میں ایک عام آدمی ہوں: مہنگائی اور حکومتی فیصلے—ایک عام پاکستانی کی سوچ

میں ایک عام آدمی ہوں، اور میرا یہ اعتراف ہے کہ روزمرہ کے معاملات اکثر میری سمجھ سے باہر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب ملک کے وزیراعظم جیسے معزز ترین شخص کی جانب سے اعلان کیا جائے کہ مہنگائی کی شرح 4.9% رہ گئی ہے، تو میرے جیسے عام لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

## مہنگائی کے اعداد و شمار: حقیقت یا دکھاوا؟
وزیراعظم کے بیان کے مطابق مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے، لیکن میرے گلی محلے کے بازار میں آلو اور ٹماٹر 150 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر گئے ہیں۔ یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر یہ "مہنگائی کی شرح" کا تعین کس پیمانے پر ہوتا ہے؟ کیا یہ شرح صرف بڑے شہروں کے ایئرکنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے ماہرین کے لیے ہے، یا ان لوگوں کے لیے جو دن رات محنت کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں؟

عام آدمی کے لیے مہنگائی کا مطلب صرف وہ اشیا ہیں جو وہ روز کھاتا اور استعمال کرتا ہے—آٹا، چینی، سبزیاں، اور ایندھن۔ اگر یہ مہنگی ہو رہی ہیں تو ہم کیسے مان لیں کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے؟

## حکومتی اخراجات اور غیر ملکی دورے
دوسرا سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزرا کے غیر ملکی دوروں سے ملک کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ ہر روز اخبارات میں خبر آتی ہے کہ وزیراعظم فلاں ملک گئے، وزیر خزانہ فلاں کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان دوروں پر یقیناً پیسہ خرچ ہوتا ہے—جہاز میں ایندھن، رہائش، پروٹوکول، اور دیگر اخراجات۔ ایک عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دورے واقعی ضروری ہیں؟ کیا ان کا ملک کی معیشت پر مثبت اثر پڑتا ہے؟

دنیا کے طاقتور ترین ممالک، جیسے امریکہ اور چین کے صدور بھی اس تعداد میں دورے نہیں کرتے جتنے ہمارے حکومتی عہدیداران کرتے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان دوروں کا مقصد کیا ہے اور کیا یہ خرچ واقعی قابلِ جواز ہے؟

عام آدمی کا گمشدہ مقام
ایک عام آدمی کے طور پر، مجھے یہ سب سمجھنا مشکل لگتا ہے۔ شاید یہ میری کم علمی ہے، لیکن کیا حکومت کے پاس کوئی ایسا نظام نہیں جو ہمیں، عوام کو، آسان اور سادہ زبان میں سمجھائے کہ یہ فیصلے کیوں اور کیسے کیے جاتے ہیں؟ کیا حکومت مہنگائی کے اعداد و شمار کو اس طرح پیش نہیں کر سکتی کہ ایک رکشے والا، ایک مزدور، اور ایک دیہاڑی دار بھی اسے سمجھ سکے؟

## سوالیہ نشان
یہ تحریر کسی تنقید کے لیے نہیں، بلکہ ایک عام آدمی کی الجھنوں کی عکاسی کے لیے ہے۔ میں اپنی کم علمی تسلیم کرتا ہوں، لیکن کیا کوئی ہے جو ہماری الجھنوں کو سمجھائے؟ کیا واقعی حکومتی بیانات اور عوام کے تجربات میں اتنا بڑا فاصلہ ہے، یا کہیں نہ کہیں حقیقت چھپی ہوئی ہے؟

یہ سوالات صرف میرے نہیں، بلکہ ہر اس پاکستانی کے ہیں جو دن رات مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ملک کے حالات آخر کہاں جا رہے ہیں۔×�
 

Ejaz Ahmedani
About the Author: Ejaz Ahmedani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.