ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ بجلی
بحال ہوچکی ہے، ہر لمحے دھڑکا سالگا رہتا ہے ، اب گئی کہ اب گئی،مگر اب وہ
نہیں جاتی، اسی طرح واپڈ ا کے اہلکاروں کی عادت ایسی پختہ ہوچکی ہے کہ ان
کا ہاتھ غیر ارادی طور پر ہی مین سوئچ کی طرف بڑھ جاتا ہے، اسے آف کرنے کے
بعد خیال آتا ہے کہ لوڈ شیڈنگ تو ختم ہوچکی ہے، یوں گئی ہوئی بجلی دو چار
منٹ میں واپس آ جاتی ہے۔اللہ کرے ، یہ روشنیاں اسی طرح قائم رہیں اور
پاکستان اور پاکستانی قوم کا مستقبل بھی اس روشنی سے چمکتا دمکتا رہے،آمین۔
بجلی کی بحالی میں حکومت کی منصوبہ بند ی میں کچھ کمی رہ گئی ہے،تاہم کچھ
عرصہ سے حکومت نے بجلی کی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ شروع کیا ہے،اب اس
پروگرام کو زور وشور سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔خبر آئی ہے کہ
ایک سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کا ریٹ 6.40روپے فی یونٹ ہوگا، تین سو
سے سات سو یونٹ خرچ کرنے والوں کو بجلی 10.55روپے فی یونٹ ملے گی اور سات
سو سے اوپر بجلی خرچ کرنے والے 14.50روپے فی یونٹ بجلی حاصل کرسکیں گے، خبر
میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت بجلی پر سبسڈی مکمل طور پر ختم کرنا
چاہتی ہے، جس کی بنا پر قوم کو مندرجہ بالا قیمتیں اداکرنا ہونگی۔یاد رہے
کہ یہ قیمتیں مستقل نہیں ، بلکہ دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ترقی کرتی
جائیں گی۔
اگر حکومت اول روز سے ہی اس پروگرام پر عمل کرتی تو عوام کو بجلی کے بحران
کا سامنا نہ کرنا پڑتا(بجلی کے بحران کا اثر عوام پر ہی پڑتا ہے، کیونکہ
خواص کے ہاں تو لوڈشیڈنگ ہوتی ہی نہیں)۔ اب سارا دارومدار حکومت کی ہمت پر
ہے کہ وہ کس قدر تیزی سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے،یہ ماہانہ
بنیادوں پر بھی ہوسکتا ہے ،اور اس کا ایک بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ جب
اضافہ کیا جائے اس اضافے کا اطلاق پچھلے جنوری یا جولائی سے کردیا جائے، اس
اضافے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اپنا سرکاری اخراجات کا ٹیکس کا ٹ کر بجلی بنانے
والوں کو رقوم کی ادائیگی ہوسکتی ہے،اس صورت میں لوڈشیڈنگ سے نجات مل جائے
گی۔حکومت کے اس اقدام سے قوم دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گی، ایک وہ لوگ جو
ہر قیمت ادا کرسکتے ہیں، اور دوسرے وہ جن کی آمدنی کی حدیں مقرر ہیں اور وہ
ان سے باہر نہیں نکل سکتے۔ اگر غریب یا غریب نما لوگ زیادہ قیمتوں کا شور
کریں گے ،یا اس پر احتجاج کرنے کی کوشش کریں گے ، تو قریب ہی سے بہت سے لوگ
ان کی مخالفت میں نکل آئیں گے کہ شکر کرو بجلی موجود تو ہے، اگر یہ بھی نہ
ہوتی؟ کم بجلی خرچ کرلووغیرہ وغیرہ۔بجلی کی قیمتوں میں انتہائی اضافہ کرکے
اس سے ایک یہ فائدہ بھی حاصل ہوگا کہ بجلی کی کھپت میں کمی ہوجائے گی ،
کیونکہ اس کا استعمال اتنا ہی کم ہوجائے گا جتنی اس کی قیمت بڑھے گی۔
دوسری طرف جھنگ سے خبر آئی ہے کہ ایک نوجوان انجینئر نے ٹیوب ویل کے پانی
سے سستی ترین بجلی بنانے کا دعویٰ کیا ہے، اس کا کہنا ہے کہ نہروں کے بہتے
ہوئے پانی سے بھی بجلی تیا رکی جاسکتی ہے، اس نے ایک پراجیکٹ کی لاگت
25لاکھ روپے بتائی ہے، جس سے بیس سے تیس میگاواٹ بجلی تیا ر کی جاسکتی ہے،
اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے صوبائی سیکریٹری انرجی اور سرکاری انجینئروں
کی موجودگی میں ٹیوب ویل کے پانی سے بجلی بنا کر دکھائی ہے، جسے کامیاب
تجربہ قرار دیا گیا ، مگر اس کے باوجود حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی کا
مظاہرہ کیا گیا۔یہ صرف ایک انجم رفیع کی کہانی نہیں، پاکستان میں بے شمار
ایسے ٹیکنیکل لوگ موجود ہیں جو مختلف وسائل سے بجلی بنانے کے دعویدار ہیں،
مگر انہیں وسائل کی ضرورت ہے ، وہ حکومتی سرپرستی کے طلبگار ہیں، اگر ایسے
لوگوں کی سرپرستی کی جائے ،یا آسان قسطوں پر قرضے دیئے جائیں، یا حکومت خود
ان لوگوں کی خدمات حاصل کرلے تو چھوٹے پیمانے پر ہی بجلی کی پیداوار شروع
ہوجائے اور ملک بجلی کی خود کفالت کی طرف گامزن ہوجائے ، مگر کیا کیجئے کہ
یہاں تو ایسے نوجوانوں کو یہ خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے کہ اس نے کارِ سرکار
میں مداخلت کی ہے (یاکرنے کا ارادہ رکھتا ہے)، کیوں نہ اس کے خلاف دہشت
گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے؟ |