علامہ اقبال کا فلسفہ خودی

حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒکے فکر و فلسفے کا مرکزی نکتہ اور جوہر کلام ان کا نظر یہ خودی ہے۔ اقبالؒ نے اسے نہایت وسیع مفہوم کے ساتھ اعلیٰ ترین مقصد حیات بنا دیا ہے۔ خودی سے اقبال کی مراد اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں تکبر و غرور نہیں ،بلکہ اقبال کے نزدیک خودی ،احساس،جرأت مندی،غیرت، جذبہ خود داری، اپنی ذات و صفات کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی انا کو شکست وریخت سے محفوظ اپنی دنیا اپنے زور بازو سے پیدا کرنے کا نام ہے۔ علامہ اقبال نے انسان کو خودی کے درس میں خود شناسی کا پیغام دیاہے یعنی آدمی خود کو پہچانے، اپنی معرفت حاصل کرے اور یہ سوچے کہ اسے اللہ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے ،اس نے کہاں جانا ہے؟اور یہ کس لئے آیا ہے، اس لئے اقبال کی خودی خود شناسی ہے، معرفت نفس ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

اقبالؒ کے نزدیک خودی انسان کا اثاثہ ہے۔ زندگی کا تحفظ ہے۔ استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی کا عمل دخل رہے گا۔ اس کی کامرانیاں، اس کی فرمان روائی، اس کی رفعتیں اور اس کی وسعتیں بے حد و بے حساب ہوں گی۔ اقبال نے خودی کو لا الہ الا اللہ سے منسلک کر دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ خودی کی بنیاد توحید پر استوار ہے۔ ایمان اسے مضبوط بناتا ہے۔ ایک اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہ سمجھنا خودی کا راز ہے۔ خودی کا ہتھیار ہے۔ خودی کی مضبوطی، اس کی بقا اور اس کی کامیابی کا ضامن ہے۔

خودی کا سر نہاں لا الہ الا االلہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا االلہ
فلسفہ خودی کا ایک بہت بڑا عنصر حیاتِ جاودانی اور بقائے دوام کا تصور ہے۔چنانچہ علامہ اقبال کے فلسفہ خودی سے آگہی کیلئے ضروری ہے کہ نصاب میں کلام اقبال کے وہ حصے شامل کیے جائیں جو آدمی کو خود شناسی اور خدا شناسی کا درس دیتے ہوں۔ اقبالؒ کے نزدیک ہر انسان کے اندر خفیہ اور خام صلاحیت پوشیدہ ہے۔ اس خام صلاحیت کو سمجھنے، اسے توانا بنانے اور اسے بروئے کار لانے سے انسان تکمیل ذات کی جانب بڑھتا ہے۔ یہ کشمکش حیات بھی ہے۔ مقصد حیات بھی ہے اور انسان کا اس دنیا میں امتحان بھی ہے۔ اس کشمکش میں وہی انسان بلندی کے زینے طے کر سکتا ہے جو اپنے آپ کو پہچانے، اپنی نظر سب سے بلند رکھے اور اسی کے مطابق جدوجہد جاری رکھے۔ اقبالؒ نے فرمایا:
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

انسان کا باطن اس کے ظاہری بدن سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن ہے۔ بدن کی ترقی ایک سطح پر آ کر رک جاتی ہے جبکہ انسان کی باطنی شخصیت کی نشوونما اور ترقی کے امکانات کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر زمین کی ظلمتوں میں پڑے ایک بیج میں اپنی نشوونما کا اتنا جنون ہے کہ وہ زمین کا سینہ چیرتے ہوئے باہر نکلتا ہے اور فضا میں بلند ہوجاتا ہے تو انسانی ذات کے ارتقا کے امکانات اس سے کہیں زیادہ اور حیران کن ہیں کیونکہ اس میں روحانی اور وجدانی طاقت موجود ہے۔

جس طرح بیج زمین سے نکل کر پودا بنتا اور بلند ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح انسانی ذات بدن کے اندر رہتے ہوئے بالیدگی حاصل کرتی ہے۔ بدن کی نشو و نما اور ترقی محدود ہے لیکن انسانی ذات کی بلندی پرواز کی کوئی حد نہیں ہے۔ اقبال کا تصور خیر و شر ہو یا تصور تقدیر یا تصور حسن یا دیگر تصوارت کا مرکز و محور ان کا تصورِ خودی ہی ہے۔ علامہ اقبال باطنی وجود کی نشوونما کے لامحدود ممکنات کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں۔ :

ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا
پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا
ظلمت کدہ خاک پہ شاکر نہیں رہتا
ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشو و نما کا
جب حضرت انسان نے جنم لیا تو رب کریم نے خودی کو آرزو کی صورت انسان کے قلب میں رکھ دیا۔ آرزو نے جستجو کو جنم دیا۔ جستجو سوچ و فکر کے بیل بوٹوں سے ہوتی ہوئی خودی تک پہنچ گئی۔ خودی کے آتے ہی ایک شعلہ سا اپنے قلب میں محسوس کیا۔ اس شعلے کی حدت نے اسے پہلے عرفان ذات اور پھر تسخیر کائنات کے سفر پر روانہ کر دیا جو تا ابد جاری رہے گا تا وقتیکہ اپنے رب کی طرف لوٹ نہیں جاتا۔ اقبال انسان کا مستقبل بے حد تابناک دیکھتے ہیں۔ وہ حیات انسانی کے بہترین آدرشوں کی جمیل ترین صورتوں اور مفید ترین مظاہر کا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ روئے زمین پر ایک نئے انسان کے آرزو مند ہیں جو ایمان، عقل، وجدان اور ارادے کے بہترین اجزا کا مرکب ہے اور ذہن و قلب کی بہترین صفات سے مزین ہے۔

 

SALMA RANI
About the Author: SALMA RANI Read More Articles by SALMA RANI: 23 Articles with 15139 views I am SALMA RANI . I have a M.PHILL degree in the Urdu Language from the well-reputed university of Sargodha. you will be able to speak reading and .. View More