بابا جی کی آمدسےرام لیلا میدان
میں زبردست گہما گہمی کا ماحول بن گیا ہر کوئی جوش میں آگیا یوگی بابا
زندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے ایسا لگتا تھاگویا دیس ایک وشال کرانتی کے
کگار پر آکھڑا ہوا ہے ۔لوگ یوگی بابا کے پروچن کا انتظار کررہے تھے اس بیچ
جگو بھی ایک طرف آسن جما کر بیٹھ گیا جیسے ہی یوگی بابا اسٹیج پر پدھارے
سارہ پنڈال جئے گرودیو کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا ۔ بابا جی نے ہاتھ
اٹھا کر سارے لوگوں کو پرنام کیا مسکرا کر لاکھوں کے اس مجمع کو دیکھا تو
ان کا یہ ایک شاگرد آگے آیا اور بولا اب ہی اگر کسی کو شنکا ہے کہ یہ
طوفان رک جائیگا تو وہ مورکھ ہے اور اس سونامی میں بہہ کر غرق ہوجانا اس کا
مقدر ہے ۔ دوسرے ششیہ نے مائک ہاتھ میں لے کر کہااگر بابا کے دربار کی
چیتاونی سرکار دربار نے نہیں سنی تو یہ آندھی راج دربار کو اٹھا اپنے ساتھ
لے جائیگی اور ایک ایسی جگہ پٹکے گی پھر لوگ بھول جائیں گے کہ راج دربار
نام کی کوئی چیز بھی اس دنیا میں پائی جاتی تھی ۔
یوگی بابا اپنے آسن پر براجمان ہو چکے تھے اور سب لوگ مل کر ایک آواز میں
گاندھی جی کا مشہور بھجن ستیہ میو جیتے گارہے تھے ۔ جب بھجن ختم ہوا تو
پنڈال کو خاموشی نے نگل لیا ایک ایسی شانتی چاروں اور پھیل گئی مانو وہاں
کوئی موجود ہی نہ ہو لوگ سانس روک کر یوگی بابا کے بولنے کی پرتکشا کر رہے
تھے ۔ یوگی بابا حسب ِ عادت مسکرائے اور بولے آج میں آپ لوگوں کو ست یگ
کی ایک کتھا سنانے والا ہوں لیکن اس کتھا کے بعد میں آپ لوگوں سے کچھ پرشن
کروں گا اگر آپ نے سارے سوالات کے صحیح جواب دے دئیے تو آپ کی جان چھوٹ
جائیگی اور سبھا سماپت ہو جائیگی لیکن اگر آپ لوگ صحیح اترّ دینے میں سپھل
نہیں ہوئے تو میں کتھا پھر سے سناؤں گا اور پھر باقی ماندہ سوالات کروں گا
۔اس طرح یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مجھے سارے پرشنوں کے صحیح
جواب نہیں مل جاتے اس لئے اگر آپ اس مصیبت سے جلد از جلد چھٹکارہ پانا
چاہتے ہیں تو برائے مہربانی کتھا کو غور سے سنئے اور پہلی ہی بار میں سارے
سوالات کے صحیح جواب دے دیجئے اسی میں آپ کی اور میری دونوں کی بھلائی ہے
۔باباجی کی اس ظرافت پر مجمع زعفران زار ہوگیا۔
ست یگ میں بھی ایک وقت ایسا آیا تھا جبکہ اس دنیا کی اقتدارخود برہما
دیوتا کے ہاتھ سے نکل آسروں (شیطانوں) کے ہاتھ میں چلا گیااور چہار جانب
اسی طرح کی تنگی و قحط سالی پھیل گئی جیسی کہ آج کل ہے ۔ لوگ دانے دانے کو
ترسنے لگنے گویاان سے ساری نعمتیں اور برکتیں چھن گئیں ایسے نازک وقت میں
برہما نے وشنو سے مدد طلب کی اور وشنو یہ تجویز رکھی کہ دیو اور دانو جو
ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں متحد ہو جائیں اورایک دوسرے کے ساتھ مل کر امرت
منتھن کریں تاکہ زمین میں چھپے ہوئے خزانوں کو نکالا جاسکے ۔ دھرتی کے پیٹ
سے امرت (آبِ حیات)نکالنے کی پیش کش دانووں نے سنی تو وہ بہت خوش ہوگئے
مندیرا نامی پہاڑ کودودھ کے سمندر پر کھونٹے کی مانند گاڑ دیا گیااورپاتال
کے اندرسے سانپوں کے راجہ وسوطی اژدہے کو لاکر رسی کی مانندمندیرا کے گرد
لپیٹ دیا گیا ۔ وسوطی کو دم کی جانب سے دیووں نے پکڑا اور سر کی طرف دانووں
نے تھاما تاکہ منتھن کی شروعات کی جاسکے ۔
اس منتھن کے دوران سمندر اور دھرتی اپنی نعمتیں لٹاتی رہی جنہیں معاہدے کے
مطابق دونوں گروہ آپس میں تقسیم کرتے رہے لیکن اس بیچ اچانک وسوطی نام کا
اژدھا گرم ہو گیا اور اس نے اپنا زہر اگلنا شروع کر دیا ۔ اگر یہ زہر سمندر
میں مل جاتا تو سارا پانی زہریلا ہو جاتا لیکن ایسے میں وشنو نے بھولےشنکر
کے آگے گہار لگائی شنکر نے آگے بڑھکر زہر کو نگل لیا لیکن ان کی بیوی
پاروتی نے ان کا گلا دبا دیا تاکہ زہر پیٹ میں نہ اتر سکے نتیجہ یہ ہوا کہ
