ہیں۔ لفظیات کے درد بست میں فنکارانہ پختگی ہے۔ گھسی پٹی زمین کے بجائے نئی نئی زمین پر غزلیں تخلیق کرنے کی للک، امنگ و ترنگ، ایک رجحان کی صورت میں ان کے یہاں موجود ہے ل نگار کی شیوہ طرازی کے قتیل و اسیر ہیں۔ غزل کی ا یما ئیت، اشارت اور نزاکت کے توسط سے معنی آفرینی کی تخلیقی کوشش کرتے ہیں اور سرخ رو ہوتے ہیں“۔
تصانیف و تالیفات: مسلم شمیم استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ادیب، شاعر، اہل فکر و دانش، صحافی اور ترقی پسند نثر نگار کے طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ سالِ رواں میں شائع ہونے والی تصنیف ’اکیسویں صدی کی ادبیات‘ میں حسب ذیل تصانیف کا ذکر ہے۔ جن کی تعداد15ہے۔
نثر نگاری
۱۔ آدرش (نثری مجموعہ)
۲۔ نظریات کا تصادم (نثری مجموعہ)
۳۔ فکر و فن کے جزیرے (نثری مجموعہ)
۴۔ لاڑکانہ کے چہار درویش (نثری مجموعہ)
۵۔ سیکولر مفکرین۔سقراط سے سبط حسن تک (مجموعہ مضامین)
۶۔ دبستان لاڑکانہ (مجموعہ مضامین)
۷ دبستان بھٹائی کے نورتن (مجموعہ مضامین)
۸۔ تناظر (نثری مجموعہ)
۹ مسلم نشاۃ ِ ثانیہ کے عناصرِ خمسہ (نثری مضامین): مدون اکبر خان کیانی
۰۱۔ اکیسویں صدی کی ادبیات (مجموعہ مضامین)، مدون: اکبر خان کیانی
۱۱۔ شوکت عابدی۔فن و شخصیت (نثری مجموعہ)، تالیف
۲۱۔ Fundamentals of Islamism نثری مضامین
شاعری
۳۱۔ امکان (شعری مجموعہ)
۴۱۔ بیان (شعری مجموعہ)
۵۱۔ طلوع (شعری مجموعہ)
پاکستان میں پہلے مشاعرے میں جو غزل پڑھی اس کا ایک شعر ؎
ہمہ لذت غم ِ جہاں میں
زندگی ہم سفر ڈھونڈ لے گی
مسلم شمیم صاحب کا ایک اور شعر ؎
اک عمر، شمیمؔ آپ کی اس چاہ میں گزری
تپتے ہوئے صحراؤں میں چشمہ کوئی پھوٹے
شخصیات مسلم شمیم کا دلچسپ موضوع رہی ہیں۔ انہوں بے شمار شخصیات کو قرطاس پر متعارف کرایا۔ ان میں ترقی پسند شخصیات زیادہ ہیں۔ ان میں سے ایک معروف شاعر و ادیب فیض احمد فیضؔ ہیں۔ اس حوالہ سے مسلم شمیم کا ایک شعر دیکھئے ؎
کم نہ تھا عہد جوشؔ، فیضؔ، شمیم
کوئی غالب سا، کوئی میرؔ سا تھا
مسلم شمیم ترقی پسند شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ماضی کے ترقی پسند شاعروں سے عقیدت واضع طور پر دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے سب سے زیادہ فیضؔ سے کسب فیض کیا۔ اس میں شاید ان کے میلان طبع کا بھی دخل ہو، کیونکہ مسلم شمیم بھی دھیمے لہجے کے رومانی شاعر ہیں۔ مسلم شمیم کے
کتنے ہی اشعار فیض کے لہجے میں ہیں اوریہ عقیدت ان کے یہاں ایک تحت الشعوری عادت کے مترادف ہے۔دیکھئے چند اشعار ؎
دھوپ کی آتشیں چادر میں جھلستا ہوا جسم
(مسلم شمیم)
ریشم و اطلس و کمخو اب میں بنوائے ہوئے
جابجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
(فیض احمد فیض ؔ)
خون بہا کس سے طلب کیجئے اپنے خوں کا
شک کا اظہار کریں کس پہ، عدو کس کو کہیں
