یہودو ہنود کے استعماری عزائم کی
تکمیل کے لئے دوسری جنگ عظیم کے بعد معرض وجود میں آنے والی یو این او کے
پلیٹ فارم اور اسکے زیلی اداروں کی چھتوں تلے امت مسلمہ کے کسی سلگتے مسائل
کا حل تلاش نہیں ہوا۔ اہل فلسطین اور کشمیر ی uno اور عالمی قائدین سے
انصاف کی صدائیں لگارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس
مسلم دنیا کے لئے تاریخ ساز ثابت ہوا۔گو کہ یہ کوئی ایسی کامیابی نہیں جو
امت کے زخم خوردہ اجسام کا اندامال کرپائے مگر اسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور
امید کی کرن کہا جائے تو غلط نہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک طرف
شام کے خلاف پیش کی جانیوالی قرارداد کو مسترد کردیا تو دوسری جانب فلسطین
کو uno کی ممبرسازی کے لئے پہلی سفارتی کامیابی نصیب ہوئی۔ امریکہ اور
یورپی یونین نے سلامتی کونسل میں شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف قرارداد
مذمت پیش کی جس میں عالمی بنارسی ٹھگ امریکہ اور گماشتوں نے دھمکی دی تھی
کہ اگر شامی حکومت نے مظاہرین پر تشدد کیا تو اسے خلاف سخت ترین اقدامات
کئے جاسکتے ہیں۔ووٹنگ ہوئی تو قراداد کے حق میں9 ووٹ آئے جبکہ 4 ممبران نے
حق رائے دہی استعمال نہ کیا۔ مذمتی قرارداد پر روس اور چین نے ویٹو کا
کلہاڑا چلا کر یہود و ہنود کو لرزا دیا۔شام کے خلاف پیش کردہ قرارداد کو
چائنا اور رشیا کی جانب سے ویٹو کیا جانا افریقی اور عرب ممالک میں پچھلے
کئی مہینوں سے جاری تبدیلی کی لہر کو روکنا ہے۔عالمی امور پر گہری دسترس
رکھنے والے اہل علم دانش کے مطابق تبدیلی کی یہ لہر عوامی جذبات کی عکاسی
کی بجائے مغربی حکمرانوں کی اس سوچ کی غماز ہے جس کی آڑ میں امیر ترین
یورپی ممالک اپنے سرغنے امریکہ کی نگرانی میں پوری دنیا کو اپنی مرضی کے
مطابق ڈھالنے کی مہم میں غلطاں ہیں۔ امریکی عزائم کا انکشاف امریکن نیشنل
سیکیورٹی آرکائیوز کی خفیہ دستاویز کی نقاب کشائی سے مترشح ہوتا ہے۔30
ستمبر2001 میں امریکی وزیردفاع رمز فیلڈ نے صدر کو خط لکھا کہ اگر جنگ کا
عالمی نقشہ تبدیل نہ ہوا تو امریکی مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔ ہمیں مقاصد کے
حصول کے لئے براہ راست حملوں کی بجائے مخالف حکومتی گروہوں کی سرپرستی کرنا
ہوگی۔واشنگٹن کو افغانستان میں القاعدہ پر توجہ دینے کی بجائے کچھ اور بھی
سوچنا چاہیے۔کیا یہ سوچنا چاہیے کہ افریقن اور عرب خطے میں جو تبدیلیاں
روبنما ہوئی ہیں وہ اسی کچھ اور سوچنے کا شاخسانہ ہے امریکہ اور حاشیہ
برداروں نے تبدیلی کی لہر میں عوامی حقوق کا فلسفہ پیش کیا۔ یہاں دو سوالات
زہن میں کودنے لگتے ہیں پہلا سوال یہ ہے کہ امریکہ کے پیٹ میں عوامی حقوق
کا مروڑ اسی موقع پر کیوں اٹھا ہے حالانکہ مصر تیونس لیبیا اور بحرین میں
بادشاہت کی حاکمیت کئی دہائیوں سے مسلط تھی اور امریکہ بہادر ان ڈکٹیٹرز کا
