کچھ شخصیات بظاہر تھوڑا عرصہ ظاہری زندگی پاتی ہیں لیکن
اپنے بے مثال کام اور شاندار کردار کو رہتی دنیا تک بطور مثال چھوڑ جاتی
ہیں۔ ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت استاذ العلماء علامہ پیر سید ہدایت رسول
شاہ قادری رحمہ اللہ علیہ ہیں۔ فیصل آباد کے علاقہ گلبرگ میں پیر سید زاہد
علی شاہ کے ایسے بے مثال فرزند ہیں جن کی اپنے تو اپنے غیر بھی تعریف کیے
بغیر نہیں رہ سکتے۔ خود تربیت یافتہ اور جو ان سے ملا وہ بھی تربیت کا فیض
لیے بغیر نہیں رہ سکا۔
قابل قدر استاذ
دارالعلوم نوریہ رضویہ میں زمانہ طالب علمی میں ہمارا نحو کا پیریڈ شاہ جی
کے پاس ہوتا تھا۔ آپ اپنے دفتر میں ہی کلاس پڑھایا کرتے ۔ چونکہ اکثر دینی
مدارس میں استاد کے احترام میں طلباء پریڈ تبدیل ہونے پر خود چل کر جاتے
ہیں تو ہم بھی تسہیل النحو پڑھنے کیلئے آپ کے دفتر میں جایا کرتے۔ پڑھانے
کا انداز نہایت جانداراور دل میں گھر کر جانے والا ہوتا۔ رات محافل اور
جلسوں میں خطاب کرنے کیلئے جاتے لیکن مجال ہے جو صبح اسمبلی یا کلاس میں
ناغہ ہوتا ہو۔ صبح سے لیکر کلاسز کے اختتام تک آپ دفتر میں ہی موجود رہتے۔
دوسروں کی مدد
آپ کی عادت تھی کہ کسی کو بھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ اہل محلہ ہی نہیں بلکہ
قریب کے علاقوں سے بھی ضرورت مند آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ نہایت
خاموشی سے ان کی مدد کردیتے۔ ہمارے ایک دوست کے بیٹے کی شادی تھی، شادی
کارڈ دینے کیلئے شاہ جی کے پاس ان کے دفتر میں آئے کارڈ پیش کیا اور گزارش
کی کہ آپ کی تشریف آوری کے منتظر ہیں۔ جب رخصت ہونے لگے تو اپنے ڈیسک سے
ایک لفافہ نکالا اور ان کو تھما دیا۔ فرمایا یہ چھوٹا سا ہدیہ ہے آپ
استعمال کرلیں، مجھے معلوم ہے کہ مہنگائی بہت ہے۔ دوست بتاتے ہیں کہ گھر جا
کر جب اس کو کھولا تو اس میں پچاس ہزار روہے تھے۔ آپ کے وصال پر بہت سارے
ایسے لوگ جن کو کبھی مدرسہ میں آتے جاتے نہیں دیکھا گیا وہ دھاڑیں مار
مارکر رو رہے تھے اور بتاتے تھے کہ فلاں فلاں دن اس طرح شاہ جی نے ہماری
مالی معاونت کی لیکن کسی کو کان و کان خبر تک نہیں ہونے دی۔
ہم سفر لوگوں کا خیال رکھنا
ایک بار شاہ جی کے ہمراہ کھرڑیانوالہ جڑانوالہ روڈ پر واقع گاؤں چوہدری
والا محفل میں جانے کا اتفاق ہوا۔ واپسی پر کافی دھند چھا گئی، دن بھر کی
تھکاوٹ اور رات کا جگ راتا تھا تو شاہ جی کی گاڑی میں بیٹھتے ہی آنکھ لگ
گئی، ایک طالب اور میں پچھلی سیٹ پر تھے، ڈرائیور پورے دھیان سے گاڑی چلا
رہا تھا۔ فیصل آباد شہر کی حدود میں داخل ہوئے تو آپ نے طالب علم کو مخاطب
کرتے ہوئے فرمایا بھئی آج سیالوی صاحب ہمارے ساتھ سفر کر رہے ہیں تو ان کو
چائے پلائے بغیر نہیں جانے دینا۔ دیکھو کوئی دکان کھلی ہے تو۔ کچہری بازار
جھنڈا ٹی سٹال کی دکان کھلی تھی اور دھند کا ماحول تھا مین روڈ کی سائڈ پر
بینچ پر ہی تشریف فرما ہوگئے اور ہم سب نے چائے پی، میں نے عرض کی کہ آپ
گلبرگ سے مدرسہ کی طرف تشریف لے جائیں میں پیدل گھر چلا جاؤں گا فرمایا ہم
راستے میں چھوڑنے والے نہیں اور مسکرا دیے اور مجھے میرے گھر پر اتارا۔
بہترین ایونٹ آرگنائزر
دارالعلوم نوریہ رضویہ فیصل آباد کے زیر اہتمام ہونے والے تمام پروگرامز
انتظامات کے حوالہ سے شاندار ہوتے ہیں۔ مہمانوں کے استقبال سے لیکر پروگرام
میں بٹھانے تک اور پھر وہاں سے کھانا کھلانے اور رخصت کرنے تک مجال ہے کہ
مہمان خود کو تنہا محسوس کرے، طلباء کی گروپ وائز ڈیوٹیاں ہوتیں، کھانے کی
تقسیم ہو یا جلسہ گاہ کی تزئین و آرائش تمام طلبہ کسی ماہر کاریگر کی طرح
مصروف کار نظر آتے ہیں۔ نعتوں کی بارات، رد قادیانیت کورس، یوم رضا، بڑی
گیارہویں یا جلسہ دستار فضیلت ہر پروگرام شاندار، نوریہ رضویہ کا مشعل
بردار جلوس عید میلاد کے موقع پر فیصل آباد کا منفرد جلوس ہے جس کی کوئی
مثال نہیں ملتی۔ طلباء کی یونیفارم کی ہو یا روزانہ کی ورزش، جوڈو کراٹے کی
تربیت ہو یا سالانہ مقابلہ جات ہمیشہ طلباء صف اول میں نظر آئے۔
کبھی خطاب کرنے کے پیسے نہیں لیے۔ اندرون شہر اکثر موٹرسائیکل پر ہی تشریف
لے جاتے، آنے والے مہمان کو کبھی کھلائے پلائے بغیر رخصت نہ کرتے، چھوٹے سے
چھوٹا طالب علم بھی آپ سے آسانی سے اپنی بات کر لیتا تھا۔ طلباء کے ساتھ
مسکراتے، ان کو حوصلہ دیتے، ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہوتے، چھوٹے
سے کام کی ایسے تعریف فرماتے کہ کرنے والا پھولا نہیں سماتا تھا ۔ یہی وجہ
ہے کہ آپ کی نماز جنازہ تاریخی دھوبی گھاٹ گرائونڈ میں ادا کی گئی اور
بلاشبہ آپ کا جنازہ فیصل آباد کے چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ شاہ جی تو
دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن اپنی یادوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اور لا
تعداد تربیت یافتہ افراد قوم کو فراہم کر گئے۔ آج آپ کے شاگرد زندگی کے
مختلف شعبہ جات میں گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
|