کس پہ الزام دھریں، کس پر اٹھائیں انگلی
آستیں اپنی ، لہو اپنا ہے ، خنجر اپنا
(مسلم شمیم)
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چا ہیں
(فیضؔ)
فیض کے علاوہ دیگر متعدد شخصیات کو اپنا موضوع بنایا۔ ایک صہبا اخترکے فکری اور شعری رنگ کو ایک خاص ”صہبا رنگ“ کہا ہے جو مختلف معاصر شعراء کی آمیزس سے بنا ہے لیکن اپنی انفرادیت کی وضاحت کے ساتھ ہے۔ یہاں انہوں نے صہبا اختر کی ایک معروف نظم نقل کی ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ نظم اہمیت رکھتی ہے، اس نظم کا صرف ایک شعر پیش ہے ؎
سنو ! کہ انسان کہہ رہا ہے
مجھے بچا لو ، مجھے بچا لو
فیض احمد فیض ؔ سے راقم کا تعلق بھی قربت کا رہا۔ مَیں نے میٹرک 1966)ء) کے بعدایس ایم آرٹس و کامرس کالج میں داخلہ لیا1967-1968) (گریجویشن کے لیے (1969-1970)حاجی عبد اللہ ہارون کالج، لیاری میں داخلہ لیا تو اس وقت فیض احمد فیضؔ اس کالج کے پرنسپل تھے۔سچ بات یہ ہے کہ مجھ میں ادب و شعری رجحان اُسی دور میں پیدا ہوا اور آگے بڑھا، فیض اس وقت علم و ادب کی معروف اور محترم شخصیت کے طور پر معروف تھے۔ بھٹو حکومت نے تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا تو فیض نے سرکار کی ملازمت کو قبول نہ کیا اور کالج کی ملازمت کو خیر باد کہا۔ میں ایم کر نے کے بعد سندھ حکومت کی ملازمت میں آچکا تھا اورپھر 1974ء میں میرا تبادلہ حاجی عبد اللہ ہارون گورنمنٹ کالج میں ہوگیااور کوئی بائیس سال اس کالج میں درس و تدریس میں اور فیض کے قائم کردہ کتب خانے کی نگرانی میں گزرے۔ فیض صاحب جب جب کراچی آتے بغیر اطلاع کے کالج آجایا کرتے، اسٹاف روم کبھی لائبریری میں اساتذہ ان کے گرد جمع ہوجاتے، گفتگو ہوتی، فیض صاحب سے کلام سنانے کی فرمائشیں ہوتی جسے وہ پورا کیا کرتے۔مسلم شمیم کے ساتھ میری جو شخصیت قدر مشترک ہے وہ شخصیت ہے فیض احمد فیض ؔ۔
مسلم شمیم کی شخصیت کے خدو خال
مسلم شمیم کی شخصیت کے خدو خال ان کے دوست مظہر جمیل نے مسلم شمیم کے خاکے میں کچھ اس طرح بیان کئے ہے۔خاکہ کئی برس قبل لکھا گیا اس لیے طبیعت میں طغیانی کے ساتھ ساتھ انسان کے ظاہری خدو خال میں تبدیلی کا آجانا قدرتی عمل ہے۔ مظہر جمیل نے اپنے دست کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں مختصر سے اضافہ ہی کیا جاسکتا ہے ورنہ مظہر جمیل کا بیان کردہ خاکہ حقیقت کے قریب تر ہے۔ انہوں نے لکھا”مسلم شمیم صاحب جیسے اس وقت (جب یہ خاکہ لکھا گیا) آپ کے سامنے ہیں سدا ایسے نہ تھے بے شک قد و قامت اب بھی وہی ہے جو چوتیس سال قبل ہو اکرتی تھی، جشہ بھی ہمیشہ تقریباً یہی رہا۔ یعنی میں نے انہیں موٹا یا بہت دبلا ہوتے نہیں دیکھا، لیکن شانوں سے اوپر کے حصے میں جغرافیائی حالات خاصے تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان کا سر مبارک جو فارغ البالی کی طرف گامزن ہے جہاں وقت کی چاندنی نے بسیر ا کرنا شروع کردیا ہے کبھی گنجان راتوں کا مسکن بھی ہوا کرتا تھا۔