سارا زہر گلے ہی میں رہ اور اسی وقت سے وہ نیل کنٹھ کہلائے۔اس زہر کے باعث
جو ان کے حلق میں ٹھہر گیا تھا ان کی گردن نیلی ہو گئی ۔ اس سے پہلے کہ
امرت باہر آتا مندیرا پہاڑ سمندر کے اندر دھنسنے لگا یہ دیکھ کر وشنو نے
کچھوے کا روپ دھار لیا اور سمندر کی طے میں جاکر مندیرا کو اپنی پیٹھ پر
سنبھال لیا منتھن جاری رہا یہاں تک کہ جب آسمانی طبیب دھنونتری امرت کا جگ
لے کر نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر دونوں گروہ باؤلے ہو گئےوہ اپنا عہد بھلا
کر اس پر جھپٹے۔دانووں نے اسے دیووں سے چھین لیا مگر پھر آپس میں اس بات
پر لڑ پڑے کہ اسے کون پہلے پئے گا۔ اس بیچ وشنو نے ایک اور چالاکی دکھلائی
اور موہنی نامی خوبصورت پری کا بھیس بدل کر سامنے آئے نیز اپنی ہاتھ
چالاکی سے دانووں کو امرت کے بجائے دھوکہ دے کر شراب کی بوتل پکڑا دی ۔امرت
جب دیوتاؤں کو ملا تو وہ بھی آپس میں لڑ پڑے اور اس کا فائدہ اٹھا کر
برہما کا لڑکا ورون اسے لے اڑا اور پھر ایکبار برہما کا راج قائم ہوگیا ۔
اس پراچین کتھا کو سنانے کے بعد بابا نے پوچھا سب سے پہلے تو آپ لوگ یہ
بتاؤ کہ آج کے دور میں دیوتا کون ہیں ؟ اور دانو کون لوگ ہیں؟
لوگوں نے ایک زبان ہوکر جواب دیا:
•عوام دیوتا ہیں اورخواص دانو۔
اچھا اگر ایسا ہے تو اس کہانی میں اور آج کے حالات میں کیا مماثلت ہے ؟
لوگوں نے جواب دینا شروع کیا:
•آج بھی آسروں کا راج ہے ۔
•دیوتاؤں کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
•پھر ایکبار ان دونوں کے درمیان اتحاد قائم ہوگیا ہے اور ایک ایسا نظام
قائم ہو گیا ہے جس میں دونوں ایک دوسرے کا تعاون و اشتراک کر رہے ہیں۔
تم لوگ تو بڑے سمجھدار ہو گئے ہو اب یہ بھی بتلا دو کہ ان حالات میں فرق
کیا ہے ؟لوگ ایک کے بعد ایک فرق بتلانے لگے:
•پہلا فرق تو یہ ہے کہ کل یگ میں دیوتاؤں کے بجائے دانووں نے اشتراکِ عمل
کی پیشکش کی ہے ۔
•اور اس یگ میں کوئی شیو نہیں ہے جو دیوتاؤں کی مدد کیلئے آئے اور موہنی
کا روپ دھار کر دانووں کو بہکائے بلکہ دانووں نے دیوتاؤں کو ورغلانے کیلئے
نہ جانے کتنی مینکاؤں کو چھوڑ رکھا ہے۔
یوگی بابا نے پوچھا اور کوئی فرق تم لوگ ایک بہت بڑا فرق بھول گئے ۔ وہ کیا
لوگوں نے سوال کیا۔
•کل یگ میں وسوطی نامی اژدہےنے جب اپنا زہر اگلا تو اسے نگلنے کیلئے کوئی
نیل کنٹھ آگے نہیں آیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ راج تال کا پانی زہریلا
ہوگیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ منتھن کے باوجودساری محنت رائیگاں ثابت ہوئی
اور کوئی امرت کا فوارہ نہیں پھوٹا جو دیوتاؤں کو اقتدار سے سرفراز کرے۔
یوگی بابا کے اس جواب کے بعد لوگوں نے پھر سوال کیا گرودیو جو ہوا سو ہوا
لیکن اب کیا کیا جائے؟
بابا بولےراج تال کو پوتر کرنا اتی اوشیک (نہایت ضروری) ہے ورنہ یہ زہر
سارے سماج کو نگل جائیگا
لیکن اسے پاک کرنے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟
میں اس کیلئے گنگوتری یگیہ کروں گا ۔ہری دوار سے پوتر گنگا کی ایک شاخ کو
راج تال تک لاؤں گا اور اس سے ساری سمسیاکا سمادھان ہوجائیگا۔
لیکن اس مہم میں ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟
سب سے اہم کام تو تمہیں لوگوں کو کرنا ہے ۔
وہ کیا ؟
تم سب کو مل کر سرکار سے اس کا پرزور مطالبہ کرنا ہے ۔ اس لئے کہ مجھے نہیں
لگتا وہ لوگ اس کیلئے آسانی سے راضی ہو جائیں گے۔
لیکن کیوں ؟ آپ تو اس راج تال کو پوتر کرنے جارہے ہیں اس پر کس کو اور کیا
اپتیّ(اعتراض) ہو سکتی ہے؟
کس کو اعتراض ہوگا اور کیا اعتراض ہوگا یہ تو وقت ہی بتلائے گا؟ فی الحال
کافی ولمب ہو گیا اس لئے آپ لوگ بھوجن کرنے کے بعدوشرام کرو۔آگے کی یوجنا
کل کے پروچن میں آپ سے سمکش رکھوں گا۔
[باقی آئندہ انشااللہ] |