مائی باپ تھا۔دوسرا سوال یہ ہے کہ امریکہ کو اپنے ڈنڈے سے دنیا کو ہانکنے
کا اختیار کس نے دیا ہے امریکہ کے جارہانہ عزائم کو کسی عالمی ادارے کے کس
قانون کی شق نے عوامی حقوق کا شوشہ چھوڑ کر عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے
اور جنگیں مسلط کرنے کا اختیار تفویض کیا ہے؟ جہاں تک حقوق انسانی کا تعلق
ہے تو کیا فلسطینی اور کشمیری انسانی نسل سے تعلق نہیں رکھتے؟کیا وہ حقوق
آدمیت کے حصہ دار نہیں امریکہ نے فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق کو uno
میں اسرائیل اور بھارت کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کرکے پامال کیا ہے۔یواین
او میں شامی سفارت کار نے درست کہا کہ امریکہ تو اسرائیل کو ویٹو ویپن سے
بچانے کا عادی مجرم بن چکا ہے یہودی ارض فلسطین کے آئینی ورثا کی نسل کشی
کررہا ہے۔ امریکہ نے فرضی الزامات کا سہارا لیکر افغانستان اور بغداد پر
وحشیانہ حملے کئے اور لاکھوں عراقیوں اور افغانوں کی قتل و غارت سے انکے
حقوق کو خونی لبادہ پہنایا کیا مسلمانوں کے حقوق کی پامالی نہیں کی گئی؟
شام کے حق میںچین اور روس نے یو این او کی قرارداد ویٹو کی تو امریکہ بلبلا
اٹھا۔ماسکو اور بیچنگ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دیر اید درست اید
کے مترادف امریکہ کو اسکی اوقات دکھا دی۔یواین او کے زیلی ادارے یونیسکو نے
فلسطین کو رکن نامزد کرنے کی قراداد کو منظور کرلیا۔یہ قراداد عرب ملکوں نے
پیش کی،فرانس اور امریکہ نے عرب ریاستوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ قراداد سے
لاتعلق رہیں مگر فلسطین کے حلیف دوستوں نے تمام تر دباو کو جوتے کی نوک پر
رکھا۔ فلسطینی قراداد کے حق میں 40 ووٹوں سے منظور ہوئی۔14 ممبران ووٹنگ
میں غیر حاظر تھے جبکہ مخالفت میں4 کاہندسہ آیا۔یہ قرارداد اب جنرل اسمبلی
میں پیش ہوگی۔ امریکن سیکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے تمام مندوبین پر زور
دیا ہے کہ وہ قراداد کے خلاف ووٹ دیں۔فلسطین کے صدر محمود عباس نے پچھلے
سال 23ستمبر کوuno کے بانکی مون سے ملاقات میں درخواست دی تھی کہ فلسطین کو
uno کا ممبر بنایا جائے۔یواین او کی جنرل اسمبلی اپنے اجلاس میں یونیسکو کی
منظور کردہ قراداد کی رو سے منظور یا مسترد کرے گی۔ عرب لیگ اور oic سمیت
امت مسلمہ کو قراداد کی منظوری کے لئے اہم اقدامات کرنے ہونگے۔امت مسلمہ
اگر فلسطینیوں کو صہئیونی مظالم سے بچانے کی عملی جدوجہد کرنے سے قاصر ہے
تو اسے کم از کم فلسطین کی عالمی برادری میں شمولیت کو ممکن بنا کر اپنی
غلطیوں کا کچھ نہ کچھ کفارہ توادا کرسکتی ہے۔کیا روس اور چین شام کی طرح
فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے ویٹو کا حق استعمال کرکے اقوام عالم
کے مابین یکجہتی امن و امان اتفاق اور ڈائیلاگ کرنے کا کرشماتی کرشمہ
دکھائیں گے؟اگر ایسا ہوگیا تو یہ امریکن سپرپاوری کے خاتمے کے آغاز کا
یادگار موقع ہوگا۔ |