گھونگھریالے خم دار بال، بائیں کنپٹی کے اوپر باریک سے مانگ بڑئے قرینے سے کاڑھی جاتی تھی جیسے سادہ رات میں کہکشاں دمکتی ہو۔میں نے انہیں کبھی لمبے بال رکھے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ مونچھوں کا طرف دار پایا، حتیٰ کہ لمبی قلموں کا شوق بھی انہوں نے کبھی نہ پالا۔ چشمہ ہمیشہ موٹے فریم ہی کا لگا دیکھا۔ کلین شیو بھی سدا کے ہیں، کم از کم اب تک تو ہیں۔ اب چہرے پر جو چند ایک لکیریں گہری ہوگئی ہیں وہ پہلے اتنی گہری نہ تھیں۔ گفتگو میں چیخم دھاڑکی عادت نہ کل تھی اور نہ آج ہے۔ خوش لباسی کا شوق ہمیشہ ہی رہا، بناؤ سنگھار سے شاید ہی کبھی غافل رہے ہوں بلکہ ایک زمانہ تھا شیروانی کہ بالائی سندھ کی گرمیوں میں شیرونی کا اہتمام کیے پھرتے تھے اور شیروانی کی بالا ئی جیب میں رنگین رومال بھی ضرور ہوتا تھا۔ 1960ء میں سکھر سے لاڑکانہ چلے گئے۔ وہاں سے بھی مشاعروں اور دوسری ادبی تقریبات میں شرکت کے لیے باقاعدگی سے آتے رہے لیکن اب قرینہ کچھ بدلا ہوا تھا شیروانی بش شرٹ میں تبدیل ہوچکی تھی اور لب و لہجہ میں انقلاب کی روشن امید نے اتر نا شروع کردیا تھا۔ دراصل وہاں ا نہیں ترقی پسندوں کی صحبت کچھ ایسی راس آئی کہ بائیں بازوں کی فکر ان کی شخصیت، شاعری اور سرگرمیوں میں نمایاں ہوتی چلی گئی اوردیکھتے ہی دیکھتے وہ اس علاقے کی ادبی ہی نہیں بلکہ سیاسی وسماجی میں زیازہ سے زیادہ داخل ہوتے گئے۔ لوگوں سے ان کا رویہ ایسا کہ جسے دیکھتے، اسے اپنی شخصیت کی بوتل میں بند کرتے چلے جاتے تھے جیسے بوتل میں جگنوبند کیا کرتے ہیں“۔
اس وقت کے مسلم شمیم ان کے دوست مظہر جمیل کے بیان کردہ مسلم شمیم سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔ جس محفل میں مسلم شمیم موجودہوں موجود احباب جو بھی موجودہوں وہ مسلم شمیم کی شخصیت سے متاثر ہوکر ہی لوٹتے ہیں، مسلم شمیم کراچی کے دور دراز علاقے میں رہتے ہیں احباب ان کی محبت میں ان دولت کدہ پر منعقد ہونے والی ادبی تقریبات میں ذوق و شوق سے شریک ہوتے ہیں
مسلم شمیم کی علمی، ادبی، سماجی خدمات اتنی وسیع ہیں کہ ایک مختصر تحریر میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں،
اس لیے کہ آپ کی خدمات سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہیں۔
مسلم شمیم کے چند اشعار ؎
اک عمر، شمیمؔ آپ کی اس چاہ میں گزری
تپتے ہوئے سحراؤں میں چشمہ کوئی پھوٹے
مسلم شیم کا ایک اور شعر ؎
دل بہل جائے گا دیکھیں گے تڑپتے جو مجھے
سیر کی سیر، عیادت کی عیادت ہوگی
(23نومبر2024)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437987 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More